(مرفوع) اخبرنا هارون بن عبد الله الحمال، قال: حدثنا عثمان بن عمر، عن يونس بن يزيد، عن الزهري، عن يزيد بن هرمز، ان نجدة الحروري حين خرج في فتنة ابن الزبير , ارسل إلى ابن عباس يساله عن سهم ذي القربى: لمن تراه؟، قال:" هو لنا لقربى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قسمه رسول الله صلى الله عليه وسلم لهم"، وقد كان عمر عرض علينا شيئا رايناه دون حقنا فابينا، ان نقبله، وكان الذي عرض عليهم، ان يعين ناكحهم , ويقضي عن غارمهم , ويعطي فقيرهم , وابى ان يزيدهم على ذلك. (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ خَرَجَ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ , أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى: لِمَنْ تُرَاهُ؟، قَالَ:" هُوَ لَنَا لِقُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَسَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ"، وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا شَيْئًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا فَأَبَيْنَا، أَنْ نَقْبَلَهُ، وَكَانَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيْهِمْ، أَنْ يُعِينَ نَاكِحَهُمْ , وَيَقْضِيَ عَنْ غَارِمِهِمْ , وَيُعْطِيَ فَقِيرَهُمْ , وَأَبَى أَنْ يَزِيدَهُمْ عَلَى ذَلِكَ.
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری جب عبداللہ بن زبیر کے عہد میں شورش و ہنگامہ کے ایام میں (حج کے لیے) نکلا ۲؎ تو اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ (مال غنیمت میں سے) ذی القربی کا حصہ (اب) کس کو ملنا چاہیئے ۳؎، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت کے سبب وہ ہمارا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انہیں قرابت والوں میں تقسیم کیا تھا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں ہمارے حق سے کچھ کم حصہ دیا تھا تو ہم نے اسے قبول نہیں کیا، اور جو بات انہوں نے جواز میں پیش کی وہ یہ تھی کہ وہ اس کے ذریعہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا) نکاح کرانے والوں کی مدد کریں گے، اور ان کے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا اور ان کے فقراء و مساکین کو دیا جائے گا، اور اس سے زائد دینے سے انکار کر دیا۔
وضاحت: ۱؎: مال فئی اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ و جدال کئے بغیر حاصل ہو، لیکن مؤلف نے اس میں فیٔ اور غنیمت دونوں سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں، اور پہلی حدیث میں فیٔ کے ساتھ ساتھ ”غنیمت“ میں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوی القربی کے حصے کی بابت سوال کیا گیا ہے۔ ۲؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تھا۔ ۳؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت سے ذوی القربی کا حصہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیا تھا، آپ کی وفات کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ حصہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا یا امام وقت کے رشتہ داروں کا؟“ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال تھا (نیز قرآن کا سیاق بھی اسی کی تائید کرتا ہے) کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا اور اب بھی ہے اس لیے ہمیں ملنا چاہیئے، جب کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے رشتہ داروں کے ہاتھ میں نہ دے کر خود ہی آپ کے رشتہ داروں کی ضروریات میں خرچ کیا، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا موقف بھی یہی تھا کہ امام وقت ہی اس خمس (غنیمت کے پانچویں حصہ) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں خرچ کرے گا۔
(موقوف) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يزيد وهو ابن هارون، قال: انبانا محمد بن إسحاق، عن الزهري، ومحمد بن علي، عن يزيد بن هرمز، قال: كتب نجدة إلى ابن عباس يساله عن سهم ذي القربى: لمن هو؟، قال يزيد بن هرمز: وانا كتبت كتاب ابن عباس إلى نجدة كتبت إليه:" كتبت تسالني عن سهم ذي القربى: لمن هو؟ وهو لنا اهل البيت , وقد كان عمر دعانا إلى ان ينكح منه ايمنا، ويحذي منه عائلنا، ويقضي منه عن غارمنا، فابينا إلا ان يسلمه لنا , وابى ذلك , فتركناه عليه". (موقوف) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى: لِمَنْ هُوَ؟، قَالَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ: وَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ كَتَبْتُ إِلَيْهِ:" كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى: لِمَنْ هُوَ؟ وَهُوَ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ , وَقَدْ كَانَ عُمَرُ دَعَانَا إِلَى أَنْ يُنْكِحَ مِنْهُ أَيِّمَنَا، وَيُحْذِيَ مِنْهُ عَائِلَنَا، وَيَقْضِيَ مِنْهُ عَنْ غَارِمِنَا، فَأَبَيْنَا إِلَّا أَنْ يُسَلِّمَهُ لَنَا , وَأَبَى ذَلِكَ , فَتَرَكْنَاهُ عَلَيْهِ".
یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ سوال لکھا کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے) رشتہ داروں کا حصہ (آپ کے بعد) کس کا ہے؟ نجدہ کے پاس ابن عباس رضی اللہ عنہما کا جواب میں نے ہی لکھ کر بھیجا، میں نے لکھا کہ تم نے یہ سوال مجھے لکھ کر بھیجا ہے کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے) رشتہ داروں کا حصہ کس کا ہے؟ وہ ہم اہل بیت کا ہے۔ البتہ عمر رضی اللہ عنہ نے ہم سے کہا کہ وہ اس مال سے ہماری بیواؤں کا نکاح کرائیں گے، اس کو ہمارے فقراء و مساکین پر خرچ کریں گے اور ہمارے قرض داروں کا قرض ادا کریں گے، لیکن ہم اصرار کرتے رہے کہ وہ ہم ہی کو دیا جائے، تو انہوں نے اس سے انکار کیا، لہٰذا ہم نے اسے انہیں پر چھوڑ دیا۔
(مقطوع) اخبرنا عمرو بن يحيى، قال: حدثنا محبوب يعني ابن موسى، قال: انبانا ابو إسحاق وهو الفزاري، عن الاوزاعي، قال: كتب عمر بن عبد العزيز , إلى عمر بن الوليد كتابا فيه:" وقسم ابيك لك الخمس كله، وإنما سهم ابيك كسهم رجل من المسلمين، وفيه حق الله، وحق الرسول، وذي القربى , واليتامى , والمساكين , وابن السبيل، فما اكثر خصماء ابيك يوم القيامة، فكيف ينجو من كثرت خصماؤه , وإظهارك المعازف والمزمار بدعة في الإسلام، ولقد هممت ان ابعث إليك من يجز جمتك جمة السوء". (مقطوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق وَهُوَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , إِلَى عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ كِتَابًا فِيهِ:" وَقَسْمُ أَبِيكَ لَكَ الْخُمُسُ كُلُّهُ، وَإِنَّمَا سَهْمُ أَبِيكَ كَسَهْمِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَفِيهِ حَقُّ اللَّهِ، وَحَقُّ الرَّسُولِ، وَذِي الْقُرْبَى , وَالْيَتَامَى , وَالْمَسَاكِينِ , وَابْنِ السَّبِيلِ، فَمَا أَكْثَرَ خُصَمَاءَ أَبِيكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَكَيْفَ يَنْجُو مَنْ كَثُرَتْ خُصَمَاؤُهُ , وَإِظْهَارُكَ الْمَعَازِفَ وَالْمِزْمَارَ بِدْعَةٌ فِي الْإِسْلَامِ، وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ إِلَيْكَ مَنْ يَجُزُّ جُمَّتَكَ جُمَّةَ السُّوءِ".
اوزاعی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عمر بن ولید کو ایک خط لکھا: تمہارے باپ نے تقسیم کر کے پورا خمس (پانچواں حصہ) تمہیں دے دیا، حالانکہ تمہارے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کی طرح ہے، اس میں اللہ کا حق ہے اور رسول، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ تو قیامت کے دن تمہارے باپ سے جھگڑنے والے اور دعوے دار کس قدر زیادہ ہوں گے، اور جس شخص پر دعوے دار اتنی کثرت سے ہوں گے وہ کیسے نجات پائے گا؟ اور جو تم نے باجے اور بانسری کو رواج دیا ہے تو یہ سب اسلام میں بدعت ہیں، میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں تمہارے پاس ایسے شخص کو بھیجوں جو تمہارے بڑے بڑے اور برے لٹکتے بالوں کو کاٹ ڈالے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: جمہ ایسے بالوں کو کہتے ہیں جو گردن تک لٹکتے ہیں، اس طرح کا بال رکھنا مکروہ نہیں ہے، عمر بن عبدالعزیز نے اس لیے ایسا کہا کیونکہ عمر بن الولید اپنے انہیں بالوں کی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا رہتا تھا۔
(مرفوع) اخبرنا عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الحكم، قال: حدثنا شعيب بن يحيى، قال: حدثنا نافع بن يزيد، عن يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، قال: اخبرني سعيد بن المسيب، ان جبير بن مطعم حدثه، انه جاء هو , وعثمان بن عفان رسول الله صلى الله عليه وسلم , يكلمانه فيما قسم من خمس حنين بين بني هاشم، وبني المطلب بن عبد مناف؟، فقالا: يا رسول الله، قسمت لإخواننا بني المطلب بن عبد مناف , ولم تعطنا شيئا , وقرابتنا مثل قرابتهم. فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما ارى هاشما , والمطلب شيئا واحدا"، قال جبير بن مطعم: ولم يقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم لبني عبد شمس، ولا لبني نوفل من ذلك الخمس شيئا كما قسم لبني هاشم، وبني المطلب. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ جَاءَ هُوَ , وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يُكَلِّمَانِهِ فِيمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ حُنَيْنٍ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ؟، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ , وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا , وَقَرَابَتُنَا مِثْلُ قَرَابَتِهِمْ. فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا أَرَى هَاشِمًا , وَالْمُطَّلِبَ شَيْئًا وَاحِدًا"، قَالَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: وَلَمْ يَقْسِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غزوہ حنین کے اس خمس ۱؎ کے سلسلے میں آپ سے گفتگو کرنے آئے جسے آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب بن عبد مناف کے درمیان تقسیم کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائی بنی مطلب بن عبد مناف میں مال فیٔ بانٹ دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا، حالانکہ ہمارا رشتہ انہی لوگوں کے رشتہ کی طرح ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”میں تو ہاشم اور مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں“، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خمس میں سے بنی عبد شمس کو کچھ نہ دیا اور نہ ہی بنی نوفل کو جیسا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: دونوں اس خمس کے بارے میں بات چیت کرنے آئے تھے جو ذوی القربیٰ کا حصہ ہے۔ ۲؎: جبیر بن مطعم اور عثمان رضی اللہ عنہما کو اعتراض بنو ہاشم کو دینے پر نہیں تھا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق سب کو معلوم تھا، انہیں اعتراض بنو مطلب کو دے کر بنو عبد مناف کو نہ دینے پر تھا کہ بنو ہاشم کے سوا سب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت برابر تھی تو ایک کو دینا اور دوسرے کو نہ دینا؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ بنو مطلب نے بھی بنو ہاشم کی طرح آپ کا زمانۂ جاہلیت میں بھی ساتھ دیا تھا، جبکہ بنو عبد مناف نے دشمن کا رول ادا کیا تھا۔ (دیکھئیے اگلی حدیث)
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: انبانا محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن جبير بن مطعم، قال: لما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم سهم ذي القربى بين بني هاشم , وبني المطلب , اتيته انا وعثمان بن عفان، فقلنا: يا رسول الله، هؤلاء بنو هاشم لا ننكر فضلهم لمكانك الذي جعلك الله به منهم، ارايت بني المطلب اعطيتهم , ومنعتنا، فإنما نحن وهم منك بمنزلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنهم لم يفارقوني في جاهلية ولا إسلام إنما بنو هاشم , وبنو المطلب شيء واحد"، وشبك بين اصابعه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ , وَبَنِي الْمُطَّلِبِ , أَتَيْتُهُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو هَاشِمٍ لَا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِمَكَانِكَ الَّذِي جَعَلَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ، أَرَأَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ , وَمَنَعْتَنَا، فَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمْ لَمْ يُفَارِقُونِي فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ , وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْءٌ وَاحِدٌ"، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب میں تقسیم کیا تو میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنی ہاشم ہیں، آپ کے مقام کی وجہ سے ان کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرتبے کے ساتھ آپ کو ان میں سے بنایا ہے، لیکن بنی مطلب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے انہیں دیا اور ہمیں نہیں دیا۔ حالانکہ آپ کے لیے ہم اور وہ ایک ہی درجے کے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے مجھے نہ زمانہ جاہلیت میں چھوڑا اور نہ اسلام میں، بنو ہاشم اور بنو مطلب تو ایک ہی چیز ہیں“، اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے اندر ڈالیں۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کی دم کا بال (ہاتھ میں) لے کر فرمایا: ”لوگو! جو اللہ تمہیں مال فیٔ کے طور پر دیتا ہے اس میں سے میرے لیے خمس (پانچواں حصہ) کے سوا اس کی مقدار کے برابر بھی حلال نہیں ہے، اور وہ خمس بھی تم ہی پر لوٹایا جاتا ہے“۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس آئے اور اس کی کوہان سے اپنی دو انگلیوں کے درمیان ایک بال لیا پھر فرمایا: ”خمس (پانچویں حصے) کے علاوہ مال فیٔ میں سے میرا کچھ بھی حق نہیں اس بال کے برابر بھی نہیں اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے“۔
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کا مال غنیمت مال فی میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا کیا یعنی مسلمانوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ جنگ کی۔ آپ اسی میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اوپر کرتے، جو بچ جاتا اسے گھوڑوں اور ہتھیار میں جہاد کی تیاری کے لیے صرف کرتے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس (پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يحيى، قال: حدثنا محبوب، قال: انبانا ابو إسحاق، عن زائدة، عن عبد الملك بن ابي سليمان، عن عطاء في قوله عز وجل: واعلموا انما غنمتم من شيء فان لله خمسه وللرسول ولذي القربى سورة الانفال آية 41، قال:" خمس الله وخمس رسوله واحد , كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحمل منه , ويعطي منه , ويضعه حيث شاء , ويصنع به ما شاء". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلّ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى سورة الأنفال آية 41، قَالَ:" خُمُسُ اللَّهِ وَخُمُسُ رَسُولِهِ وَاحِدٌ , كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ مِنْهُ , وَيُعْطِي مِنْهُ , وَيَضَعُهُ حَيْثُ شَاءَ , وَيَصْنَعُ بِهِ مَا شَاءَ".
