Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب قسم الفىء
کتاب: مال فی کی تقسیم سے متعلق احکام و مسائل
0. بَابُ :
باب:
حدیث نمبر: 4140
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق وَهُوَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , إِلَى عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ كِتَابًا فِيهِ:" وَقَسْمُ أَبِيكَ لَكَ الْخُمُسُ كُلُّهُ، وَإِنَّمَا سَهْمُ أَبِيكَ كَسَهْمِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَفِيهِ حَقُّ اللَّهِ، وَحَقُّ الرَّسُولِ، وَذِي الْقُرْبَى , وَالْيَتَامَى , وَالْمَسَاكِينِ , وَابْنِ السَّبِيلِ، فَمَا أَكْثَرَ خُصَمَاءَ أَبِيكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَكَيْفَ يَنْجُو مَنْ كَثُرَتْ خُصَمَاؤُهُ , وَإِظْهَارُكَ الْمَعَازِفَ وَالْمِزْمَارَ بِدْعَةٌ فِي الْإِسْلَامِ، وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ إِلَيْكَ مَنْ يَجُزُّ جُمَّتَكَ جُمَّةَ السُّوءِ".
اوزاعی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عمر بن ولید کو ایک خط لکھا: تمہارے باپ نے تقسیم کر کے پورا خمس (پانچواں حصہ) تمہیں دے دیا، حالانکہ تمہارے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کی طرح ہے، اس میں اللہ کا حق ہے اور رسول، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ تو قیامت کے دن تمہارے باپ سے جھگڑنے والے اور دعوے دار کس قدر زیادہ ہوں گے، اور جس شخص پر دعوے دار اتنی کثرت سے ہوں گے وہ کیسے نجات پائے گا؟ اور جو تم نے باجے اور بانسری کو رواج دیا ہے تو یہ سب اسلام میں بدعت ہیں، میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں تمہارے پاس ایسے شخص کو بھیجوں جو تمہارے بڑے بڑے اور برے لٹکتے بالوں کو کاٹ ڈالے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: جمہ ایسے بالوں کو کہتے ہیں جو گردن تک لٹکتے ہیں، اس طرح کا بال رکھنا مکروہ نہیں ہے، عمر بن عبدالعزیز نے اس لیے ایسا کہا کیونکہ عمر بن الولید اپنے انہیں بالوں کی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا رہتا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4140 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4140  
اردو حاشہ:
(1) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ خمس صرف ان کا حق ہے جن کا بیان اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں فرمایا ہے اور یہ انہی پر خرچ ہو گا۔ اس میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا، چنانچہ مطلق العنان حکمران اور ملوک و سلاطین اس میں جو من مانے تصرف کرتے ہیں وہ صریح ظلم اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا ہے، لہٰذا ایسے شخص کی نجات ایک سوالیہ نشان ہی ہے۔
(2) عمر بن ولید خلیفہ ولید بن عبدالملک کا بیٹا تھا۔ یہ شہزادے محلوں میں اور سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ عیش و عشرت ان کی گھٹی میں پڑ چکی تھی، اس لیے اس کے قبیح کاموں پر اس کو ڈانٹ پلائی۔ رَحِمَه اللّٰہُ رَحْمَة وَّاسِعَة۔
(3) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی اگرچہ شہزادے ہی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی کایا پلٹ دی تھی۔ خلیفہ بننے کے بعد تو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی بن گئے تھے حتیٰ کہ تاریخ نے ان کو عمر ثانی کا لقب دیا اگرچہ ان کو صرف اڑھائی سال حکومت کا موقع ملا اور وہ صرف سینتیس (37) سال کی عمر میں اپنے مولا کو پیارے ہو گئے۔ صحابی نہ ہونے کے باوجود ان کے لیے رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَ أَرْضَاہُ کہنے کو جی کرتا ہے۔
(4) لمبے لمبے قبیح بال لمبے بال رکھنا منع نہیں۔ ممکن ہے اس نے لمبے بالوں کو تکبر کا ذریعہ بنا لیا ہو۔ اور لمبے بال اس کے لیے یا دوسروں کے لیے فتنہ بن گئے ہوں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک شخص کا سر منڈا دیا تھا جس کی زلفیں دوسروں کے لیے فتنے کا باعث تھیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر: 33/17، 20) اس صورت میں یہ انتظامی مسئلہ بن جاتا ہے جو قابل گرفت ہوتا ہے، نیز لڑکوں اور لڑکیوں کا حد سے زیادہ زیب و زینت کی طرف توجہ دینا ہلاکت کا باعث ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4140