وحدثنا يحيى بن يحيى التميمي ، وابو بكر بن ابي شيبة كلاهما، عن هشيم واللفظ ليحيى، قال: اخبرنا هشيم، عن عبد العزيز بن صهيب ، وحميد ، عن انس بن مالك ، " ان ناسا من عرينة قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، فاجتووها، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن شئتم ان تخرجوا إلى إبل الصدقة فتشربوا من البانها وابوالها، ففعلوا، فصحوا ثم مالوا على الرعاة، فقتلوهم، وارتدوا عن الإسلام، وساقوا ذود رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فبعث في اثرهم، فاتي بهم، فقطع ايديهم وارجلهم وسمل اعينهم وتركهم في الحرة حتى ماتوا ".وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ هُشَيْمٍ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، وَحُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، " أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَاجْتَوَوْهَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ شِئْتُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ فَتَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَفَعَلُوا، فَصَحُّوا ثُمَّ مَالُوا عَلَى الرُّعَاةِ، فَقَتَلُوهُمْ، وَارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ، وَسَاقُوا ذَوْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ فِي أَثَرِهِمْ، فَأُتِيَ بِهِمْ، فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ وَتَرَكَهُمْ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى مَاتُوا ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کچھ لوگ عرینہ کے (ایک قبیلہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں آئے اور ان کو وہاں کی ہوا موافق نہ آئی۔ استسقاء ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہارا جی چاہے تو صدقے کے اونٹوں میں جاؤ۔ (جو شہر سے باہر رہتے تھے جنگل میں) اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔“ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اچھے ہو گئے پھر جھکے چرواہوں پر (جو مسلمان تھے)۔ اور ان کو مارڈالا اور اسلام سے پھر گئے اور اونٹوں کو بھگا لے گئے یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے لوگوں کو روانہ کیا وہ لائے گئے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوائے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھروائیں یا آنکھیں پھوڑیں اور میدان میں ان کو ڈال دیا وہ مر گئے۔
حدثنا ابو جعفر محمد بن الصباح ، وابو بكر بن ابي شيبة واللفظ لابي بكر، قال: حدثنا ابن علية ، عن حجاج بن ابي عثمان ، حدثني ابو رجاء مولى ابي قلابة، عن ابي قلابة ، حدثني انس ، " ان نفرا من عكل ثمانية قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبايعوه على الإسلام، فاستوخموا الارض وسقمت اجسامهم، فشكوا ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: الا تخرجون مع راعينا في إبله، فتصيبون من ابوالها والبانها، فقالوا: بلى، فخرجوا فشربوا من ابوالها والبانها، فصحوا فقتلوا الراعي وطردوا الإبل، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فبعث في آثارهم، فادركوا فجيء بهم، فامر بهم فقطعت ايديهم وارجلهم وسمر اعينهم، ثم نبذوا في الشمس حتى ماتوا "، وقال ابن الصباح في روايته " واطردوا النعم، وقال: وسمرت اعينهم "،حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ ، " أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَايَعُوهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ وَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ، فَتُصِيبُونَ مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَقَالُوا: بَلَى، فَخَرَجُوا فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَصَحُّوا فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ وَطَرَدُوا الْإِبِلَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ، فَأُدْرِكُوا فَجِيءَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُطِعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ وَسُمِرَ أَعْيُنُهُمْ، ثُمَّ نُبِذُوا فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا "، وقَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ فِي رِوَايَتِهِ " وَاطَّرَدُوا النَّعَمَ، وَقَالَ: وَسُمِّرَتْ أَعْيُنُهُمْ "،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آٹھ آدمی عسکل (ایک قبیلہ ہے) کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اسلام پر، پھر ان کو ہوا ناموافق ہو گئی اور ان کے بدن بیمار ہو گئے۔ انہوں نے شکوہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ہمارے چرواہے کے ساتھ جاؤ، اونٹوں میں وہاں ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔ انہوں نے کہا اچھا۔ پھر وہ نکلے اور اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیا اور اچھے ہو گئے۔ انہوں نے چرواہوں کو قتل کیا اور اونٹ لے لیے۔ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے دوڑ بھیجی، وہ گرفتار ہو کر لائے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا تو ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے، آنکھیں سلائی سے پھوڑی گئیں، پھر دھوپ میں ڈال دئیے گئے یہاں تک کہ وہ مر گئے۔