عطاء آیت کریمہ: «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى»”جان لو کہ تمہیں جو مال غنیمت ملا ہے اس کا خمس اللہ کے لیے اور رسول اور ذی القربی کے لیے ہے“۔ (الأنفال: ۴۱) کے سلسلے میں کہتے ہیں: اللہ کا خمس اور رسول کا خمس ایک ہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے لوگوں کو سواریاں دیتے، نقد دیتے، جہاں چاہتے خرچ کرتے اور جو چاہتے اس سے کرتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19056) (صحیح الإسناد) (سند صحیح ہے، لیکن متن مرسل ہے اس لئے کہ عطاء نے اسے نبی اکرم سے منسوب کر کے بیان کیا ہے، واسطہ میں صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے)»
(مقطوع) اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث قال حدثنا محبوب - يعني ابن موسى - قال انبانا ابو إسحاق - هو الفزاري - عن سفيان عن قيس بن مسلم قال سالت الحسن بن محمد عن قوله عز وجل { واعلموا انما غنمتم من شىء فان لله خمسه } قال هذا مفاتح كلام الله الدنيا والآخرة لله قال اختلفوا في هذين السهمين بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم سهم الرسول وسهم ذي القربى فقال قائل سهم الرسول صلى الله عليه وسلم للخليفة من بعده وقال قائل سهم ذي القربى لقرابة الرسول صلى الله عليه وسلم وقال قائل سهم ذي القربى لقرابة الخليفة فاجتمع رايهم على ان جعلوا هذين السهمين في الخيل والعدة في سبيل الله فكانا في ذلك خلافة ابي بكر وعمر . (مقطوع) أخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث قال حدثنا محبوب - يعني ابن موسى - قال أنبأنا أبو إسحاق - هو الفزاري - عن سفيان عن قيس بن مسلم قال سألت الحسن بن محمد عن قوله عز وجل { واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه } قال هذا مفاتح كلام الله الدنيا والآخرة لله قال اختلفوا في هذين السهمين بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم سهم الرسول وسهم ذي القربى فقال قائل سهم الرسول صلى الله عليه وسلم للخليفة من بعده وقال قائل سهم ذي القربى لقرابة الرسول صلى الله عليه وسلم وقال قائل سهم ذي القربى لقرابة الخليفة فاجتمع رأيهم على أن جعلوا هذين السهمين في الخيل والعدة في سبيل الله فكانا في ذلك خلافة أبي بكر وعمر .
قیس بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد سے آیت کریمہ: «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ تو اللہ سے کلام کی ابتداء ہے جیسے کہا جاتا ہے ”دنیا اور آخرت اللہ کے لیے ہے“، انہوں نے کہا: ان دونوں حصوں ”یعنی رسول اور ذی القربی کے حصہ“ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوا، تو کہنے والوں میں سے کسی نے کہا کہ رسول کا حصہ ان کے بعد خلیفہ کا ہو گا، ایک جماعت نے کہا کہ ذی القربی کا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا ہو گا، دوسروں نے کہا: ذی القربی کا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کا ہو گا۔ بالآخر ان کی رائیں اس پر متفق ہو گئیں کہ ان لوگوں نے ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور جہاد کی تیاری کے لیے طے کر دیا، یہ دونوں حصے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے زمانہ میں اسی کام کے لیے رہے۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث قال حدثنا محبوب قال انبانا ابو إسحاق عن موسى بن ابي عائشة قال سالت يحيى بن الجزار عن هذه الآية { واعلموا انما غنمتم من شىء فان لله خمسه وللرسول } قال قلت كم كان للنبي صلى الله عليه وسلم من الخمس قال خمس الخمس . (مرفوع) أخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث قال حدثنا محبوب قال أنبأنا أبو إسحاق عن موسى بن أبي عائشة قال سألت يحيى بن الجزار عن هذه الآية { واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول } قال قلت كم كان للنبي صلى الله عليه وسلم من الخمس قال خمس الخمس .
موسیٰ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن جزار سے اس آیت: «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول» کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خمس میں سے کتنا حصہ ہوتا تھا: انہوں نے کہا: خمس کا خمس ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19531) (صحیح الإسناد مرسل) (سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ، کیونکہ خمس کا اکثر حصہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی کاموں میں خرچ کر دیتے تھے۔
(مقطوع) اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث، قال: حدثنا محبوب، قال: انبانا ابو إسحاق، عن موسى بن ابي عائشة، قال: سالت يحيى بن الجزار، عن هذه الآية واعلموا انما غنمتم من شيء فان لله خمسه وللرسول سورة الانفال آية 41، قال: قلت:" كم كان للنبي صلى الله عليه وسلم من الخمس؟ قال: خمس الخمس". (مقطوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ الْجَزَّارِ، عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ سورة الأنفال آية 41، قَالَ: قُلْتُ:" كَمْ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْخُمُسِ؟ قَالَ: خُمُسُ الْخُمُسِ".
