الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
53. باب مِنْهُ
53. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2505
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ عَيَّرَ أَخَاهُ بِذَنْبٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يَعْمَلَهُ " , قَالَ أَحْمَدُ: " مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ لَمْ يُدْرِكْ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، وَرُوِيَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّهُ أَدْرَكَ سَبْعِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَاتَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، رَوَى عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ عَنْ مُعَاذٍ غَيْرَ حَدِيثٍ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے کسی دینی بھائی کو کسی گناہ پر عار دلایا تو اس کی موت نہیں ہو گی یہاں تک کہ اس سے وہ گناہ صادر ہو جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اس کی سند متصل نہیں ہے، اور خالد بن معدان کی ملاقات معاذ بن جبل سے ثابت نہیں ہے، خالد بن معدان سے مروی ہے کہ انہوں نے ستر صحابہ سے ملاقات کی ہے، اور معاذ بن جبل کی وفات عمر بن خطاب کی خلافت میں ہوئی، اور خالد بن معدان نے معاذ کے کئی شاگردوں کے واسطہ سے معاذ سے کئی حدیثیں روایت کی ہے،
۳- احمد بن منیع نے کہا: اس سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ شخص توبہ کر چکا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2505]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11310) (موضوع) (خالد بن معدان کا سماع معاذ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ محمد بن حسن کذاب راوی ہے، اسی نے یہ حدیث گھڑی ہوگی مگر سند متصل نہ کر سکا)»

قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (178) // ضعيف الجامع الصغير (5710) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2505) إسناده ضعيف
محمد بن الحسن الهمداني : ضعيف (تق: 5820) والسند منقطع

   جامع الترمذيمن عير أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله
   بلوغ المرام‏‏‏‏من عير اخاه بذنب لم يمت حتى يعمله

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2505 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2505  
اردو حاشہ:
نوٹ:
(خالد بن معدان کا سماع معاذ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے،
اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ محمد بن حسن کذاب راوی ہے،
اسی نے یہ حدیث گھڑی ہوگی مگر سند متصل نہ کرسکا)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2505   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1310  
گناہ کا عار دلانا
«وعن معاذ بن جبل رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:‏‏‏‏من عير اخاه بذنب لم يمت حتى يعمله ‏‏‏‏ اخرجه الترمذي وحسنه وسنده منقطع.»
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کو کسی گناہ کا عار دلائے وہ فوت نہیں ہو گا یہاں تک کہ وہ گناہ کر لے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا اور اسے حسن کہا اور اس کی سند منقطع ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1310]
تخریج:
«موضوع»
[ ترمذي 2505]
شیخ البانی نے اس حدیث پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے اور کئی محدثین کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اسے موضوع کہا ہے اس لیے ترمذی کے حسن کہنے کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔ ديكهئے: [سلسله الاحاديث الضعيفه 178]
اس میں ایک راوی محمد بن حسن بن ابی یزید ہمدانی ہے جسے ابوداود اور ابن معین نے کذاب قرار دیا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ترمذی نے اس کو اس کے شواہد کی وجہ سے حسن کہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا کوئی شاہد بھی نہیں جس میں یہ ہو کہ گناہ کا عار دلانے والا مرنے سے پہلے پہلے وہ گناہ ضرور کرے گا۔

فوائد:
موضوع حدیث بیان کرنے سے اجتناب لازم ہے:
اس میں شبہ نہیں کہ کسی مسلمان کو اس کے گناہ کے ساتھ عار دلانا منع ہے خصوصاً جب وہ تائب ہو چکا ہو، مگر یہ بات کہ جو شخص عار دلائے گا وہ مرنے سے پہلے اس گناہ کا ارتکا ب ضرور ہی کرے گا۔ سند کے لحاظ سے بالکل ہی پایہء اعتبار سے گری ہوئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے گھڑ کر لگائی گئی ہے اور واقع کے خلاف بھی ہے اس لئے ایسی روایات بیان نہیں کرنی چاہئیں ہاں ان کی حقیقت واضح کرنے کے لیے بیان کر دے تو الگ بات ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صراحت فرمائی کہ اس کی سند منقطع ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 228