الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْبُيُوعِ لین دین کے مسائل 14. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ إِلاَّ فِي الْعَرَايَا: باب: تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا حرام ہے مگر عریہ میں درست ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا پھل کے بیچنے سے جب تک اس کی صلاحیت معلوم نہ ہو اور درخت پر لگی ہوئی کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے سے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ہم سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی عرایا کی بیع میں (عرایا جمع ہے عریہ کی جس کے معنی اوپر گزرے ہیں)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت خرید کرو درخت پر میوے کو جب تک اس کی صلاحیت ظاہر نہ ہو اور مت خرید کرو درخت پر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے۔“
ابن شہاب نے روایت کی سعید بن المسیب سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا مزابنہ سے اور محاقلہ سے۔ مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر کی کھجور خشک کھجور کے بدلے بیچی جائے اور محاقلہ یہ ہے کہ بالی میں گیہوں یعنی کھیپ بیچا جائے گیہوں کے بدلے۔ اور منع کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرایہ پر لینے سے گیہوں کے بدلے (یعنی ان گیہوں کے بدلے جو اسی زمین سے پیدا ہوں گے)۔ ابن شہاب رحمہ اللہ نے کہا: مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت بیچو میوہ کو جب تک اس کی صلاحیت معلوم نہ ہو اور مت بیچو درخت پر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے۔“ اور سالم نے کہا: مجھ سے عبداللہ نے بیان کیا انہوں نے سنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی اس کے بعد عریہ میں رطب یا تمر کے بدلے میں اور سوا عریہ کے اور کسی کی اجازت نہیں دی۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی عریہ والے کو اس کے بیچنے کی کھجور کے بدلے اندازہ کر کے۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی عریہ میں اور مراد عریہ سے یہ ہے کہ ایک گھر کے لوگ اندازے سے کھجور دیں اور اس کے بدلے درخت پر تر کھجور کھانے کو خرید لیں۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
یحییٰ بن سعید سے ایسا ہی مروی ہے، اس میں یہ ہے کہ عریہ وہ درخت ہے کھجور کا جو کسی کو دے دیا جائے پھر وہ اندازہ کر کے اس کے پھلوں کو خشک کھجور کے بدلے بیچ ڈالے۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی عریہ کی بیع میں اندازہ کر کے کھجور کے بدلے۔ یحییٰ نے کہا: عریہ یہ ہے کہ ایک شخص کچھ درختوں پر پھل اپنے گھر والوں کے کھانے کے لیے خریدے خشک کھجور کے بدلے اندازہ سے۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی عرایا میں اندازہ کر کے بیچنے کی ماپ سے۔
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
نافع سے مروی ہے اسی سند سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی عرایا کی بیع کی اندازہ کر کے۔
بشیر بن یسار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ سے روایت کیا جو ان کے گھر میں رہتے تھے ان میں سے ایک سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا درخت پر لگی ہوئی کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے سے اور فرمایا: ”یہی سود ہے، یہی مزابنہ ہے۔“ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی عریہ کو بیع میں ایک درخت یا دو درخت کی کھجور کوئی گھر والا (اپنے بال بچوں کے کھانے کے لیے) خریدے اور اس کے بدلے اندازے سے خشک کھجور دے تر کھجور کھانے کو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی عریہ کی بیع میں اندازہ کر کے۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث نقل کی گئی ہے۔
رافع بن خدیج اور سہیل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا مزابنہ سے یعنی درخت پر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے سے مگر عرایا والوں کو اس کی اجازت دی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی عرایا کی بیع میں اندازے سے بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہو یا پانچ وسق تک، شک ہے داؤد بن الحصین کو جو راوی ہے اس حدیث کا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے، مزابنہ کہتے ہیں درخت پر کی کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے کو ماپ سے اور درخت پر انگور کو خشک انگور کے بدلے بیچنے کو ماپ سے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا مزابنہ سے اور مزابنہ کہتے ہیں درخت پر کی کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے کو اور درخت پر کے انگور کو خشک انگور کے بدلے بیچنے کو ماپ سے (اٹکل اور اندازہ کر کے) اور کھیت گیہوں کا گیہوں کے بدلے بیچنے کو (اس کو محاقلہ بھی کہتے ہیں)۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی منقول ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے اور مزابنہ بیع ہے درخت پر کی کھجور کو خشک کھجور کے ساتھ ماپ کر کے اور درخت پر انگور کی خشک انگور کے ساتھ ماپ سے، اسی طرح ہر پھل کی اندازے سے (اسی پھل کے بدلے)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا مزابنہ سے اور مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر کھجور خشک کھجور کے بدلے بیچی جائے یعنی خشک کھجور کے ماپ معین ہوں (مثلاً چار صاع یا پانچ صاع خشک کھجور کے بدلے) اور خریدار یہ کہے کہ درخت والی کھجور اگر زیادہ نکلیں تو میری ہیں اور جو کم نکلیں تو میرا ہی نقصان ہو گا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے اور وہ یہ ہے کہ اپنے باغ کا پھل اگر کھجور ہو تو خشک کھجور کے بدلے بیچے ماپ سے اور جو انگور ہو تو سوکھے انگور کے بدلے بیچے ماپ سے اور جو کھیت ہو تو سوکھے اناج کے بدلے بیچے ماپ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے منع کیا۔ (کیونکہ سب میں احتمال ہے کمی اور بیشی کا)۔
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
|