وحدثنا هارون بن عبد الله ، حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن ابي رجاء مولى ابي قلابة، قال: قال ابو قلابة ، حدثنا انس بن مالك ، قال: قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم قوم من عكل او عرينة، فاجتووا المدينة، فامر لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بلقاح وامرهم ان يشربوا من ابوالها والبانها "، بمعنى حديث حجاج بن ابي عثمان، قال: " وسمرت اعينهم والقوا في الحرة يستسقون فلا يسقون "،وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو قِلَابَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ مِنْ عُكْلٍ أَوْ عُرَيْنَةَ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِلِقَاحٍ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا "، بِمَعْنَى حَدِيثِ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: " وَسُمِرَتْ أَعْيُنُهُمْ وَأُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَلَا يُسْقَوْنَ "،
وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے وہ ڈال دئیے گئے حرہ میں (حرہ مدینہ منورہ کا ایک میدان ہے) پانی مانگتے تھے لیکن پانی نہیں ملتا تھا۔
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا معاذ بن معاذ . ح وحدثنا احمد بن عثمان النوفلي ، حدثنا ازهر السمان ، قالا: حدثنا ابن عون ، حدثنا ابو رجاء مولى ابي قلابة، عن ابي قلابة ، قال: كنت جالسا خلف عمر بن عبد العزيز، فقال: للناس ما تقولون في القسامة؟، فقال عنبسة: قد حدثنا انس بن مالك كذا وكذا، فقلت: إياي حدث انس قدم على النبي صلى الله عليه وسلم قوم وساق الحديث بنحو حديث ايوب، وحجاج، قال ابو قلابة: فلما فرغت، قال عنبسة: سبحان الله، قال ابو قلابة، فقلت: اتتهمني يا عنبسة؟، قال: لا، هكذا حدثنا انس بن مالك " لن تزالوا بخير يا اهل الشام ما دام فيكم هذا او مثل هذا "،وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ . ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ السَّمَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا خَلْفَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَقَالَ: لِلنَّاسِ مَا تَقُولُونَ فِي الْقَسَامَةِ؟، فَقَالَ عَنْبَسَةُ: قَدْ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كَذَا وَكَذَا، فَقُلْتُ: إِيَّايَ حَدَّثَ أَنَسٌ قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ أَيُّوبَ، وَحَجَّاجٍ، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: فَلَمَّا فَرَغْتُ، قَالَ عَنْبَسَةُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ، فَقُلْتُ: أَتَتَّهِمُنِي يَا عَنْبَسَةُ؟، قَالَ: لَا، هَكَذَا حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ " لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ يَا أَهْلَ الشَّامِ مَا دَامَ فِيكُمْ هَذَا أَوْ مِثْلُ هَذَا "،
ابوقلابہ سے روایت ہے کہ میں عمر بن عبدالعزیز کے پیچھے بیٹھا تھا۔ انہوں نے لوگوں سے کہا: قسامت میں کیا کہتے ہو؟ عنبسہ نے کہا: ہم سے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ایسی ایسی۔ میں نے کہا: مجھ سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ آئے اخیر تک اور بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔ ابوقلابہ نے کہا: جب میں نے حدیث کو تمام کیا تو عنبسہ نے سبحان اللہ کہا، میں نے کہا: کیا میرے اوپر تہمت کرتے ہو (جھوٹ کی)۔ تو عنبسہ نے کہا: نہیں ہم سے بھی سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ایسی ہی حدیث بیان کی۔ اے ملک شام والو! تم ہمیشہ بھلائی سے رہو گے جب تک تم میں ایسا شخص رہے (یعنی ابوقلابہ کے حفظ اور یاد کی تعریف کی)۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو داغ نہیں دیا۔ (کیونکہ داغ زخم بند کرنے کے لیے دیتے ہیں اور وہاں اس کی ضرورت نہ تھی)۔
وحدثنا هارون بن عبد الله ، حدثنا مالك بن إسماعيل ، حدثنا زهير ، حدثنا سماك بن حرب ، عن معاوية بن قرة ، عن انس ، قال: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم " نفر من عرينة، فاسلموا وبايعوه وقد وقع بالمدينة الموم وهو البرسام "، ثم ذكر نحو حديثهم وزاد " وعنده شباب من الانصار قريب من عشرين، فارسلهم إليهم وبعث معهم قائفا يقتص اثرهم "وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَفَرٌ مِنْ عُرَيْنَةَ، فَأَسْلَمُوا وَبَايَعُوهُ وَقَدْ وَقَعَ بِالْمَدِينَةِ الْمُومُ وَهُوَ الْبِرْسَامُ "، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمْ وَزَادَ " وَعِنْدَهُ شَبَابٌ مِنْ الْأَنْصَارِ قَرِيبٌ مِنْ عِشْرِينَ، فَأَرْسَلَهُمْ إِلَيْهِمْ وَبَعَثَ مَعَهُمْ قَائِفًا يَقْتَصُّ أَثَرَهُمْ "
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عرینہ سے چند لوگ آئے وہ مسلمان ہو گئے۔ انہوں نے بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینہ میں، اس وقت موم یعنی برسام کی بیماری پھیلی۔ (نووی رحمہ اللہ نے کہا: برسام عقل کا فتور ہے یا ورم سر کا یا ورم سینہ کا بحر الجواہر میں ہے برسام ورم ہے اس پردے کا جو جگر اور معدے کے بیچ میں ہے) پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح، اتنا زیادہ کیا کہ آپ انصار کے بیس نوجوانوں کے قریب تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان کے پیچھے دوڑایا اور ایک پہچاننے والے کو بھی ساتھ کیا۔ جو ان کے قدموں کے نشان پہچانے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیریں اس لیے کہ انہوں نے بھی چرواہوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں۔