عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے
(ان کے والد) زبیر بن العوام رضی الله عنہ سے، حرہ
۱؎ کی نالی کے معاملہ میں، جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، جھگڑا کیا، انصاری نے زبیر رضی الله عنہ سے کہا کہ پانی کو بہنے دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے
۲؎، زبیر نے انکار کیا، پھر وہ لوگ اس جھگڑے کو لے کر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر سے کہا: زبیر! تم
(اپنا کھیت) سینچ کر پانی پڑوسی کے کھیت میں جانے دو،
(یہ سن کر) انصاری غصہ ہو گیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ وہ
(زبیر) آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں؟
(یہ سن کر) آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا آپ نے کہا: زبیر! اپنا کھیت سینچ لو، اور پانی اتنا بھر لو کہ منڈیروں تک پہنچ جائے
“۔ زبیر کہتے ہیں: قسم اللہ کی میں گمان کرتا ہوں کہ آیت:
«فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم» ”سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں
“ (النساء: ۶۵)۔ اسی مقدمہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابن وہب نے بطریق:
«الليث بن سعد ويونس عن الزهري عن عروة عن عبد الله بن الزبير» اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے،
۲- اور شعیب بن ابی حمزہ نے بطریق:
«الزهري عن عروة عن الزبير» روایت کی ہے اور انہوں نے اپنی روایت میں عبداللہ بن زبیر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3027]