ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں وتر سونے سے پہلے پڑھ لیا کروں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوذر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ آدمی جب تک وتر نہ پڑھ لے نہ سوئے۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 455]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14871) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ ابو ثور ازدی لین الحدیث ہیں، ملاحظہ ہو صحیح سنن ابی داود: 1187)»
قال الشيخ الألباني: (حديث أبو هريرة) صحيح، (حديث جابر) صحيح (حديث أبو هريرة) ، صحيح أبي داود (1187) ، (حديث جابر) ، ابن ماجة (1187)
من خشي منكم أن لا يستيقظ من آخر الليل فليوتر من أوله ومن طمع منكم أن يقوم من آخر الليل فليوتر من آخر الليل فإن قراءة القرآن في آخر الليل محضورة وهي أفضل
من خاف منكم أن لا يستيقظ من آخر الليل فليوتر من أول الليل ثم ليرقد ومن طمع منكم أن يستيقظ من آخر الليل فليوتر من آخر الليل فإن قراءة آخر الليل محضورة وذلك أفضل
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری پہر میں نہیں اٹھ سکے گا، تو وہ رات کے شروع میں ہی وتر پڑھ لے۔ اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کی امید رکھتا ہو تو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے، کیونکہ رات کے آخری حصے میں قرآن پڑھنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہ افضل وقت ہے“۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 455M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 21 (755)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 120 (1187)، (تحفة الأشراف: 2297)، مسند احمد (3/315، 337) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: (حديث أبو هريرة) صحيح، (حديث جابر) صحيح (حديث أبو هريرة) ، صحيح أبي داود (1187) ، (حديث جابر) ، ابن ماجة (1187)