سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص علما سے مناظرہ کرنے، نادانوں کو شبہات میں مبتلا کرنے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے تو اللہ اسے جہنم میں داخل فرمائے گا۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 225]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2654 وقال: غريب .) ٭ إسحاق بن يحيي ضعيف و للحديث شواھد ضعيفة .»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 225
تحقیق الحدیث: یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔ ◄ سنن ترمذی والی روایت میں اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ القرشی التیمی ضعیف ہے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 39۔] ◄ امام ترمذی نے اسی مقام پر فرمایا: ”یہ حدیث غریب ہے۔۔۔ اور اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ ان (محدثین) کے نزدیک القوی نہیں ہے، اس کے حافظے کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔“[جامع ترمذي ص598 بتحقيق الالباني] اُس پر امام احمد بن حنبل وغیرہ نے شدید جرح کی ہے۔ ◄ سنن ابن ماجہ [253] والی روایت میں حماد بن عبدالرحمٰن ضعیف [تقريب التهذيب: 1502] اور ابوکرب الازدی مجہول ہے۔ [تقريب التهذيب: 8326] ◄ سنن ابن ماجہ [254] وغیرہ میں «ابن جريح عن ابي الزبير عن جابر بن عبدالله رضي الله عنه» کی سند سے آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تعملوا العلم لتباهوا به العلماء ولا لتماروا به السفهاء ولا تخيروا به المجالس فمن فعل ذلك فالنار النار.» اس کی سند ابن جریح اور ابوالزبیر دو مدلسوں کے عن عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ◄ سنن ابن ماجہ میں ہی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تعلموا العلم لتباهوا به العلماء أو لتماروا به السفهاء أو لتصرفوا وجوه الناس إليكم فمن فعل ذلك فهو فى النار.»[ح259] اس روایت کی سند میں بشیر بن میمون: متروك متهم [تقريب التهذيب: 259] اور اشعث بن سوار ضعيف هے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 524] ◄ سنن ابن ماجہ کی ایک اور روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من تعلم العلم ليباهي به العلماء ويجاري به السفهاء ويصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله جهنم.»[ح260] اس کی سند میں عبداللہ بن سعید بن ابی سعید المقبری: متروک ہے۔ [تقريب التهذيب: 3356] ↰ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف روایات کو جمع کر کے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، حالانکہ یہ حسن نہیں بنتی بلکہ ضعیف ہی ہے۔
فائدہ: آنے والی حدیث [اضواء المصابيح: 227، ابوداود: 3664، ابن ماجه: 252] اس ضعیف روایت سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ «والحمد لله»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2654
´علم (دین) سے دنیا حاصل کرنے والے کا بیان۔` کعب بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے ۱؎، کم علم اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2654]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی ان کے ساتھ بحث ومناظرہ کرے ان پر اپنی علمیت وقابلیت کا سکہ جمائے۔
2؎: معلوم ہوا کہ علم دین حاصل کرنے والے کی نیت صالح ہونی چاہیے، وہ کسی دنیاوی حرص و طمع کے بغیر اس کے حصول کی کوشش کرے، کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم رہے گا۔
نوٹ: (سند میں اسحاق ضعیف ہیں شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2654