بسرہ بنت صفوان رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنی شرمگاہ (عضو تناسل) چھوئے تو جب تک وضو نہ کر لے نماز نہ پڑھے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بسرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام حبیبہ، ابوایوب، ابوہریرہ، ارویٰ بنت انیس، عائشہ، جابر، زید بن خالد اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- کئی لوگوں نے اسے اسی طرح ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے اور عروہ نے بسرہ سے روایت کیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 82]
وضاحت: ۱؎: ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہشام کے بعض شاگردوں نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور بعض نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان مروان کے واسطے کا ذکر کیا ہے، جن لوگوں نے عروۃ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ان کی روایت منقطع نہیں ہے کیونکہ عروہ کا بسرۃ سے سماع ثابت ہے، پہلے عروہ نے اسے مروان کے واسطے سے سنا پھر بسرۃ سے جا کر انہوں نے اس کی تصدیق کی جیسا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 82
اردو حاشہ: 1؎: ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہشام کے بعض شاگردوں نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور بعض نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان مروان کے واسطے کا ذکر کیا ہے، جن لوگوں نے عروۃ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ان کی روایت منقطع نہیں ہے کیونکہ عروہ کا بُسرۃ سے سماع ثابت ہے، پہلے عروہ نے اسے مروان کے واسطے سے سُنا پھر بُسرہ سے جا کر انہوں نے اس کی تصدیق کی جیسا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 82
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 181
´عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹ جانا` «. . . مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ» ”۔۔۔ جو اپنا عضو تناسل چھوئے وہ وضو کرے۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 181]
فوائد و مسائل: یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی سند میں بالکل کلام نہیں ہے۔ چنانچہ اس کا شان مبارک جناب امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح بتلایا ہے کہ: «اصح شيء فى هذا الباب»”اس باب میں جتنی حدیثیں مروی ہیں ان سب میں سے یہ حدیث صحیح تر ہے۔“ ↰ اسی حدیث کو امام الجرح و التعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، ابن خزیمہ، ابن حبان، دارقطنی، بیہقی، ابوحامد بن الشرق اور حازمی نے صحیح کہا ہے۔ [نيل الاوطار للشوكاني: 215/1] اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن خوف طوالت کی وجہ سے ان کو ذکر نہیں کرتے، کیونکہ «خير الكلام ما قل و دل» اور ہماری تائید کے لئے یہ ایک حدیث ہی کافی ہے۔
باقی جو طلق بن علی رضی اللہ عنہ والی روایت ہے، اس میں حضرات محدثین نے کلام کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو مطولات) علیٰ تقدیر الصحۃ یہ حدیث منسوخ ہے۔ کیونکہ بسرۃ وغیرہ کی حدیثیں ان سے متاخر سمجھی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ بنسبت طلق کے متاخر الاسلام ہیں۔ [كتاب الاعتبار للحازمي: 150]
علاوہ بریں اگر ان دونوں حدیثوں کو جمع کیا جائے تو بھی ہمارا مذہب ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً بسرۃ وغیرہ کی حدیثیں بغیر حائل پر اور طلق والی حدیث کو بمع حائل پر حمل کیا جائے۔ چنانچہ صحیح ابن حبان وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ: «اذا افضي احدكم بيده الي فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضاء»[صحيح ابن حبان 1118]” جب تم میں سے کسی نے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے چھو لیا اور ان (ہاتھ اور شرمگاہ) کے درمیان کوئی رکاوٹ یا پردہ نہ ہو اسے وضو کرنا چاہئے۔“ اس حدیث کو امام حاکم اور ابن السکن اور ابن عبدالبر نے صحیح کہا ہے۔ [تحفة الاحوذي: 227/1]
تو معلوم ہوا کہ «مس الذكر من غير حائل» ناقص الوضوء ہے۔ «وهو الحق ان شاء الله تعالىٰ والحق احق ان يتبع ناقص الوضوء» ۔
اس کے بعد واضح ہو کہ یہ حکم جس طرح مردوں کے لیے ہے، اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے۔ کیونکہ وہ شقائق الرجال ہیں اور کوئی ایسی دلیل وارد نہیں کہ ہم عورتوں کو اس مسئلہ میں خاص کر سکیں۔ علاوہ ازیں خود مسند امام احمد اور بیہقی وغیرہ میں بروایت عبداللہ بن عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ: «ايما امراة مست فرجها فليتوضا»”جس عورت نے اپنی شرمگاہ کو چھوا تو وہ وضو کر لے۔“[مسند امام احمد: 223/2، سنن الكبري للبيهقي: 228/1 طبع جديد]
