أبواب العيدين عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: عیدین کے احکام و مسائل 36. باب مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ باب: عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں کنواری لڑکیوں، دوشیزاؤں، پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: ”اس کی بہن کو چاہیئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دیدے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحیض 23 (324)، والصلاة 2 (351)، والعیدین 15 (980)، و21 (981)، والحج 81 (1652)، صحیح مسلم/العیدین 1 (890)، والجہاد 48 (1812)، سنن ابی داود/ الصلاة 247 (1136)، سنن النسائی/الحیض 22 (390)، والعیدین 3 (1559)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 165 (1307)، (تحفة الأشراف: 18108)، مسند احمد (5/84، 85)، سنن الدارمی/الصلاة 223 (1650) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو نماز عید کے لیے عید گاہ لے جانا مسنون ہے، جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں: یہ ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی اس طرح کی روایت آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں، ظاہر ہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہو گی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1307 و 1308)
اس سند سے بھی ام عطیہ رضی الله عنہا سے اسی طرح مروی ہے۔
۱- ام عطیہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور عیدین کے لیے عورتوں کو نکلنے کی رخصت دی ہے، اور بعض نے اسے مکروہ جانا ہے، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ آج کل میں عیدین میں عورتوں کے جانے کو مکروہ سمجھتا ہوں، اگر کوئی عورت نہ مانے اور نکلنے ہی پر بضد ہو تو چاہیئے کہ اس کا شوہر اسے پرانے میلے کپڑوں میں نکلنے کی اجازت دے اور وہ زینت نہ کرے، اور اگر وہ اس طرح نکلنے پر راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو حق ہے کہ وہ اسے نکلنے سے روک دے، ۵- عائشہ رضی الله عنہا سے نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نئی چیزوں کو دیکھ لیتے جو اب عورتوں نے نکال رکھی ہیں تو انہیں مسجد جانے سے منع فرما دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا، ۶- سفیان ثوری سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ آج کل کے دور میں انہوں نے بھی عورتوں کا عید کے لیے نکلنا مکروہ قرار دیا ۱؎۔ تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (التحفہ: 18118) (صحیح)»
وضاحت:
۱؎ اس بارے میں مروی احادیث کے الفاظ سے عورتوں کو عید گاہ جانے کی سخت تاکید معلوم ہوتی ہے، ایک روایت میں تو «اَمَرَنا» ”ہم کو حکم دیا“ کا لفظ ہے، اور ایک میں «اُمِرْنا» ”ہم کو حکم دیا گیا“ کا لفظ ہے، نیز حج اور دیگر دنیاوی مجالس میں نکلنے کے سبھی قائل ہیں تو عید گاہ کے لیے نکلنے کی یہ سارے تاویلات بیکار ہیں، ہاں جو شرائط ہیں ان کی پابندی سختی سے کی جائے، نہ کہ مسئلہ اپنی طرف سے بدل دیا جائے، ابن حجر، عائشہ رضی الله عنہا کے قول پر فرماتے ہیں: نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا، نہ ہی منع فرمایا، یعنی عائشہ بھی روک دینے کی بات نہ کر سکیں، کیسے کرتیں؟ بات دینی مسئلہ کی تھی جس کا حق صرف اللہ اور رسول کو ہے۔ |