حسن بن علی رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں پڑھا کروں، وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت»”اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت سے نوازا ہے، مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے، میری سرپرستی فرما کر، ان لوگوں میں شامل فرما جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور جس شر کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ، یقیناً فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا، اور جس کا تو والی ہو وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہو سکتا، اے ہمارے رب! تو بہت برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسے ہم صرف اسی سند سے یعنی ابوالحوراء سعدی کی روایت سے جانتے ہیں، ان کا نام ربیعہ بن شیبان ہے، ۳- میرے علم میں وتر کے قنوت کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہو معلوم نہیں، ۴- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۵- اہل علم کا وتر کے قنوت میں اختلاف ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کا خیال ہے کہ وتر میں قنوت پورے سال ہے، اور انہوں نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا پسند کیا ہے، اور یہی بعض اہل علم کا قول ہے سفیان ثوری، ابن مبارک، اسحاق اور اہل کوفہ بھی یہی کہتے ہیں، ۶- علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ وہ صرف رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے، اور رکوع کے بعد پڑھتے تھے، ۷- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 464]
وضاحت: ۱؎: وتر کی اہمیت، اور اس کی مشروعیت کے سبب اس کے وقت، اور طریقہ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں جو روایات وارد ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے، کہ صلاۃ وتر پورا سال اور ہر روز ہے، اور قنوت وتر کے بارے میں تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ رکوع سے پہلے افضل ہے، اور قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 464
اردو حاشہ: 1؎: وتر کی اہمیت، اور اس کی مشروعیت کے سبب اس کے وقت، اور طریقہ نیز نبی اکرم ﷺ کی وتر کے بارے میں جو روایات وارد ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے، کہ نمازِ وتر پورا سال اور ہر روز ہے، اور قنوتِ وتر کے بارے میں تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ رکوع سے پہلے افضل ہے، اور قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 464
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 244
´نماز کی صفت کا بیان` «. . . وعن الحسن بن علي رضي الله عنهما أنه قال: علمني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كلمات أقولهن في قنوت الوتر: «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت» . رواه الخمسة . وزاد الطبراني والبيهقي: «ولا يعز من عاديت» . زاد النسائي من وجه آخر في آخره: «وصلى الله تعالى على النبي» . وللبيهقي عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعلمنا دعاء ندعو به في القنوت من صلاة الصبح. وفي سنده ضعف. . . .» ”. . . سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات ایسے سکھائے ہیں جنہیں میں وتروں میں (دعائے قنوت کے طور پر) پڑھتا ہوں «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت»” اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرما جنھیں تو نے رشد و ہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان میں شامل فرما دے جنھیں تو نے عافیت بخشی ہے اور جن کو تو نے اپنا دوست قرار دیا ہے ان میں مجھے بھی شامل کر کے اپنا دوست بنا لے۔ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں میرے لیے برکت نازل فرما اور جس برائی کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ۔ یقیناً فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا اور جس کا تو والی بنا وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہو سکتا۔ آقا۔ ہمارے پروردگار! تو ہی برکت والا اور بلند و بالا ہے۔“ اسے پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ طبرانی اور بیہقی نے، «ولا يعز من عاديت» کا اضافہ بھی نقل کیا ہے۔ نیز نسائی نے ایک دوسرے طریق سے اس دعا کے آخر میں «وصلى الله تعالى على النبي» کا بھی اضافہ روایت کیا ہے۔ اور بیہقی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دعا سکھاتے تھے جسے ہم صبح کی نماز میں دعائے قنوت کی صورت میں مانگتے تھے۔ اس کی سند میں ضعف ہے۔ . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 244]