اور اس حدیث کے متعلق امام المحدثین و طبیب الحدیث فی عللہ سیدنا امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ «هو عندي صحيح»[كتاب العلل للترمذي]
اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 15
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 68
´عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹ جانا` «. . . مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ» ”۔۔۔ جو اپنا عضو تناسل چھوئے وہ وضو کرے۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 181]
لغوی تشریح: «مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ» جس نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگایا (ایسی حالت میں جب کہ درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہو۔) «فَلْيَتَوَضَّأْ» تو اسے وضو کرنا چاہیے، یعنی نئے سرے سے نماز کے لیے وضو کرنا چاہیے۔
� فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث صریح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ «مَسَّ ذَكَرَ» سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور یہی راجح قول ہے، اس لیے کہ یہ کلام میں ایک مقرر اور مستحکم حکم ہے، اجتہاد کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ ➋ امام شافعی، ابوزرعہ، ابوحاتم، دارقطنی، بیہقی اور ابن جوزی رحمھم اللہ نے سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو ضعیف اور سیدنا بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ جہاں تک ابن مدینی کے اسے قول کا تعلق ہے کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت بسرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے زیادہ بہتر ہے، اس بات کو ائمہ نے قبول نہیں کیا۔ ➌ تقریباً اٹھارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بسرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کی تائید میں احادیث مروی ہیں، مزید یہ کہ بسرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کی سند کے راوی صحیحین کے ہیں جبکہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت کی سند کے راویوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو صحیحین کے راویوں میں سے ہو۔ ➍ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جو مس ذکر سے وضو ٹوٹنے کے متعلق روایت کرتے ہیں۔ یہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی آمد کے چھ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ بعد اسلام لائے تھے جبکہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ ابتدا ہی میں (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تھے اور مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی) مدینے آئے تھے، پھر اپنے وطن یمامہ واپس چلے گئے۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 6 ہجری کے آخر میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس صورت میں بھی بعد میں حاضر ہونے والے صحابی کی روایت راجح ہے۔ یاد رہے کہ «مَسّ ذَكَر»(شرم گاہ کے چھونے) کا مطلب ہے کہ بغیر کپڑے کے ہاتھ لگ جائے تو ایسا چھونا صحیح نہیں، اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
راوی حدیث: SR سیدنا بسرۃ بنت صفوان رضی اللہ عنہا ER بسرہ کی ”با“ پر ضمہ اور ”سین“ ساکن ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: بسرۃ بنت صفوان بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی قرشیہ اسدیہ رضی اللہ عنہا۔ ان کا شمار سابقین صحابہ رضی اللہ عنہم اور پہلے پہل ہجرت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور اقتدار تک حیات رہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 68
ابوصهيب مولانا محمد داود ارشد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 181
عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹ جانا` «. . . مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ» ”۔۔۔ جو اپنا عضو تناسل چھوئے وہ وضو کرے۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 181]
