زیاد بن علاقہ کے چچا قطبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من منكرات الأخلاق والأعمال والأهواء»”اے اللہ! میں تجھ سے بری عادتوں، برے کاموں اور بری خواہشوں سے پناہ مانگتا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ۲- اور زیاد بن علاقہ کے چچا کا نام قطبہ بن مالک ہے اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3591]
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1293
چار بری چیزوں سے بچنے کی دعا «وعن قطبة بن مالك رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: اللهم جنبني منكرات الاخلاق والاعمال والاهواء والادواء . اخرجه الترمذي وصححه الحاكم واللفظ له.» ”قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے: اے اللہ! مجھے بری عادتوں، برے کاموں، بری خواہشوں اور بری بیماریوں سے بچا۔“ اسے ترمذی نے روایت کیا اور حاکم نے صحیح کہا: اور یہ لفظ حاکم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1293]
تخريج: «صحيح» [ترمذي 3591]، [حاكم 532]، البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ دیکھئے: [صحيح الترمذي 2840] مفردات: «جَنِّبْ» باب تفعیل کا مصدر ہے، «تجنيب» کا معنی دور رکھنا ہے۔ «أَخْلَاقٌ» - «خُلُق» کی جمع ہے۔ «أَهْوَاء» «هَوًي» کی جمع ہے اور «أَدْوَاء» ۔ «داءٌ» کی جمع ہے۔
فوائد: برے اخلاق، برے اعمال، بری خواہشات اور بری بیماریوں سے کیا مراد ہے؟ آدمی کی وہ عادتیں جو اس کی پیدائشی عادتوں کی طرح پختہ ہو جائیں «اخلاق» کہلاتی ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے «كذاك ادبت حتي صار من خلقي . . . اني وجدت ملاك الشيمة الادبا» ”مجھے اسی طرح ادب سکھایا گیا، یہاں تک کہ وہ میری طبعی عادت بن گیا ہے، میں نے تمام خصلتوں کا اصل ادب کو پایا ہے۔“ برے اخلاق وہ ہیں جو شریعت کی نظر میں برے ہیں اور جنہیں انسانی عقل اور فطرت بھی برا جانتی ہے مثلاً حسد، کینہ، جھوٹ، خیانت، دھوکا، سنگدلی، بخل، بزدلی، بے صبری وغیرہ اس کے مقابلے میں اچھے اخلاق ہیں مثلاً بردباری، عفو، سخاوت، صبر، رحم، لوگوں کے کام آنا، ان کی تکالیف اٹھانا اور ان سے احسان وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برے اخلاق سے پناہ مانگی اور اچھے اخلاق کے حصول کے لئے دعا کی چنانچہ نماز کے افتتاح کی دعا میں ہے: «واهدني لاحسن الاخلاق لا يهدي لا حسنها الا انت واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها الا انت» ”اور مجھے بہترین اخلاق کی ہدایت دے (کیونکہ) سب سے اچھے اخلاق کی ہدایت تیرے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا اور برے اخلاق مجھ سے ہٹا دے (کیونکہ) مجھ سے برے اخلاق کو تیرے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا۔“ برے اعمال سے مراد وہ تمام کام ہیں جو شریعت کی نظر میں برے ہیں اور فطرت انسانی بھی اگر مسخ نہ ہو گئی ہو تو انہیں برا جانتی ہے۔ مثلا قتل ناحق، زنا، چوری، بہتان وغیرہ۔ بری خواہشات وہ ہیں جن کے پیچھے اگر انسان لگ جائے تو دنیا اور آخرت میں اس کا انجام برا ہو۔ بری بیماریاں جو انسان کو ذہنی یا جسمانی طور پر بےکار کر دیں لوگوں کو اس سے نفرت دلانے کا باعث ہوں جیسے برص، جذام، عشق، جنون، فالج وغیرہ۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 192
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1293
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان` سیدنا قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیہ کلمات فرمایا کرتے تھے «اللهم جنبني منكرات الأخلاق والأعمال والأهواء والأدواء» ” الٰہی! مجھے برے اخلاق، برے اعمال، بری خواہشات اور بری بیماریوں سے بچا۔“ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور یہ الفاظ اسی کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1293»
تخریج: «أخرجه الترمذي، الدعوات، باب دعاء أم سلمة، حديث:3591، والحاكم:1 /532 وصححه علي شرط مسلم.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ برے اخلاق‘ برے اعمال‘ بری خواہشات اور بری بیماریوں سے محفوظ رہنے کی ہر وقت اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ ان امور سے اللہ کی توفیق کے بغیر نہیں بچا جا سکتا۔
راویٔ حدیث: «حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ» قطبہ بن مالک ‘ بنو ثعلبہ بن سعد بن ذبیان سے ہونے کی وجہ سے ثعلبی کہلائے اور ذبیان کی طرف نسبت کی وجہ ذبیانی بھی کہلاتے تھے۔ کوفہ سے تعلق تھا۔ ان کے بھتیجے زیاد بن علاقہ نے ان سے احادیث نقل کی ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1293