لغوی تشریح: «وَتَوَلَّنِي» یعنی میرے کام کی والی بن جا اور اصلاح کر دے یا مجھے دوست بنالے «فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ» یعنی ان لوگوں کے کاموں کی طرح جن کی تو نے اصلاح کی ہے یا ان لوگوں کی طرح جن کو تو نے دوست بنایا۔ «وَقِنِي» میری حفاظت فرما۔ «شَرَّ مَا قَضَيْتَ» یعنی ہر اس شر سے جو تونے تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ «فإِنَّكَ تَقْضِي» یعنی تو مقدر کرتا ہے اور حکم فرماتا ہے جس کا بھی تو ارادہ کرتا ہے۔ «وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ» مجہول کا صیغہ ہے، یعنی تجھ پر کسی قسم کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ «إِنَّهُ» شان یہ ہے کہ۔ یہ ضمیر شان ہے۔ «لَا يَذِلُّ»”یا“ پر فتحہ اور ”ذال“ کے نیچے کسرہ ہے، یعنی وہ ذلیل نہیں ہوتا، رسوا نہیں ہوتا۔ «مَنْ وَّالَيْت» یہ «مُوَالاة» سے ماخوذ ہے اور «مُعَادَاة» کی ضد ہے، یعنی جس کا تو والی بن جاتا ہے۔ «وَلَا يَعِزُّ»”یا“ پر فتحہ اور“”عین“”کے نیچے کسرہ ہے یعنی وہ صاحب عزت و شرف نہیں ہو سکتا۔ «مَنْ عَادَيْتَ» یعنی جس کا تو دشمن ہو جائے۔ اس دعا کے ساتھ صبح کی نماز میں قنوت کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ «يُعَلِّمُنا» تعلیم سے ماخوذ ہے، یعنی وہ ہمیں سکھاتے تھے۔ «دعاء» گزشتہ دعا، یعنی «اللَّهُمَّ اهْدِنِي» والی دعا۔ اور یہ بات کہ وہ ہمیں صبح کی نماز کے لیے یہ سکھاتے تھے، ضعیف ہے۔ جس طرح مصنف نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ اس میں عبدالرحمن بن ہرمز ضعیف راوی ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز وتر میں یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ ➋ دعائے قنوت وتر کی بابت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعائے قنوت وتر رکوع سے قبل پڑھتے تھے۔ [سنن النسائي، قيام الليل، حديث: 1700، وسنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث: 1182] نیز سیدنا عبداللہ بن مسعود اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل مذکور ہے کہ وہ بھی قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن أبى شيبة: 97/2] بنابریں مسنون طریقہ یہی ہے کہ وتروں میں دعائے قنوت از رکوع ہو، البتہ قنوت نازلہ بالخصوص رکوع کے بعد ہی ثابت ہے، تاہم بعض علماء دعائے وتر قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں، وہ بھی جائز ہے لیکن علمائے محقیقین حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، شیخ البانی، صاحب مرعاۃ مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ اور ہمارے فاضل محقق، نیز دیگر علماء نے قنوت وتر قبل از رکوع والی روایات کو زیادہ صحیح کہا ہے اور بعد از رکوع والی روایات پر انہیں ترجیح دی ہے جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ افضل اور اولیٰ یہی بات ہے کہ قنوت وتر قبل از رکوع پڑھی جائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ➌ اس دعا کے آخر میں جو «صلى الله على النبي» کے الفاظ ہیں، بعض حضرات نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے، تاہم ان الفاظ کو دعا کے آخر میں پڑھ لینے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ سیدنا ابوحلیمہ معاذ بن حارث انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ وہ قنوت وتر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام پڑھا کرتے تھے۔ [فضل الصلاة على النبى صلى الله عليه و سلم اسماعيل القاضي، رقم: 107] اور یہ واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا ہے۔ اس اثر کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہا اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: [صفة صلاة النبى، ص: 180] نیز سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ وہ بھی قنوت وتر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وصلاۃ پڑھا کرتے تھے۔ اس اثر کی سند بھی صحیح ہے، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ دیکھیے: [صفة صلاة النبى، ص: 180] ➍ نماز وتر کی حیثیت کیا ہے اور ان کی تعداد کتنی ہے؟ اس بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک یہ واجب ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ سنت ہے اور یہی بات راجح ہے۔ رہا تعداد کا معاملہ تو اس کی تعداد احادیث سے، ایک سے لے کر گیارہ تک معلوم ہوتی ہے۔ دیکھیے: [صحيح مسلم، صلاة المسافريں، حديث 738، 736، و سنن ابي داود، حديث 1421-1422، و سنن النسائي، قيام اليل، حديث 1697، 1968، 1705، 1707، 1710، و سنن ابن ماجه، إقامة الصلاة، حديث 1190، 1192] احناف تین کے قائل ہیں۔ تین وتر پڑھنے کی نوعیت مختلف ہے۔ تین وتر ایک ہی تشہد سے یا دو رکعت کے بعد تشہد، درود شریف، دعا اور سلام اور پھر ایک وتر علیحدہ پڑھا جائے۔ دیکھیے: [سنن ابن ماجه، حديث: 1177، وسنن الدارقطني: 25/2، 27، وصحيح ابن حبان، حديث: 680] پانچ وتر میں صرف آخر میں ایک تشہد ہے، سات وتر میں دو طریقے جائز ہیں: چھٹی رکعت میں تشہد پڑھ کر بغیر سلام کے کھڑا ہوا جائے اور آخری رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے، یا پھر صرف آخری رکعت میں تشہد پڑھا جائے۔ اگر نو وتر اکٹھے پڑھے جائیں تو آٹھویں میں تشہد درود شریف و دعا کے بعد بغیر سلام کے نویں رکعت پوری کر کے سلام پھیر دیا جائے یا ہر اکٹھے پڑھے جائیں تو آٹھویں میں تشہد درود شریف و دعا کے بعد بغیر سلام کے نویں رکعت پوری کر کے سلام پھیر دیا جائے یا ہر دو دو رکعت پر سلام اور آخر میں ایک وتر پڑھا جائے، یا پھر چھٹی رکعت میں تشہد اور درود شریف پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور ساتویں رکعت پڑھ کر سلام پھیرے اور پھر بعد میں دو رکعتیں پڑھے۔ مگر احناف صرف تین وتر کے قائل ہیں اور اس میں نماز مغرب کی طرح دو تشہد پڑھتے ہیں کو کہ صحیح روایات کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر تین رکعت پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے لیکن ان میں نماز مغرب کی مشابہت سے منع کیا ہے اور وہ مشابہت اسی طرح بنتی ہے کہ تینوں رکعتیں دو تشہد اور ایک سلام سے پڑھی جائیں۔ ہاں، اگر نماز وتر کی تینوں رکعتیں ایک تشہد اور سلام ہی سے پڑھی جائیں یا پھر دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور ایک رکعت الگ پڑھی جائے تو یہ درست اور مسنون ہے جس طرح کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول بھی یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد دو دو رکعت کر کے پڑھتے رہتے اور پھر سب سے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔ «والله اعلم»[صحيح البخاري، الوتر، حديث: 995 و صحيح مسلم، صلاة المسافرين، حديث: 749 بعد الحديث: 753] ➎ دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے تاہم ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں جن میں ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔ [مصنف ابن شيبه 1012] ➏ بعض علماء کے نزدیک ہاتھ اٹھا کر یا ہاتھ اٹھائے بغیر دونوں طریقوں سے قنوت وتر پڑھنا صحیح ہے البتہ ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت پڑھنا اس لیے راجح ہے کہ ایک تو قنوت نازلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ اٹھانا ثابت ہے لہٰذا اس پر قیاس کرتے ہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانے صحیح ہوں گے۔ اور دوسرے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔ ➐ عام دعا کے اختتام پر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا گو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر بعض صحابہ مثلاً: سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے یہ عمل ثابت ہے۔ دیکھیے: [الادب المفرد، حديث: 609] اس لیے اس کا جواز ہے، تاہم اگر کوئی شخص دعائے قنوت کے بعد ہاتھ منہ پر نہیں پھیرتا تو اس کا یہ عمل صحیح ہے کیونکہ اس کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی نہیں ملتا۔
راویٔ حدیث: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے آپ کے دل کا سرور اور دنیا میں آپ کے لیے خوشبو تھے۔ جنت کے نوجوانوں کے سرداروں میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ رمضان 3 ہجری کو پیدا ہوئے اور انہیں ان کے والد گرامی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کا خلیفہ بنایا گیا لیکن اپنی خلافت کے سات ماہ بعد جمادی الاولی 41 ہجری کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تاکہ مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان خون نہ بہے۔ 49 ہجر کو فوت ہوئے اور بقیع میں دفن ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 244
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1747
