الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: علم اور فہم دین
6. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَطْلُبُ بِعِلْمِهِ الدُّنْيَا
6. باب: علم (دین) سے دنیا حاصل کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2654
حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْحَاق بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ عِنْدَهُمْ، تُكُلِّمَ فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
کعب بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے ۱؎، کم علم اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۳- اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ محدثین کے نزدیک کچھ بہت زیادہ قوی نہیں ہیں، ان کے حافظہ کے سلسلے میں کلام کیا گیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2654]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11140) (حسن) (سند میں اسحاق ضعیف ہیں شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ان کے ساتھ بحث و مناظرہ کرے ان پر اپنی علمیت و قابلیت کا سکہ جمائے۔
۲؎: معلوم ہوا کہ علم دین حاصل کرنے والے کی نیت صالح ہونی چاہیئے، وہ کسی دنیاوی حرص و طمع کے بغیر اس کے حصول کی کوشش کرے، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم رہے گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (223 - 225) ، التعليق الرغيب (1 / 68)

قال الشيخ زبير على زئي: (2654) إسناده ضعيف
إسحاق بن يحيي ضعيف (تق: 390) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن ماجه (253) وغيره

   جامع الترمذيمن طلب العلم ليجاري به العلماء أو ليماري به السفهاء أو يصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله النار
   مشكوة المصابيحمن طلب العلم ليجاري به العلماء او ليماري به السفهاء او يصرف به وجوه الناس إليه ادخل الله النار

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2654 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2654  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان کے ساتھ بحث ومناظرہ کرے ان پر اپنی علمیت وقابلیت کا سکہ جمائے۔

2؎:
معلوم ہوا کہ علم دین حاصل کرنے والے کی نیت صالح ہونی چاہیے،
وہ کسی دنیاوی حرص و طمع کے بغیر اس کے حصول کی کوشش کرے،
کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم رہے گا۔

نوٹ:
(سند میں اسحاق ضعیف ہیں شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2654   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 225  
´ریاکار عالم دین کا انجام`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يصرف بِهِ وُجُوه النَّاس إِلَيْهِ أَدخل الله النَّار» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس غرض سے علم حاصل کرتا ہے کہ وہ علماء پر فخر کرے یا نادانوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کا چہرہ اپنی طرف پھیرے۔ یعنی اپنی طرف متوجہ کر لے یعنی دینی کی اشاعت کے واسطے علم حاصل نہیں کیا بلکہ دنیا طلبی یا عزت یابی یا لوگوں پر شیخی بگھاڑنے اور لوگوں کو مسخر کرنے کے لئے حاصل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں ڈال دے گا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 225]
تحقیق الحدیث:
یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔
◄ سنن ترمذی والی روایت میں اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ القرشی التیمی ضعیف ہے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 39۔]
◄ امام ترمذی نے اسی مقام پر فرمایا:
یہ حدیث غریب ہے۔۔۔ اور اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ ان (محدثین) کے نزدیک القوی نہیں ہے، اس کے حافظے کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔ [جامع ترمذي ص598 بتحقيق الالباني]
اُس پر امام احمد بن حنبل وغیرہ نے شدید جرح کی ہے۔
◄ سنن ابن ماجہ [253] والی روایت میں حماد بن عبدالرحمٰن ضعیف [تقريب التهذيب: 1502] اور ابوکرب الازدی مجہول ہے۔ [تقريب التهذيب: 8326]
◄ سنن ابن ماجہ [254] وغیرہ میں «ابن جريح عن ابي الزبير عن جابر بن عبدالله رضي الله عنه» کی سند سے آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تعملوا العلم لتباهوا به العلماء ولا لتماروا به السفهاء ولا تخيروا به المجالس فمن فعل ذلك فالنار النار.»
اس کی سند ابن جریح اور ابوالزبیر دو مدلسوں کے عن عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔
◄ سنن ابن ماجہ میں ہی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تعلموا العلم لتباهوا به العلماء أو لتماروا به السفهاء أو لتصرفوا وجوه الناس إليكم فمن فعل ذلك فهو فى النار.» [ح259]
اس روایت کی سند میں بشیر بن میمون: متروك متهم [تقريب التهذيب: 259]
اور اشعث بن سوار ضعيف هے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 524]
◄ سنن ابن ماجہ کی ایک اور روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من تعلم العلم ليباهي به العلماء ويجاري به السفهاء ويصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله جهنم.» [ح260]
اس کی سند میں عبداللہ بن سعید بن ابی سعید المقبری: متروک ہے۔ [تقريب التهذيب: 3356]
↰ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف روایات کو جمع کر کے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، حالانکہ یہ حسن نہیں بنتی بلکہ ضعیف ہی ہے۔

فائدہ:
آنے والی حدیث [اضواء المصابيح: 227، ابوداود: 3664، ابن ماجه: 252] اس ضعیف روایت سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ «والحمد لله»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 225