مطرف کہتے ہیں کہ عامر شعبی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے اور آپ کے صفی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ ایک مسلمان شخص کے حصے کی طرح ہوتا تھا۔ رہا «صفی»۱؎ کے حصے کا معاملہ تو آپ کو اختیار ہوتا کہ غلام، لونڈی اور گھوڑے وغیرہ میں سے جسے چاہیں لے لیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الخراج21(2991)، تحفة الأشراف: 18868) (صحیح الإسناد مرسل) (سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: «صفی» مالِ غنیمت کے اس حصے کو کہتے ہیں جسے حاکم تقسیم سے قبل اپنے لیے مقرر کر لے۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يحيى، قال: حدثنا محبوب، قال: انبانا ابو إسحاق، عن سعيد الجريري، عن يزيد بن الشخير، قال: بينا انا مع مطرف بالمربد إذ دخل رجل معه قطعة ادم , قال: كتب لي هذه رسول الله صلى الله عليه وسلم , فهل احد منكم يقرا؟ قال: قلت: انا اقرا , فإذا فيها:" من محمد النبي صلى الله عليه وسلم لبني زهير بن اقيش، انهم إن شهدوا ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، وفارقوا المشركين، واقروا بالخمس في غنائمهم , وسهم النبي صلى الله عليه وسلم وصفيه، فإنهم آمنون بامان الله ورسوله". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الشِّخِّيرِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا مَعَ مُطَرِّفٍ بِالْمِرْبَدِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مَعَهُ قِطْعَةُ أَدَمٍ , قَالَ: كَتَبَ لِي هَذِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَهَلْ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَقْرَأُ؟ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا أَقْرَأُ , فَإِذَا فِيهَا:" مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ، أَنَّهُمْ إِنْ شَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَفَارَقُوا الْمُشْرِكِينَ، وَأَقَرُّوا بِالْخُمُسِ فِي غَنَائِمِهِمْ , وَسَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفِيِّهِ، فَإِنَّهُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ".
یزید بن شخیر کہتے ہیں کہ میں مطرف کے ساتھ کھلیان میں تھا کہ اچانک ایک آدمی چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا اور بولا: میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی اسے پڑھ سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: میں پڑھوں گا، تو دیکھا کہ اس تحریر میں یہ تھا: ”اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بنی زہیر بن اقیش کے لیے: اگر یہ لوگ «لا إله إلا اللہ وأن محمدا رسول اللہ»”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں“ کی گواہی دیں اور کفار و مشرکین کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنے مال غنیمت میں سے خمس، نبی کے حصے اور ان کے «صفی» کا اقرار کریں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں رہیں گے“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث، قال: انبانا محبوب، قال: انبانا ابو إسحاق، عن شريك، عن خصيف، عن مجاهد، قال:" الخمس الذي لله وللرسول كان للنبي صلى الله عليه وسلم , وقرابته لا ياكلون من الصدقة شيئا، فكان للنبي صلى الله عليه وسلم خمس الخمس , ولذي قرابته خمس الخمس، ولليتامى مثل ذلك، وللمساكين مثل ذلك، ولابن السبيل مثل ذلك". قال ابو عبد الرحمن: قال الله جل ثناؤه: واعلموا انما غنمتم من شيء فان لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل سورة الانفال آية 41 , وقوله عز وجل: لله سورة الانفال آية 41 ابتداء كلام لان الاشياء كلها لله عز وجل ولعله، إنما استفتح الكلام في الفيء , والخمس بذكر نفسه لانها اشرف الكسب ولم ينسب الصدقة إلى نفسه عز وجل , لانها اوساخ الناس، والله تعالى اعلم، وقد قيل يؤخذ من الغنيمة شيء , فيجعل في الكعبة , وهو السهم الذي لله عز وجل , وسهم النبي صلى الله عليه وسلم إلى الإمام , يشتري الكراع منه والسلاح ويعطي منه من راى ممن راى فيه غناء ومنفعة لاهل الإسلام , ومن اهل الحديث , والعلم , والفقه , والقرآن , وسهم لذي القربى وهم بنو هاشم , وبنو المطلب بينهم الغني منهم والفقير , وقد قيل: إنه للفقير منهم دون الغني , كاليتامى , وابن السبيل، وهو اشبه القولين بالصواب عندي , والله تعالى اعلم , والصغير والكبير