ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں، پھر فرمایا:
”ایسا وقت
(آ گیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہو گا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا:
(اللہ کے رسول!) علم ہم سے کس طرح چھین لیا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا:
”اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھو دے! میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود و نصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے؟
“ ۱؎ (کیا فائدہ پہنچایا تورات اور انجیل نے ان کو؟)۔ جبیر
(راوی) کہتے ہیں: میری ملاقات عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء رضی الله عنہ کیا کہتے ہیں؟ پھر ابوالدرداء رضی الله عنہ نے جو کہا تھا وہ میں نے انہیں بتا دیا۔ انہوں نے کہا: ابوالدرداء رضی الله عنہ نے سچ کہا۔ اور اگر تم
(مزید) جاننا چاہو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی
(صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- معاویہ بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اور یحییٰ بن سعید قطان کے سوا ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس نے ان کے متعلق کچھ کلام کیا ہو،
۳- معاویہ بن صالح سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے،
۴- بعضوں نے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر سے، عبدالرحمٰن نے اپنے والد جبیر سے، جبیر نے عوف بن مالک سے اور عوف بن مالک نے بنی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2653]