عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں کیا پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: پہلی رکعت میں «سبح اسم ربك الأعلى»، دوسری میں «قل يا أيها الكافرون»، اور تیسری میں «قل هو الله أحد» اور معوذتین ۱؎ پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ عبدالعزیز راوی اثر عطاء کے شاگرد ابن جریج کے والد ہیں، اور ابن جریج کا نام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے، ۳- یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بطریق: «عمرة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 463]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصلاة 239 (1424)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 115 (1173)، (تحفة الأشراف: 16306) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ عبد العزیز کی ملاقات عائشہ رضی الله عنہا سے نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1173)
قال الشيخ زبير على زئي: (463) إسناده ضعيف / د 1424 جه 1173 (بل ھو حديث حسن)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1173
´وتر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔` عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت میں: «سبح اسم ربك الأعلى» دوسری میں «قل يا أيها الكافرون» اور تیسری میں «قل هو الله أحد» اور معوذتین پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1173]
اردو حاشہ: فائدہ: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ اور مذید لکھا ہے کہ اس کے شواہد بھی ہیں۔ لیکن ان شواہد کی بابت صحت اور ضعف کا حکم نہیں لگایا۔ اسی طرح سنن ابی داؤد (حدیث: 1424) کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ معوذتین کے علاوہ بقیہ حدیث کے شواہد موجود ہیں۔ نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: (صحیح ابوداؤد۔ (مفصل) حدیث: 1280) اسی طرح الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد بن حنبل کے محققین نے بھی اسے معوذتین پڑھنے کے سوا صحیح لغیرہ قراردیا ہے۔ دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند أحمد، 80، 79/42) الحاصل مذکورہ روایت معوذتین (سورۃ الفلق۔ اورسورۃ الناس) کے علاوہ قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ کیونکہ باقی تین سورتوں کے پڑھنے کا ذکرگزشتہ احادیث (1172، 1171) میں بھی ملتا ہے۔ جن کو ہمارے فاضل محقق نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1173