والذكر والانثى سواء، لان الله عز وجل جعل ذلك لهم، وقسمه رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهم، وليس في الحديث انه فضل بعضهم على بعض، ولا خلاف نعلمه بين العلماء في رجل لو اوصى بثلثه لبني فلان انه بينهم، وان الذكر والانثى فيه سواء إذا كانوا يحصون فهكذا كل شيء صير لبني فلان، انه بينهم بالسوية، إلا ان يبين ذلك الآمر به , والله ولي التوفيق , وسهم لليتامى من المسلمين , وسهم للمساكين من المسلمين، وسهم لابن السبيل من المسلمين، ولا يعطى احد منهم سهم مسكين , وسهم ابن السبيل، وقيل له: خذ ايهما شئت , والاربعة اخماس يقسمها الإمام بين من حضر القتال من المسلمين البالغين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ:" الْخُمُسُ الَّذِي لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَرَابَتِهِ لَا يَأْكُلُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ شَيْئًا، فَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُمُسُ الْخُمُسِ , وَلِذِي قَرَابَتِهِ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِلْيَتَامَى مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِلْمَسَاكِينِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِابْنِ السَّبِيلِ مِثْلُ ذَلِكَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ سورة الأنفال آية 41 , وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: لِلَّهِ سورة الأنفال آية 41 ابْتِدَاءُ كَلَامٍ لِأَنَّ الْأَشْيَاءَ كُلَّهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَعَلَّهُ، إِنَّمَا اسْتَفْتَحَ الْكَلَامَ فِي الْفَيْءِ , وَالْخُمُسِ بِذِكْرِ نَفْسِهِ لِأَنَّهَا أَشْرَفُ الْكَسْبِ وَلَمْ يَنْسِبِ الصَّدَقَةَ إِلَى نَفْسِهِ عَزَّ وَجَلَّ , لِأَنَّهَا أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَقَدْ قِيلَ يُؤْخَذُ مِنَ الْغَنِيمَةِ شَيْءٌ , فَيُجْعَلُ فِي الْكَعْبَةِ , وَهُوَ السَّهْمُ الَّذِي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَسَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْإِمَامِ , يَشْتَرِي الْكُرَاعَ مِنْهُ وَالسِّلَاحَ وَيُعْطِي مِنْهُ مَنْ رَأَى مِمَّنْ رَأَى فِيهِ غَنَاءً وَمَنْفَعَةً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ , وَمِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ , وَالْعِلْمِ , وَالْفِقْهِ , وَالْقُرْآنِ , وَسَهْمٌ لِذِي الْقُرْبَى وَهُمْ بَنُو هَاشِمٍ , وَبَنُو الْمُطَّلِبِ بَيْنَهُمُ الْغَنِيُّ مِنْهُمْ وَالْفَقِيرُ , وَقَدْ قِيلَ: إِنَّهُ لِلْفَقِيرِ مِنْهُمْ دُونَ الْغَنِيِّ , كَالْيَتَامَى , وَابْنِ السَّبِيلِ، وَهُوَ أَشْبَهُ الْقَوْلَيْنِ بِالصَّوَابِ عِنْدِي , وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ , وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالذَّكَرُ وَالْأُنْثَى سَوَاءٌ، لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ ذَلِكَ لَهُمْ، وَقَسَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ، وَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ فَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَلَا خِلَافَ نَعْلَمُهُ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ فِي رَجُلٍ لَوْ أَوْصَى بِثُلُثِهِ لِبَنِي فُلَانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ، وَأَنَّ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى فِيهِ سَوَاءٌ إِذَا كَانُوا يُحْصَوْنَ فَهَكَذَا كُلُّ شَيْءٍ صُيِّرَ لِبَنِي فُلَانٍ، أَنَّهُ بَيْنَهُمْ بِالسَّوِيَّةِ، إِلَّا أَنْ يُبَيِّنَ ذَلِكَ الْآمِرُ بِهِ , وَاللَّهُ وَلِيُّ التَّوْفِيقِ , وَسَهْمٌ لِلْيَتَامَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ , وَسَهْمٌ لِلْمَسَاكِينِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لِابْنِ السَّبِيلِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا يُعْطَى أَحَدٌ مِنْهُمْ سَهْمُ مِسْكِينٍ , وَسَهْمُ ابْنِ السَّبِيلِ، وَقِيلَ لَهُ: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ , وَالْأَرْبَعَةُ أَخْمَاسٍ يَقْسِمُهَا الْإِمَامُ بَيْنَ مَنْ حَضَرَ الْقِتَالَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ الْبَالِغِينَ".