تبصرہ: ◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سلسلہ کی تمام روایات سے یہ زیادہ صحیح ہے۔ ◈ امام ترمذی، امام احمد، امام ابن حبان، امام ابن خزیمہ، امام حاکم، امام دارقطنی، امام یحییٰ بن معین، امام بیہقی علامہ ذہبی حافظ ابن حجر اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح کہا ہے۔ [التلخيص الحبير: ص122 ج1][ارواء الغليل: ص 150 ج1][مسائل الامام احمد: ص309] حنفی علماء سے: ◈ شوق نیموی نے [آثار السنن ص 42] ميں، ◈ مولانا عثمانی نے [درس ترمذي ص 305 ج1] میں، ◈ مولانا عبدالحیی لکھنوی نے [السعادية: ص267 ج1] میں، ◈ اور مولانا بنوری نے [معاف السنن: ص 295 ج1] میں، ◈ ابن ہمام اور ملا علی قاری نے [مرقاة: ص 341 ج1] میں، حدیث بسرہ کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔
حديث اور اهل تقليد ، حصہ اول، حدیث/صفحہ نمبر: 260
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 181
´عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹ جانا` «. . . مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ . . .» ”. . . جو اپنا عضو تناسل چھوئے وہ وضو کرے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 181]
فوائد و مسائل: زیر نظر مسئلہ میں شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کی دونوں احادیث وارد ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ محدثین ان کے مابین تطبیق یہ دیتے ہیں اگر براہ راست بغیر کسی حائل کے ہاتھ لگے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن درمیان میں کپڑا ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ یا اگر شہوانی جذبات کے تحت ہاتھ لگایا ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اس کے بغیر ہو تو نہیں ٹوٹتا۔ کچھ محدثین کے نزدیک زیر نظر حدیث (بسرہ بنت صفوان) دوسری حدیث (طلق) کی ناسخ ہے، خیال رہے کہ عورتوں کے لیے بھی یہی مسئلہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 181
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 163
´عضو تناسل چھونے سے وضو کا بیان۔` عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں مروان بن حکم کے پاس گیا، پھر ہم نے ان چیزوں کا ذکر کیا جن سے وضو لازم آتا ہے، تو مروان نے کہا: ذکر (عضو تناسل) کے چھونے سے وضو ہے، اس پر عروہ نے کہا: مجھے معلوم نہیں، تو مروان نے کہا: بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ ”جب کوئی اپنا ذکر (عضو تناسل) چھوئے تو وضو کرے۔“[سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 163]
163۔ اردو حاشیہ: عضو مخصوص یا شرم گاہ کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ اس جگہ ہاتھ لگانے کے بعد اس ہاتھ کو کھانے یا قرأت قرآن یا نماز کے لیے استعمال کیا جائے۔ ایسا کرنا فطرت سلیمہ کے خلاف ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہاتھ لگنے کے بعد وضو کیا جائے، بشرطیکہ کپڑے کے بغیر ہاتھ لگے۔ بعض حضرات نے شہوت اور غیرشہوت میں فرق کیا ہے، یعنی اگر کپڑے کے اوپر سے شہوت کی حالت ہاتھ لگائے، تب وضو ٹوٹتا ہے جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک اگر کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگے تو وضو نہیں ٹوٹتا اور اگر کپڑے وغیرہ کے بغیر ننگے عضو پر ہاتھ لگ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن احناف کسی صورت میں بھی وضو کے قائل نہیں۔ ان کی دلیل آگے [حدیث: 165] آرہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 163
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 164
´عضو تناسل چھونے سے وضو کا بیان۔` عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مروان نے اپنی مدینہ کی امارت کے دوران ذکر کیا کہ عضو تناسل کے چھونے سے وضو کیا جائے گا، جب اس تک آدمی اپنا ہاتھ لے جائے، تو میں نے اس کا انکار کیا اور کہا: جو عضو تناسل چھوئے اس پر وضو نہیں ہے، تو مروان نے کہا: مجھے بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے ان چیزوں کا ذکر کیا جن سے وضو کیا جاتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور عضو تناسل چھونے سے (بھی) وضو کیا جائے گا“، عروہ کہتے ہیں: میں مروان سے برابر جھگڑتا رہا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ایک دربان کو بلایا اور اسے بسرہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا، چنانچہ اس نے مروان سے بیان کی ہوئی حدیث کے بارے میں بسرہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا، تو بسرہ نے اسی طرح کی بات کہلا بھیجی جو مروان نے ان کے واسطے سے مجھ سے بیان کی تھی۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 164]