´وتر کی دعا کا بیان۔` حسن بن علی رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے یہ کلمات سکھائے، آپ نے فرمایا: کہو: «اللہم اهدني فيمن هديت وبارك لي فيما أعطيت وتولني فيمن توليت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت وصلى اللہ على النبي محمد» ۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1747]
1747۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ دوروایتیں ایک ہی حدیث ہیں، لہٰذا الفاظ کی کمی بیشی کا تدارک ایک دوسرے سے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اس روایت کی اور اسانید بھی ہیں جن میں کچھ مزید الفاظ بھی ہیں، لہٰذا ان میں سے جو الفاظ صحیح سند کے ساتھ مروی ہیں وہ بھی قبول کیے جائیں گے۔ ➋ مستدرک حاکم میں صراحت ہے کہ آپ نے فرمایا: کہ میں وتر کی آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یہ دعا پڑھوں۔ دیکھیے: (المستدرک الحاکم: 3؍172) لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (اصل صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی: 3؍971، 972) اس روایت کی بنیاد پر بعض علماء قنوتِ وتر کو رکوع کے بعد پڑھنا راجح سمجھتے ہیں جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ روایت میں صراحت ہے کہ آپ نے صرف قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی ہے اور قنوتِ وتر قبل از رکوع، اس لیے دوسروں کے نزدیک قنوت وتر کا رکوع سے پہلے پڑھنا راجح ہے۔ یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الوتر، حدیث: 1002، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 677) ➌ دعائے قنوت میں نستغفرک ونتوب الیک کے الفاظ بھی مشہور ہیں، لیکن یہ الفاظ حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ملتے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (القول المقبول فی شرح و تعلیق صلاۃ الرسول، حدیث: 586) اس لیے ان کا پڑھنا صحیح نہیں۔ یہ الفاظ صرف ”حصن حصین“ میں ہیں جو حدیث کی کتاب نہیں ہے۔ ➍ وصلی اللہ علی النبی محمد کے الفاظ کے علاوہ باقی تمام الفاظ اوپر والی روایت (1746) میں مووجد ہیں جو کہ سنداً صحیح ہے۔ وصلی اللہ علی النبی محمد کے الفاظ مرفوعاً ضعیف ہیں، البتہ ابی بن کعب رضی اللہ انہ سے موقوفاً قنوت وتر میں ان کا پڑھنا صحیح سند سے ثابت ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ، حدیث: 1100) نیز دوسرے صحابی رسول ابوحلیمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی موقوفاً ان کا ثبوت ملتا ہے۔ (فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، رقم: 107) لہٰذا ان الفاظ کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی، ص: 180]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1747
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1425
´نماز وتر میں قنوت پڑھنے کا بیان۔` حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں کہا کرتا ہوں (ابن جواس کی روایت میں ہے ”جنہیں میں وتر کے قنوت میں کہا کروں“) وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تباركت ربنا وتعاليت»۱؎۔ ”اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے عافیت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے عافیت دی ہے اور میری کارسازی فرما ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کی تو نے کارسازی کی ہے اور مجھے میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پا سکتا، اے ہمارے رب تو بابرکت اور بلند و بالا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1425]
1425. اردو حاشیہ: ➊ قنوت کے کئی معانی ہیں یعنی اطاعت، خشوع، نماز، دعا، عبادت، قیام، طول قیام اور سکوت۔ اور نماز وتر میں بمعنی دعا ہے۔ ➋ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ قنوت کی دعاؤں میں اس سے بڑھ کر عمدہ دعا نبی ﷺ سے مروی نہیں ہے۔ ➌ اس دعا کے پانچویں جملے «وقنی شر ما قضیت» کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے تمام تر فیصلے حق اور خیر ہی ہوتے ہیں۔ مگر انسانوں یا مخلوق کے اپنے تاثر یا اعتبار سے ان کے اپنے حق میں برے یا شر سمجھے جاتے ہیں، ورنہ ان کا صدور فی نفسہ خیر ہی پر مبنی ہوتا ہے۔ ➍ دعا کے آخر میں «ربنا وتعالیت» کے بعد «نستغفرك ونتوب إلیك» کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں، لہذا انہیں دوران دعا میں نہیں پڑھنا چاہیے۔ ➎ دعا کے آخر میں (صلی اللہ علی النبی محمد) کے الفاظ صرف سنن النسائی کی روایت میں ہیں لیکن حافظ ابن حجر، امام قسطلانی اور امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہم نے ان الفاظ کو ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم ان الفاظ کو دعا کے آخر میں پڑھ لینے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ ابو حلیمہ معاذ انصاری کے بارے میں ہے کہ وہ قنوت وتر میں رسول اللہ ﷺ پر درود سلام پڑھا کرتے تھے۔ دیکھیے «فضل الصلاۃ علی النبی ﷺ از اسماعیل القاضی رقم:10» اور یہ واقعہ حضرت عمر کے دور کا ہے۔ اس اثر کو حافظ ابن حجر اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: [صفة صلاة النبي:180] اسی طرح حضرت ابی بن کعب کے بارے میں ہے کہ وہ بھی قنوت وتر میں نبی کریم ﷺ پر درود صلوۃ پڑھا کرتے تھے۔ اس اثر کی سند بھی صحیح ہے، اسے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: [ صفة الصلاة النبي ﷺ، ص:180] ➏ «ولا یعز من عادیت» کے الفاظ کی بابت بعض علمائے محققین نے لکھا ہے کہ یہ الفاظ صرف سنن بیہقی میں ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ الفاظ سنن ابوداؤد کے بعض نسخوں میں نہیں ہیں۔ تاہم سنن ابو داؤد کے بعض نسخوں میں موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو: سنن ابوداؤد مطبوعہ دارالسلام اور مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت، وغیرہ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1425
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1178
´وتر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔` حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے جن کو میں وتر کے قنوت میں پڑھا کروں: «اللهم عافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت واهدني فيمن هديت وقني شر ما قضيت وبارك لي فيما أعطيت إنك تقضي ولا يقضى عليك إنه لا يذل من واليت سبحانك ربنا تباركت وتعاليت»”اے اللہ! مجھے عافیت دے ان لوگوں میں جن کو تو نے عافیت بخشی ہے، اور میری سرپرستی کر ان لوگوں میں جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے زمرے میں جن کو تو نے ہدایت دی ہے، اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، اور میرے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1178]
اردو حاشہ: فوائدومسسائل:
(1) یہاں دعائے قنوت کا بیان نہیں کیا گیا۔ کہ رکوع سے پہلے ہے یا بعد میں مستدرک حاکم کی روایت میں رکوع سے بعد کی صراحت ہے۔ (المستدرک: 172/3) لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ اس کے مقابلے میں زیادہ صحیح روایات میں دعائے قنوت وتر کا مقام رکوع سے پہلے بیان ہوا ہے۔ اس لئے یہی راحج ہے۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
(2) بعض روایات میں اس دعا میں مذید الفاظ بھی ہیں۔ سنن بیہقی اور سنن ابو داؤد کے بعض نسخوں میں (والیت) کے بعد ہے۔ (ولایعز من عادیت) تو جس سے دشمنی کرے اسے عزت نہیں مل سکتی (سنن ابی داؤد، الوتر، باب قنوت فی الوتر، حدیث: 1435 والسنن الکبريٰ للبہیقي 309/2) سنن نسائی کی روایت 1747 کے آخر میں یہ جملہ ہے۔ (وصلي الله علي النبي محمد) اور اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺ پر رحمت نازل فرمائے۔ لیکن حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ کو ضعیف قرار دیا ہے تاہم ان الفاظ کو دعا کے آخر میں پڑھ لینے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ ابو حلیمہ معاذ انصاری کے بارے میں ہے کہ وہ قنوت وتر میں رسول اللہ ﷺ پر درود سلام پڑھا کرتے تھے۔ دیکھئے: (فضل الصلاۃ علی النبی ﷺ ازاسماعیل قاضی رقم 107) اور یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کا ہے۔ اس اثر کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قراردیا ہے۔ دیکھئے: (صفة الصلاۃ نبیي، ص: 180) اسی طرح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ قنوت وتر میں نبی کریمﷺ پردرود وسلام پڑھا کرتے تھے۔ اس اثر کی سند بھی صحیح ہے۔ اسے امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: (صفة الصلاۃ النبي ﷺ ص: 180)
(3)(نستغفرك ونتوب اليك) کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ لہٰذا ان الفاظ کودوران دعا میں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 4۔ یہ ایک عظیم دعا ہے جس میں توحید کے مختلف پہلودعا کے انداز میں واضح کئے گئے ہیں۔ مومن کو چاہیے کہ توحید کاعقیدہ اس کے مطابق رکھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1178