الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
76. باب وَمِنْ سُورَةِ الْبُرُوجِ
76. باب: سورۃ البروج سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3340
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَعَبْدُ بْنُ حميد، المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ هَمَسَ وَالْهَمْسُ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ: تَحَرُّكُ شَفَتَيْهِ كَأَنَّهُ يَتَكَلَّمُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ هَمَسْتَ، قَالَ: " إِنَّ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أُعْجِبَ بِأُمَّتِهِ "، فَقَالَ: مَنْ تَقُولُ لِهَؤُلَاءِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ خَيِّرْهُمْ بَيْنَ أَنْ أَنْتَقِمَ مِنْهُمْ، وَبَيْنَ أَنْ أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوَّهُمْ، فَاخْتَارَ النِّقْمَةَ، فَسَلَّطَ عَلَيْهِمُ الْمَوْتَ فَمَاتَ مِنْهُمْ فِي يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفًا. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَكَانَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ الْآخَرِ، قَالَ: كَانَ مَلِكٌ مِنَ الْمُلُوكِ وَكَانَ لِذَلِكَ الْمَلِكِ كَاهِنٌ يَكْهَنُ لَهُ، فَقَالَ الْكَاهِنُ: انْظُرُوا لِي غُلَامًا فَهِمًا، أَوْ قَالَ: فَطِنًا لَقِنًا فَأُعَلِّمَهُ عِلْمِي هَذَا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ أَمُوتَ فَيَنْقَطِعَ مِنْكُمْ هَذَا الْعِلْمُ وَلَا يَكُونَ فِيكُمْ مَنْ يَعْلَمُهُ، قَالَ: فَنَظَرُوا لَهُ عَلَى مَا وَصَفَ، فَأَمَرُوهُ أَنْ يَحْضُرَ ذَلِكَ الْكَاهِنَ وَأَنْ يَخْتَلِفَ إِلَيْهِ فَجَعَلَ يَخْتَلِفُ إِلَيْهِ، وَكَانَ عَلَى طَرِيقِ الْغُلَامِ رَاهِبٌ فِي صَوْمَعَةٍ، قَالَ مَعْمَرٌ: أَحْسِبُ أَنَّ أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ كَانُوا يَوْمَئِذٍ مُسْلِمِينَ، قَالَ: فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَسْأَلُ ذَلِكَ الرَّاهِبَ كُلَّمَا مَرَّ بِهِ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى أَخْبَرَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَعْبُدُ اللَّهَ، قَالَ: فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَمْكُثُ عِنْدَ الرَّاهِبِ، وَيُبْطِئُ عَنِ الْكَاهِنِ، فَأَرْسَلَ الْكَاهِنُ إِلَى أَهْلِ الْغُلَامِ إِنَّهُ لَا يَكَادُ يَحْضُرُنِي، فَأَخْبَرَ الْغُلَامُ الرَّاهِبَ بِذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ: إِذَا قَالَ لَكَ الْكَاهِنُ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَقُلْ: عِنْدَ أَهْلِي، وَإِذَا قَالَ لَكَ أَهْلُكَ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّكَ كُنْتَ عِنْدَ الْكَاهِنِ، قَالَ: فَبَيْنَمَا الْغُلَامُ عَلَى ذَلِكَ إِذْ مَرَّ بِجَمَاعَةٍ مِنَ النَّاسِ كَثِيرٍ قَدْ حَبَسَتْهُمْ دَابَّةٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ تِلْكَ الدَّابَّةَ كَانَتْ أَسَدًا، قَالَ: فَأَخَذَ الْغُلَامُ حَجَرًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مَا يَقُولُ الرَّاهِبُ حَقًّا فَأَسْأَلُكَ أَنْ أَقْتُلَهَا، قَالَ: ثُمَّ رَمَى فَقَتَلَ الدَّابَّةَ، فَقَالَ النَّاسُ: مَنْ قَتَلَهَا؟ قَالُوا: الْغُلَامُ، فَفَزِعَ النَّاسُ وَقَالُوا: لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا لَمْ يَعْلَمْهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَسَمِعَ بِهِ أَعْمَى فَقَالَ لَهُ: إِنْ أَنْتَ رَدَدْتَ بَصَرِي فَلَكَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ لَهُ: لَا أُرِيدُ مِنْكَ هَذَا، وَلَكِنْ أَرَأَيْتَ إِنْ رَجَعَ إِلَيْكَ بَصَرُكَ أَتُؤْمِنُ بِالَّذِي رَدَّهُ عَلَيْكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ فَرَدَّ عَلَيْهِ بَصَرَهُ فَآمَنَ الْأَعْمَى، فَبَلَغَ الْمَلِكَ أَمْرُهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ فَأُتِيَ بِهِمْ، فَقَالَ: لَأَقْتُلَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْكُمْ قِتْلَةً لَا أَقْتُلُ بِهَا صَاحِبَهُ، فَأَمَرَ بِالرَّاهِبِ وَالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ أَعْمَى، فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ عَلَى مَفْرِقِ أَحَدِهِمَا فَقَتَلَهُ، وَقَتَلَ الْآخَرَ بِقِتْلَةٍ أُخْرَى، ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُلَامِ، فَقَالَ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَأَلْقُوهُ مِنْ رَأْسِهِ، فَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْجَبَلِ فَلَمَّا انْتَهَوْا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْمَكَانِ الَّذِي أَرَادُوا أَنْ يُلْقُوهُ مِنْهُ جَعَلُوا يَتَهَافَتُونَ مِنْ ذَلِكَ الْجَبَلِ وَيَتَرَدَّوْنَ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا الْغُلَامُ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَرَ بِهِ الْمَلِكُ أَنْ يَنْطَلِقُوا بِهِ إِلَى الْبَحْرِ فَيُلْقُونَهُ فِيهِ، فَانْطُلِقَ بِهِ إِلَى الْبَحْرِ فَغَرَّقَ اللَّهُ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ وَأَنْجَاهُ، فَقَالَ الْغُلَامُ لِلْمَلِكِ: إِنَّكَ لَا تَقْتُلُنِي حَتَّى تَصْلُبَنِي وَتَرْمِيَنِي، وَتَقُولَ إِذَا رَمَيْتَنِي: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ فَصُلِبَ ثُمَّ رَمَاهُ، فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ، قَالَ: فَوَضَعَ الْغُلَامُ يَدَهُ عَلَى صُدْغِهِ حِينَ رُمِيَ ثُمَّ مَاتَ، فَقَالَ أُنَاسٌ: لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا مَا عَلِمَهُ أَحَدٌ فَإِنَّا نُؤْمِنُ بِرَبِّ هَذَا الْغُلَامِ، قَالَ: فَقِيلَ لِلْمَلِكِ أَجَزِعْتَ أَنْ خَالَفَكَ ثَلَاثَةٌ، فَهَذَا الْعَالَمُ كُلُّهُمْ قَدْ خَالَفُوكَ، قَالَ: فَخَدَّ أُخْدُودًا ثُمَّ أَلْقَى فِيهَا الْحَطَبَ وَالنَّارَ، ثُمَّ جَمَعَ النَّاسَ، فَقَالَ: مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ تَرَكْنَاهُ وَمَنْ لَمْ يَرْجِعْ أَلْقَيْنَاهُ فِي هَذِهِ النَّارِ، فَجَعَلَ يُلْقِيهِمْ فِي تِلْكَ الْأُخْدُودِ، قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِيهِ: قُتِلَ أَصْحَابُ الأُخْدُودِ {4} النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ {5} حَتَّى بَلَغَ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ سورة البروج آية 4 ـ 8، قَالَ: فَأَمَّا الْغُلَامُ فَإِنَّهُ دُفِنَ، فَيُذْكَرُ أَنَّهُ أُخْرِجَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَأُصْبُعُهُ عَلَى صُدْغِهِ كَمَا وَضَعَهَا حِينَ قُتِلَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
صہیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر پڑھتے تھے، تو «همس» (سرگوشی) کرتے، «همس» بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق اپنے دونوں ہونٹوں کو اس طرح حرکت دینا (ہلانا) ہے تو ان وہ باتیں کر رہا ہے (آخر کار) آپ سے پوچھ ہی لیا گیا، اللہ کے رسول! جب آپ عصر کی نماز پڑھتے ہیں تو آپ دھیرے دھیرے اپنے ہونٹ ہلاتے ہیں (کیا پڑھتے ہیں؟) آپ نے نبیوں میں سے ایک نبی کا قصہ بیان کیا، وہ نبی اپنی امت کی کثرت دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اور کہا: ان کے مقابلے میں کون کھڑا ہو سکتا ہے؟ اللہ نے اس نبی کو وحی کیا کہ تم اپنی قوم کے لیے دو باتوں میں سے کوئی ایک بات پسند کر لو، یا تو میں ان سے انتقام لوں یا میں ان پر ان کے دشمن کو مسلط کر دوں، تو انہوں نے «نقمہ» (سزا و بدلہ) کو پسند کیا، نتیجۃً اللہ نے ان پر موت مسلط کر دی، چنانچہ ایک دن میں ستر ہزار لوگ مر گئے ۱؎۔ صہیب (راوی) کہتے ہیں کہ جب آپ نے یہ حدیث بیان کی تو اس کے ساتھ آپ نے ایک اور حدیث بھی بیان فرمائی، آپ نے فرمایا: ایک بادشاہ تھا اس بادشاہ کا ایک کاہن تھا، وہ اپنے بادشاہ کو خبریں بتاتا تھا، اس کاہن نے بادشاہ سے کہا: میرے لیے ایک ہوشیار لڑکا ڈھونڈھ دو، راوی کو یہاں شبہہ ہو گیا کہ «غلاما فهما» کہا یا «فطنا لقنا» کہا (معنی تقریباً دونوں الفاظ کا ایک ہی ہے) میں اسے اپنا یہ علم سکھا دوں، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں مر گیا تو تمہارے پاس سے یہ علم ختم ہو جائے گا اور تم میں کوئی نہ رہ جائے گا جو اس علم سے واقف ہو، آپ فرماتے ہیں: اس نے جن صفات و خصوصیات کا حامل لڑکا بتایا تھا لوگوں نے اس کے لیے ویسا ہی لڑکا ڈھونڈ دیا، لوگوں نے اس لڑکے سے کہا کہ وہ اس کاہن کے پاس حاضر ہوا کر اور اس کے پاس باربار آتا جاتا ہے وہ لڑکا اس کاہن کے پاس آنے جانے لگا، اس لڑکے کے راستے میں ایک عبادت خانہ کے اندر ایک راہب رہا کرتا تھا (اس حدیث کے ایک راوی) معمر کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں عبادت خانہ کے لوگ اس وقت کے مسلمان تھے، وہ لڑکا جب بھی اس راہب کے پاس سے گزرتا دین کی کچھ نہ کچھ باتیں اس سے پوچھا کرتا، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس لڑکے نے راہب کو اپنے متعلق خبر دی، کہا: میں اللہ کی عبادت کرنے لگا ہوں وہ لڑکا راہب کے پاس زیادہ سے زیادہ دیر تک بیٹھنے اور رکنے لگا اور کاہن کے پاس آنا جانا کم کر دیا، کاہن نے لڑکے والوں کے یہاں کہلا بھیجا کہ لگتا ہے لڑکا اب میرے پاس نہ آیا جایا کرے گا، لڑکے نے راہب کو بھی یہ بات بتا دی، راہب نے لڑکے سے کہا کہ جب کاہن تم سے پوچھے کہاں تھے؟ تو کہہ دیا کرو گھر والوں کے پاس تھا، اور جب تیرے گھر والے کہیں کہ تو کہاں تھا؟ تو ان کو بتایا کہ تم کاہن کے پاس تھے، راوی کہتے ہیں: غلام کے دن ایسے ہی کٹ رہے تھے کہ ایک دن لڑکے کا گزر لوگوں کی ایک ایسی بڑی جماعت پر ہوا جنہیں ایک جانور نے روک رکھا تھا، بعض لوگوں نے کہا کہ وہ چوپایہ شیر تھا، لڑکے نے یہ کیا کہ ایک پتھر اٹھایا اور کہا: اے اللہ! راہب جو کہتا ہے اگر وہ سچ ہے تو میں تجھ سے اسے قتل کر دینے کی توفیق چاہتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے اسے پتھر مارا اور جانور کو ہلاک کر دیا، لوگوں نے پوچھا: اسے کس نے مارا؟ جنہوں نے دیکھا تھا، انہوں نے کہا: فلاں لڑکے نے، یہ سن کر لوگ اچنبھے میں پڑ گئے، لوگوں نے کہا: اس لڑکے نے ایسا علم سیکھا ہے جسے کوئی دوسرا نہیں جانتا، یہ بات ایک اندھے نے سنی تو اس نے لڑکے سے کہا: اگر تو میری بینائی واپس لا دے تو میں تجھے یہ دوں گا، لڑکے نے کہا: میں تجھ سے یہ سب چیزیں نہیں مانگتا تو یہ بتا اگر تیری بینائی تجھے واپس مل گئی تو کیا تو اپنی بینائی عطا کرنے والے پر ایمان لے آئے گا؟ اس نے کہا: ہاں۔ (بالکل ایمان لے آؤں گا)۔ راوی کہتے ہیں: لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس کی بینائی واپس لوٹا دی، یہ دیکھ کر اندھا ایمان لے آیا، ان کا معاملہ بادشاہ تک پہنچ گیا، اس نے انہیں بلا بھیجا تو انہیں لا کر حاضر کیا گیا، اس نے ان سے کہا: میں تم سب کو الگ الگ طریقوں سے قتل کر ڈالوں گا، پھر اس نے راہب کو اور اس شخص کو جو پہلے اندھا تھا قتل کر ڈالنے کا حکم دیا، ان میں سے ایک کے سر کے بیچوں بیچ (مانگ) پر آرا رکھ کر چیر دیا گیا اور دوسرے کو دوسرے طریقے سے قتل کر دیا گیا، پھر لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے ایسے پہاڑ پر لے جاؤ جو ایسا ایسا ہو اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر سے نیچے پھینک دو چنانچہ لوگ اسے اس خاص پہاڑ پر لے گئے اور جب اس آخری جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے وہ لوگ اسے پھینک دینا چاہتے تھے، تو وہ خود ہی اس پہاڑ سے لڑھک لڑھک کر گرنے لگے، یہاں تک کہ صرف لڑکا باقی بچا، پھر جب وہ واپس آیا تو بادشاہ نے اس کے متعلق پھر حکم دیا کہ اسے سمندر میں لے جاؤ، اور اسے اس میں ڈبو کر آ جاؤ، اسے سمندر پر لے جایا گیا تو اللہ نے ان سب کو جو اس لڑکے کے ساتھ گئے ہوئے تھے ڈبو دیا، اور خود لڑکے کو بچا لیا، (لڑکا بچ کر پھر بادشاہ کے پاس آیا) اور اس سے کہا: تم مجھے اس طرح سے مار نہ سکو گے إلا یہ کہ تم مجھے سولی پر لٹکا دو اور مجھے تیر مارو، اور تیر مارتے وقت کہو اس اللہ کے نام سے میں تیر چلا رہا ہوں جو اس لڑکے کا رب ہے، بادشاہ نے اس لڑکے کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا، لڑکا سولی پر لٹکا دیا گیا پھر بادشاہ نے اس پر تیر مارا، اور تیر مارتے ہوئے کہا: «بسم الله رب هذا الغلام» بادشاہ نے تیر چلایا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھ لیا پھر مر گیا (شہید) ہو گیا، لوگ بول اٹھے اس لڑکے کو ایسا علم حاصل تھا جو کسی اور کو معلوم نہیں، ہم تو اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں، آپ نے فرمایا: بادشاہ سے کہا گیا کہ آپ تو تین ہی آدمیوں سے گھبرا گئے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی، اب تو یہ سارے کے سارے لوگ ہی آپ کے خلاف ہو گئے ہیں (اب کیا کریں گے؟) آپ نے فرمایا: اس نے کئی ایک کھائیاں (گڈھے) کھودوائے اور اس میں لکڑیاں ڈلوا دیں اور آگ بھڑکا دی، لوگوں کو اکٹھا کر کے کہا: جو اپنے (نئے) دین سے پھر جائے گا اسے ہم چھوڑ دیں گے اور جو اپنے دین سے نہ پلٹے گا ہم اسے اس آگ میں جھونک دیں گے، پھر وہ انہیں ان گڈھوں میں ڈالنے لگا، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے متعلق فرماتا ہے (پھر آپ نے آیت «قتل أصحاب الأخدود النار ذات الوقود» سے لے کر «العزيز الحميد» تک پڑھی ۲؎۔ راوی کہتے ہیں: لڑکا (سولی پر لٹکا کر قتل کر دئیے جانے کے بعد) دفن کر دیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکا عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے زمانہ میں زمین سے نکالا گیا، اس کی انگلیاں اس کی کنپٹی پر اسی طرح رکھی ہوئی تھیں جس طرح اس نے اپنے قتل ہوتے وقت رکھا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3340]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4969) (صحیح) صحیح مسلم/الزہد 17 (3005) (تحفة الأشراف: 4969) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا (جیسا کہ مسند احمد کی مطول روایت میں ہے): میں اپنی اس «ہمس» (خاموش سرگوشی) میں تمہاری اس بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کو خوش تو ہوتا ہوں لیکن اللہ کے اس طرح کے «نقمہ» (عذاب و سزا سے) پناہ مانگتا ہوں اور میں اللہ سے یہ دعا کرتا ہوں «اللهم بك أقاتل وبك أحاول ولا حول ولا قوة إلا بالله» ۔
۲؎: خندقوں والے ہلاک کئے گئے وہ ایک آگ تھی ایندھن والی، جب کہ وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے، یہ لوگ ان مسلمانوں سے (کسی اور گناہ کا) بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے (البروج: ۴-۸) یہ واقعہ رسول اللہ کی ولادت سے پچاس سال پہلے ملک یمن میں پیش آیا تھا، اس ظالم بادشاہ کا نام ذونواس یوسف تھا، یہ یہودی المذہب تھا، (تفصیل کے لیے دیکھئیے الرحیم المختوم / صفی الرحمن مبارکپوری)۔

قال الشيخ الألباني: (حديث: " إن نبيا من الأنبياء.... ") صحيح، (حديث: " كان ملك من الملوك وكان لذلك الملك كاهن ") صحيح (حديث: " إن نبيا من الأنبياء.. ") تخريج الكلم الطيب (125 / 83)

   جامع الترمذيملك من الملوك وكان لذلك الملك كاهن يكهن له فقال الكاهن انظروا لي غلاما فهما أو قال فطنا لقنا فأعلمه علمي هذا فإني أخاف أن أموت فينقطع منكم هذا العلم ولا يكون فيكم من يعلمه قال فنظروا له على ما وصف فأمروه أن يحضر ذلك الكاهن وأن يختلف إليه فجعل يختلف إليه و

   جامع الترمذينبيا من الأنبياء كان أعجب بأمته فقال من تقول لهؤلاء فأوحى الله إليه أن خيرهم بين أن أنتقم منهم وبين أن أسلط عليهم عدوهم فاختار النقمة فسلط عليهم الموت فمات منهم في يوم سبعون ألفا

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3340 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3340  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپﷺ نے فرمایا (جیساکہ مسند احمد کی مطول روایت میں ہے):
میں اپنی اس ہمس (خاموش سرگوشی) میں تمہاری اس بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کو خوش تو ہوتا ہوں لیکن اللہ کے اس طرح کے نقمہ (عذاب وسزا سے) پناہ مانگتا ہوں اور میں اللہ سے یہ دعا کرتا ہوں (اَللهم بِكَ أُقَاتِلُ وَبِكَ أُحَاوِلُ وَلَا حَولَ وَلَا قُوَّةّ إِلَّا بِالله)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3340