164۔ اردو حاشیہ: ➊ «أَفْضَى إِلَيْهِ الرَّجُلُ بِيَدِهِ» کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مس ذکر سے وضو واجب ہوتا ہے، بشرطیکہ ہاتھ اور عضو تناسل دونوں ننگے ہوں۔ ➋ مروان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینے کے گورنر تھے، علمی شخصیت تھے، محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔ عمر کے لحاظ سے بعض صحابہ کے برابر تھے مگر طائف میں رہنے کی وجہ سے روایت کا شرف حاصل کرنے سے محروم رہے۔ یزید کی وفات کے بعد خلیفہ بھی بنے بلکہ بنو امیہ کے دور خلافت کے خاتمے تک ان کی اولاد ہی خلافت کرتی رہی۔ چونکہ یہ سیاست میں آگئے تھے، اس لیے متنازعہ شخصیت بن گئے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 164
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 448
´عضو تناسل چھونے سے وضو کا بیان۔` بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنا ذکر (عضو تناسل) چھوئے، تو نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ وضو کر لے۔“ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں: ہشام بن عروہ نے اس حدیث ۱؎ کو اپنے باپ سے نہیں سنا ہے، «واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم» ۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 448]
448 ۔ اردو حاشیہ: ➊ صرف یہ حدیث نہیں سنی وگرنہ ہشام کا سماع حضرت عروہ سے معروف ہے۔ اس حدیث میں «أَخْبَرَنِي أَبِي» کے الفاظ کسی راوی کا وہم ہے۔ اس وہم پر تنبیہ کی جارہی ہے۔ ➋اس مسئلے کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے، حدیث: 163، 164، 165 اور ان کے فوائدومسائل۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کپڑے کے بغیر اگر عضو مخصوص کو ہاتھ لگے تو وضو ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔ واللہ اعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 448
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث479
´شرمگاہ کو چھونے سے وضو کرنے کا بیان۔` بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص اپنی شرمگاہ چھوئے تو وضو کرے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 479]
اردو حاشہ: (1) اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب کےاعضاء کوہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (اگر بغیر کپڑے کے ہاتھ لگے۔)
(2) بعض علماء نے اس حدیث پر یہ شبہ وارد کیا ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس سے اکثر واسطہ پیش آتا ہے پھر اس کا تعلق مردوں سے ہے لیکن اس کو روایت کرنے والی صرف ایک خاتون ہیں۔ یہ شبہ اس لیے قابل اعتنا نہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کرکے فرمایا ہے: (وَفِي الْبَابَ عَنْ اُمِّ حَبِيْبَة وَاَبِي اَيُّوبَ وَاَبِي هُرَيْرَةَ وََ أَرْوٰي ابْنَةِ اُنَيْسٍ وَعَائِشَةَ وَ جَابِرٍ وَ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ عَمْرٍ و رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ اَجْمَعِيْن) یعنی یہ مسئلہ مذکورہ بالا آٹھ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ جن میں پانچ مرد اور تین خواتین ہیں۔ ان میں سے بعض صحابہ کی احادیث اسی باب میں آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مسئلہ صرف مردوں کے لیے نہیں بلکہ عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہےکہ اگر کوئی عورت اپنے پردے کے خاص مقام کو ہاتھ لگا لیتی ہےتوا سے وضو دوبارہ کرنا چاہیے۔
(3) بعض علماء نے اس حدیث کی صحت پر یہ شبہ ذکر کیا ہے کہ بعض راویوں نے عروة بن بسرة ذکر کیا ہے اور بعض نے سند میں عروة عن مروان عن بسرة كہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت بسرہ رضی اللہ عنہ سے بھی سنی ہے۔ یہ واقعہ امام نسائی نے اپنی سنن میں تفصیل سے روایت کیا ہے۔ حضرت مروان جب مدینہ کے گورنر تھے تو ایک دن ان کی مجلس میں وضو توڑنے والی چیزوں کے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی۔ مروان نے کہا: عضو خاص کو ہاتھ لگانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ حضرت عروہ نے فرمایا: نہیں ٹوٹتا۔ مروان نے مجلس میں حاضر ایک آدمی سے کہا ہے: جاؤ حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا اسی طرح فرماتی ہیں۔ (سنن النسائي، الطهارة، باب الوضوء من لمس الذكر، حديث: 163) اس کے بعد عروہ نے حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے خود بھی براہ راست یہ حدیث سنی (مستدرك حاكم: 1؍137، 136) مزید تفصیل کے لیے جامع ترمذی میں اس حدیث پر شیخ احمد شاکر کی مفصل تحقیق ملاحظہ فرمائیے
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 479