ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نماز سے اپنے سو جانے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:
”سو جانے میں قصور اور کمی نہیں۔ قصور اور کمی تو جاگنے میں ہے،
(کہ جاگتا رہے اور نہ پڑھے) لہٰذا تم میں سے کوئی جب نماز بھول جائے، یا نماز سے سو جائے، تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن مسعود، ابومریم، عمران بن حصین، جبیر بن مطعم، ابوجحیفہ، ابوسعید، عمرو بن امیہ ضمری اور ذومخمر
(جنہیں ذومخبر بھی کہا جاتا ہے، اور یہ نجاشی کے بھتیجے ہیں) رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کے درمیان اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو نماز سے سو جائے یا اسے بھول جائے اور ایسے وقت میں جاگے یا اسے یاد آئے جو نماز کا وقت نہیں مثلاً سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے پڑھ لے جب جاگے یا یاد آئے گو سورج نکلنے کا یا ڈوبنے کا وقت ہو، یہی احمد، اسحاق بن راہویہ، شافعی اور مالک کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جب تک سورج نکل نہ جائے یا ڈوب نہ جائے نہ پڑھے۔ پہلا قول ہی راجح ہے، کیونکہ یہ نماز سبب والی
(قضاء) ہے اور سبب والی میں وقت کی پابندی نہیں ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 177]