مجاہد کہتے ہیں کہ(قرآن میں) جو خمس اللہ اور رسول کے لیے آیا ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رشتہ داروں کے لیے تھا، وہ لوگ صدقہ و زکاۃ کے مال سے نہیں کھاتے تھے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خمس کا خمس تھا اور رشتہ داروں کے خمس کا خمس اور اتنا ہی یتیموں کے لیے، اتنا ہی فقراء و مساکین کے لیے اور اتنا ہی مسافروں کے لیے۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں مال غنیمت سے ملے تو: اللہ کے لیے، رسول کے لیے، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے اس کا خمس ہے، اللہ کے اس فرمان «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل» میں اللہ کا قول «لِلَّهِ»”یعنی اللہ کے لیے ہے“ ابتدائے کلام کے طور پر ہے کیونکہ تمام چیزیں اللہ ہی کی ہیں اور مال فیٔ اور خمس کے سلسلے میں بات کی ابتداء بھی اس ”اپنے ذکر“ سے شاید اس لیے کی ہے کہ وہ سب سے اعلیٰ درجے کی کمائی (روزی) ہے، اور صدقے کی اپنی طرف نسبت نہیں کی، اس لیے کہ وہ لوگوں کا میل (کچیل) ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ غنیمت کا کچھ مال لے کر کعبے میں لگایا جائے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے اور نبی کا حصہ امام کے لیے ہو گا جو اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا، اور اسی میں سے وہ ایسے لوگوں کو دے گا جن کو وہ مسلمانوں کے لیے مفید سمجھے گا جیسے اہل حدیث، اہل علم، اہل فقہ، اور اہل قرآن کے لیے، اور ذی القربی کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا ہے، ان میں غنی (مالدار) اور فقیر سب برابر ہیں، ایک قول کے مطابق ان میں بھی غنی کے بجائے صرف فقیر کے لیے ہے جیسے یتیم، مسافر وغیرہ، دونوں اقوال میں مجھے یہی زیادہ صواب سے قریب معلوم ہوتا ہے، واللہ اعلم۔ اسی طرح چھوٹا، بڑا، مرد، عورت سب برابر ہوں گے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ان سب کے لیے رکھا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انہی سب میں تقسیم کیا ہے، اور حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہو، ہمیں اس سلسلے میں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا بھی علم نہیں ہے کہ ایک شخص اگر کسی کی اولاد کے لیے ایک تہائی کی وصیت کرے تو وہ ان سب میں تقسیم ہو گا اور مرد و عورت اس سلسلے میں سب برابر ہوں گے جب وہ شمار کئے جائیں گے، اسی طرح سے ہر وہ چیز جو کسی کی اولاد کے لیے دی گئی ہو تو وہ ان میں برابر ہو گی، سوائے اس کے کہ اس چیز کا حکم کرنے والا اس کی وضاحت کر دے۔ «واللہ ولی التوفیق» ۔ اور ایک حصہ مسلم یتیموں کے لیے اور ایک حصہ مسلم مساکین کے لیے اور ایک حصہ مسلم مسافروں کے لیے ہے۔ ان میں سے کسی کو مسکین کا حصہ اور مسافر کا حصہ نہیں دیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گا کہ ان (دو) میں سے جو چاہے لے لے اور بقیہ چار خمس کو امام ان بالغ مسلمانوں میں تقسیم کرے گا جو جنگ میں شریک ہوئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19261) (ضعیف الإسناد مرسل) (خصیف اور شریک حافظے کے ضعیف راوی ہیں، نیز مجاہد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت میں صحابی کا ذکر نہیں کیا)»
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل يعني ابن إبراهيم، عن ايوب، عن عكرمة بن خالد، عن مالك بن اوس بن الحدثان، قال: جاء العباس , وعلي إلى عمر يختصمان، فقال العباس اقض بيني وبين هذا، فقال الناس: افصل بينهما، فقال عمر: لا افصل بينهما , قد علما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" لا نورث ما تركنا صدقة"، قال: فقال الزهري: وليها رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاخذ منها قوت اهله , وجعل سائره سبيله سبيل المال، ثم وليها ابو بكر بعده، ثم وليتها بعد ابي بكر فصنعت فيها الذي كان يصنع، ثم اتياني فسالاني، ان ادفعها إليهما على ان يلياها بالذي وليها به رسول الله صلى الله عليه وسلم , والذي وليها به ابو بكر، والذي وليتها به , فدفعتها إليهما , واخذت على ذلك عهودهما، ثم اتياني يقول: هذا اقسم لي بنصيبي من ابن اخي , ويقول: هذا اقسم لي بنصيبي من امراتي، وإن شاءا ان ادفعها إليهما على ان يلياها بالذي وليها به رسول الله صلى الله عليه وسلم، والذي وليها به ابو بكر، والذي وليتها به دفعتها إليهما، وإن ابيا كفيا ذلك، ثم قال: واعلموا انما غنمتم من شيء فان لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل سورة الانفال آية 41 هذا لهؤلاء إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله سورة التوبة آية 60 هذه لهؤلاء وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل ولا ركاب سورة الحشر آية 6. قال الزهري: هذه لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة , قرى عربية فدك كذا وكذا! فـ ما افاء الله على رسوله من اهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل سورة الحشر آية 7 و للفقراء المهاجرين الذين اخرجوا من ديارهم واموالهم سورة الحشر آية 8 و والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم سورة الحشر آية 9 و والذين جاءوا من بعدهم سورة الحشر آية 10 فاستوعبت هذه الآية الناس , فلم يبق احد من المسلمين إلا له في هذا المال حق، او قال: حظ , إلا بعض من تملكون من ارقائكم ولئن عشت، إن شاء الله لياتين على كل مسلم حقه، او قال: حظه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: جَاء الْعَبَّاسُ , وَعَلِيٌّ إِلَى عُمَرَ يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، فَقَالَ النَّاسُ: افْصِلْ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ عُمَرُ: لا أَفْصِلُ بَيْنَهُمَا , قَدْ عَلِمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، قَالَ: فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَخَذَ مِنْهَا قُوتَ أَهْلِهِ , وَجَعَلَ سَائِرَهُ سَبِيلَهُ سَبِيلَ الْمَالِ، ثُمَّ وَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، ثُمَّ وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ فَصَنَعْتَ فِيهَا الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ، ثُمَّ أَتَيَانِي فَسَأَلَانِي، أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ , فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا , وَأَخَذْتُ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَهُمَا، ثُمَّ أَتَيَانِي يَقُولُ: هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنَ ابْنِ أَخِي , وَيَقُولُ: هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنِ امْرَأَتِي، وَإِنْ شَاءَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَإِنْ أَبَيَا كُفِيَا ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ سورة الأنفال آية 41 هَذَا لِهَؤُلَاءِ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة التوبة آية 60 هَذِهِ لِهَؤُلَاءِ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6. قَالَ الزُّهْرِيُّ: هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً , قُرًى عَرَبِيَّةً فَدْكُ كَذَا وَكَذَا! فَـ مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ سورة الحشر آية 7 وَ لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ سورة الحشر آية 8 وَ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ سورة الحشر آية 9 وَ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ سورة الحشر آية 10 فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الْآيَةُ النَّاسَ , فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِي هَذَا الْمَالِ حَقٌّ، أَوْ قَالَ: حَظٌّ , إِلَّا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ وَلَئِنْ عِشْتُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَقُّهُ، أَوْ قَالَ: حَظُّهُ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما جھگڑتے ہوئے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجئیے، لوگوں نے کہا: ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیجئیے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کے درمیان فیصلہ نہیں کر سکتا، انہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے“۔ راوی کہتے ہیں: زہری ۱؎ نے (آگے روایت کرتے ہوئے اس طرح) کہا: (عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جب) اس مال کے ولی و نگراں رہے تو اس میں اپنے گھر والوں کے خرچ کے لیے لیتے اور باقی سارا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے، پھر آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ متولی ہوئے اور ان کے بعد میں متولی ہوا، تو میں نے بھی اس میں وہی کیا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے تھے، پھر یہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ اسے میں ان کے حوالے کر دوں کہ وہ اس میں اس طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جیسے ابوبکر رضی اللہ عنہ کرتے تھے اور جیسے تم کرتے ہو، چنانچہ میں نے اسے ان دونوں کو دے دیا اور اس پر ان سے اقرار لے لیا، پھر اب یہ میرے پاس آئے ہیں، یہ کہتے ہیں: میرے بھتیجے کی طرف سے میرا حصہ مجھے دلائیے ۲؎ اور وہ کہتے ہیں: مجھے میرا حصہ بیوی کی طرف سے دلائیے ۳؎، اگر انہیں منظور ہو کہ میں وہ مال ان کے سپرد کر دوں اس شرط پر کہ یہ دونوں اس میں اسی طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور جیسے میں نے کیا تو میں ان کے حوالے کرتا ہوں، اور اگر انہیں (یہ شرط) منظور نہ ہو تو وہ گھر میں بیٹھیں ۴؎، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیات پڑھیں: «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل»”جان لو جو کچھ تمہیں غنیمت میں ملے تو اس کا خمس اللہ کے لیے ہے، رسول کے لیے، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے“(الانفال: ۴۱)۔ اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے «إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل اللہ»”صدقات فقراء، مساکین، زکاۃ کا کام کرنے والے لوگوں، مؤلفۃ القلوب، غلاموں، قرض داروں اور مسافروں کے لیے ہیں“(التوبہ: ۶۰)۔ اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے ” «وما أفاء اللہ على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب»”اور ان کی طرف سے جو اللہ اپنے رسول کو لوٹائے تو جس پر تم نے گھوڑے دوڑائے اور زین کسے“(الحشر: ۶)۔ زہری کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور وہ عربیہ کے چند گاؤں ہیں جیسے فدک وغیرہ۔ اور اسی طرح «ما أفاء اللہ على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل، و، للفقراء المهاجرين الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم، والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم، والذين جاءوا من بعدهم»”جو اللہ گاؤں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹائے تو وہ اللہ کے لیے رسول کے لیے اور ذی القربی، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور ان فقراء مہاجرین لوگوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال سے نکال دیے گئے اور جنہوں نے الدار (مدینہ) کو اپنا جائے قیام بنایا اور ایمان لائے اس سے پہلے اور اس کے بعد“(الحشر: ۷-۱۰)، اس آیت میں سبھی لوگ آ گئے ہیں، اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کا اس مال میں حق نہ ہو، یا یہ کہا: حصہ نہ ہو، سوائے چند لوگوں کے جنہیں تم اپنا غلام بناتے ہو اور اگر میں زندہ رہا تو ان شاءاللہ ہر ایک کو اس کا حق۔ یا کہا: اس کا نصیب مل کر رہے گا۔
وضاحت: ۱؎: مالک بن اوس سے اس حدیث کو روایت کرنے والے ایک راوی زہری بھی ہیں، دیکھئیے حدیث نمبر: ۴۱۴۵ ۲؎: کیونکہ عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ ۳؎: کیونکہ علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے۔ ۴؎: یعنی جس عہد و پیمان کے تحت یہ مال تمہیں دیا گیا ہے اسی پر اکتفا کرو مزید کسی مطالبہ کی قطعی ضرورت نہیں۔