عثمان بن حنیف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: آپ دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے عافیت دے، آپ نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر (و سود مند) ہے“۔ اس نے کہا: دعا ہی کر دیجئیے، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ ”وہ وضو کرے، اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعا کرے: «اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي اللهم فشفعه»”اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ! میری یہ ضرورت پوری کر دے تو اے اللہ تو میرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر ۱؎“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں یعنی ابو جعفر کی روایت سے، ۲- اور ابوجعفر خطمی ہیں ۳- اور عثمان بن حنیف یہ سہل بن حنیف کے بھائی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3578]
وضاحت: ۱؎: یہی وہ مشہور روایت ہے جس سے انبیاء اور اولیاء کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے، بعض محدثین نے تو اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے، اور جو لوگ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں، ان میں سے سلفی منہج و فکر کے علماء (جیسے امام ابن تیمیہ و علامہ البانی نے اس کی توجیہ کی ہے کہ نابینا کو اپنی ذات بابرکات سے وسیلہ پکڑنے کا مشورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تھا، بلکہ آپ کی دعا کو قبول کرنے کی دعا اس نے کی، اور اب آپ کی وفات کے بعد ایسا نہیں ہو سکتا، اسی لیے عمر رضی الله عنہ نے قحط پڑنے پر آپ کی قبر شریف کے پاس آ کر آپ سے دعا کی درخواست نہیں کی، (آپ کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کی بات تو دور کی ہے) بلکہ انہوں نے آپ کے زندہ چچا عباس رضی الله عنہ سے دعا کرائی، اور تمام صحابہ نے اس پر ہاں کیا، تو گویا یہ بات تمام صحابہ کے اجماع سے ہوئی، کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ کیوں نہ نابینا کی طرح آپ سے دعا کی درخواست کی جائے، اور اس دعا یا آپ کی ذات کو وسیلہ بنایا جائے۔
أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضى الله عنه ، فى حاجة له ، فكان عثمان لا يلتفت إليه ولا ينظر فى حاجته ، فلقي عثمان بن حنيف ، فشكا ذلك إليه ، فقال له عثمان بن حنيف ائت الميضأة فتوضأ ، ثم ائت المسجد فصل فيه ركعتين ، ثم قل : اللهم ، إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى الله عليه وسلم نبي الرحمة ، يا محمد إني أتوجه بك إلى ربك عز وجل فيقضي لي حاجتي ، وتذكر حاجتك ، ورح إلى حتى أروح معك ، فانطلق الرجل ، فصنع ما قال له عثمان ، ثم أتى باب عثمان ، فجاء البواب حتى أخذ بيده ، فأدخله على عثمان بن عفان ، فأجلسه معه على الطنفسة ، وقال : حاجتك ؟ فذكر حاجته فقضاها له ، ثم قال له : ما ذكرت حاجتك حتى كانت هذه الساعة ، وقال : ما كانت لك من حاجة فأتنا ، ثم إن الرجل خرج من عنده ، فلقي عثمان بن حنيف ، فقال له : جزاك الله خيرا ، ما كان ينظر فى حاجتي ، ولا يلتفت إلى حتى كلمته فى ، فقال عثمان بن حنيف : والله ، ما كلمته ولكن شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم وأتاه ضرير ، فشكا عليه ذهاب بصره ، فقال له النبى صلى الله عليه وآله وسلم : أفتصبر ؟ ، فقال : يا رسول الله ، إنه ليس لي قائد ، وقد شق على ، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم : ائت الميضأة ، فتوضأ ، ثم صل ركعتين ، ثم ادع بهذه الدعوات ، قال عثمان : فوالله ما تفرقنا وطال بنا الحديث ، حتى دخل علينا الرجل كأنه لم يكن به ضرر قط
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3578
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہی وہ مشہورروایت ہے جس سے انبیاء اوراولیاء کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے، بعض محدثین نے تو اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے، اور جو لوگ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں، ان میں سے سلفی منہج و فکرکے علماء (جیسے امام ابن تیمیہ وعلامہ البانی ؒنے اس کی توجیہ کی ہے کہ نابینا کواپنی ذات بابرکات سے وسیلہ پکڑنے کا مشورہ آپﷺنے نہیں دیا تھا، بلکہ آپﷺ کی دعاء کو قبول کرنے کی دعا اس نے کی، اوراب آپﷺ کی وفات کے بعد ایسا نہیں ہو سکتا، اسی لیے عمر رضی اللہ عنہ نے قحط پڑنے پر آپﷺ کی قبرشریف کے پاس آ کرآپﷺ سے دعاء کی درخواست نہیں کی، (آپﷺ کی ذات سے وسیلہ پکڑنے کی بات تو دورکی ہے) بلکہ انہوں نے آپﷺ کے زندہ چچاعباس رضی اللہ عنہ سے دعاء کرائی، اور تمام صحابہ نے اس پر ہاں کیا، تو گویا یہ بات تمام صحابہ کے اجماع سے ہوئی، کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ کیوں نہ نابینا کی طرح آپﷺ سے دعاء کی درخواست کی جائے، اور اس دعاء یا آپ کی ذات کو وسیلہ بنایا جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3578
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1385
´نماز حاجت کا بیان۔` عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کی دعا فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہوں جو بہتر ہے، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں، اس شخص نے کہا: آپ دعا کر دیجئیے، تب آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کرے، اور دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد یہ دعا کرے: «اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بمحمد نبي الرحمة يا محمد إني قد توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى اللهم فشفعه في»”اے اللہ! میں تجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1385]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی بندے کے ہاتھ میں نہیں۔ اس لئے شفا کی درخواست اللہ ہی سے کرنی چاہیے (2) کسی نیک بزرگ شخص سے اپنے حق میں دعا کرانا جائز ہے۔
(3) بیماری اور مصیبت پر صبر کرنا درجات کی بلندی کا باعث ہے۔ لیکن اس سے نجات کی دعا کرنا بھی توکل اور رضا کے منافی نہیں۔
(4) ضرورت پوری ہونے کی نیت سے دو رکعت نفل نماز پڑھنا اور پھر مناسب دعا کرنا اس سے دعا کی قبولیت کی زیادہ اُمید ہوتی ہے۔
(5) صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفا کی درخواست نہیں کی۔ بلکہ شفاء کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی۔ اور خود بھی دعا کی۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اس شخص کی دعا کی قبولیت کے لئے تھی۔ اس لئے اسے شفاعت کہا گیا۔
(6) بعض لوگوں نے اس حدیث سے رواجی وسیلہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ نہیں بنایا گیا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔ اور یہ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں تھا۔ وفات کے بعد قبر شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب نہیں کیا گیا۔
(7) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے بعد مخاطب کرنا قرآن مجید کے اس فرمان کے بھی خلاف ہے۔ ﴿وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ﴾(الحجرات: 2) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سےنہ بلاؤ۔ جس طرح تم ایک دوسرے کو بلند آواز سے پکار لیتے ہو“ بلکہ اس کا ادب بتاتے ہوئے فرمایا۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ و َلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ﴾(الحجرات: 5، 4) جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آوازیں دیتے ہیں۔ وہ اکثر بے عقل ہوتے ہیں۔ اگر وہ لوگ صبر کریں حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس تشریف لے آئیں۔ تو یہ ان کے لئے بہتر ہے۔ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ حجرہ مبارک میں دفن ہونے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پکارا جائے۔ حتیٰ کہ قیامت کو وہ خود باہر تشریف لے آئیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1385