الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال 16. باب تَحْرِيشِ الشَّيْطَانِ وَبَعْثِهِ سَرَايَاهُ لِفِتْنَةِ النَّاسِ وَأَنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ قَرِينًا: باب: شیطان کا فساد مسلمانوں میں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”شیطان ناامید ہو گیا ہے اس بات سے کہ اس کو نمازی لوگ عرب کے جزیرہ میں پوجیں (جیسے جاہلیت کے زمانے میں پوجتے تھے)۔ لیکن شیطان ان کو بھڑکا دے گا (آپس میں لڑا دے گا)۔“
اعمش سے بھی اسی سند کے ساتھ روایت ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ابلیس کا تخت سمندر پر ہے وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے (لوگوں کو بہکانے کے لیے) تو بڑا شخص اس کے پاس وہ ہے جو بڑا فتنہ کرے۔“ (یعنی لوگوں کو بہت بھڑکائے)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو عالم میں فساد کرنے بھیجتا ہے۔ سو اس سے مرتبہ میں زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جو بڑا فساد ڈالے۔ کوئی شیطان ان میں سے آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا (یعنی فلاں سے چوری کرائی، فلاں کو شراب پلوائی) تو شیطان کہتا ہے: تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر کوئی آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ جدائی کرا دی اس میں اور اس کی جورو (بیوی) میں تو اس کو اپنے پاس کر لیتا ہے کہ ہاں تو نے بڑا کام کیا ہے۔“ اعمش نے کہا: اس کو چمٹا لیتا ہے۔
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی نہیں مگر اس کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی نزدیک رہنے والا مقرر کیا گیا ہے۔“ لوگوں نے عرض کیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یا رسول اللہ شیطان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں میرے ساتھ بھی ہے لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے تو میں سلامت رہتا ہوں اور نہیں بتلاتا مجھ کو کوئی بات سوائے نیکی کے۔“
ترجمہ وہی ہے جو گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ ”ہر ایک آدمی کے ساتھ اس کا ساتھی شیطان اور ساتھی فرشتہ مقرر کیا گیا ہے۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے نکلے رات کو، ان کو غیرت آئی (وہ یہ سمجھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی زوجہ کے پاس تشریف لے گئے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میرا حال دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہوا تجھ کو اے عائشہ! کیا تجھ کو غیرت آئی؟“ میں نے کہا: مجھے کیا ہوا جو میری سی زوجہ (کم عمر، خوب صورت) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے خاوند پر رشک نہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”کیا تیرا شیطان تیرے پاس آ گیا؟“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کیا: آپ کے ساتھ بھی ہے یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن میرے پروردگار نے میری مدد کی حتیٰ کہ میں سلامت رہتا ہوں۔“
|