ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیند کی حالت میں کوئی تقصیر (کمی) نہیں ہے، تقصیر (کمی) تو اس شخص میں ہے جو نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ جس وقت اسے اس کا ہوش آئے تو دوسری نماز کا وقت ہو جائے“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 617]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 617
617 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اس روایت میں نیند آنے کو کوتاہی اور قصور شمار نہیں کیا گیا جب کہ اس باب کی پہلی حدیث میں ”کفارہ“ کے الفاظ ہیں۔ ظاہر ہے کفارہ تو کسی غلطی کے بعد ہی ہوتا ہے، گویا نیند کا آنا بذات خود تو کوتاہی یا غلطی نہیں مگر سستی، غفلت اور عدم محافظت جو نیند کا سبب ہیں، کوتاہی کے ذیل میں آتے ہیں۔ ➋ ”اگلی نماز کا وقت آنے تک“ عام طور پر پچھلی نماز کا وقت اگلی نماز کا وقت آنے سے ختم ہوتا ہے، اس لیے یوں کہا: ورنہ مقصد نماز کا وقت ختم ہونا ہے، مثلاً: صبح کی نماز کا وقت ختم ہوتا ہے تو کسی فرض نماز کا وقت شروع نہیں ہوتا، چنانچہ وقت ختم ہونے تک صبح کی نماز نہ پڑھنا جرم اور گناہ ہے، البتہ جہاں شریعت نے تاخیر کی رخصت دی ہے وہاں یہ حدیث لاگو نہیں ہو گی، مثلاً: مسافر دو نمازیں جمع کر سکتا ہے۔ کبھی تاخیر واجب ہوتی ہے، جیسے مزدلفہ میں مغرب کی نماز۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1675، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 617
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 437
´جو نماز کے وقت سو جائے یا اسے بھول جائے تو کیا کرے؟` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک سفر میں تھے، تو آپ ایک طرف مڑے، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرف مڑ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو، (یہ کون آ رہے ہیں)؟“، اس پر میں نے کہا: یہ ایک سوار ہے، یہ دو ہیں، یہ تین ہیں، یہاں تک کہ ہم سات ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ہماری نماز کا (یعنی نماز فجر کا) خیال رکھنا“، اس کے بعد انہیں نیند آ گئی اور وہ ایسے سوئے کہ انہیں سورج کی تپش ہی نے بیدار کیا، چنانچہ لوگ اٹھے اور تھوڑی دور چلے، پھر سواری سے اترے اور وضو کیا، بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی تو سب نے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھیں، پھر دو رکعت فرض ادا کی، اور سوار ہو کر آپس میں کہنے لگے: ہم نے اپنی نماز میں کوتاہی کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو جانے میں کوئی کوتاہی اور قصور نہیں ہے، کوتاہی اور قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز بھول جائے تو جس وقت یاد آئے اسے پڑھ لے اور دوسرے دن اپنے وقت پر پڑھے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 437]
437۔ اردو حاشیہ: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشری تقاضوں سے بالا نہ تھے۔ اس لیے سفری تکان کے باعث آرام کے لیے اترے۔ ➋ اس کے باوجود نماز بروقت ادا کرنے کی فکر دامن گیر رہی اور بلال رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے پابند فرمایا۔ اور اس قسم کے عوارض کے موقع پر نماز کے لیے جاگنے کا اہتمام کر کے سونا چاہیے۔ ➌ انسان کو کسی تقصیر پر معذرت کرنی پڑے تو خوبصورت انداز میں کرے۔ ➍ مذکورہ اسباب کی وجہ سے کسی جگہ کو منحوس اور بےبرکت سمجھنا جائز ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ کو چھوڑ دیا تھا۔ ➎ قضا نمازوں کے لیے جماعت کی صورت میں اذان کہنا بھی مستحب ہے۔ پھر تکبیر کہی جائے اور جماعت کرائی جائے۔ لیکن اذان کا یہ استحاب صرف سفر اور بے آباد علاقوں ہی کے لیے ہے۔ عام مسجدوں میں (جو آبادیوں میں ہوں) وہاں بےوقت اذان دینا عوام کے لیے اضطراب اور تشویش کا باعث ہو گا۔ ہاں اگر وہاں آہستگی سے مسجد کی چار دیواری کے اندر اس طرح اذان دے لی جائے کہ باہر آواز نہ جائے، تو وہاں بھی اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ➏ سوتے رہ جانے یا بھول جانے کا قصور معاف ہے۔ اور ایسی نمازوں کے لیے وقت وہی ہے جب جاگے یا یاد آئے اور جب وقت نکل ہی گیا تو شرعی ضرورت کے تحت قدرے تاخیر کر لینا بھی جائز ہے جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی وادی میں جا کر نماز پڑھی۔ ➐ فجر کی سنتیں دیگر سنتوں کے مقابلے میں زیادہ اہم ہیں کہ سفر میں بھی نہیں چھوڑی گئیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 437