جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے کہ وہ غلام ہے، اتنے میں اس کا مالک آ گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اسے بیچ دو“، پھر آپ نے اس کو دو کالے غلام دے کر خرید لیا، اس کے بعد آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ہم اس کو صرف ابوالزبیر کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1596]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدنا اور بیچنا جائز ہے، اس شرط کے ساتھ کہ یہ خرید و فروخت بصورت نقد ہو، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیعت کے لیے آئے ہوئے شخص سے اس کی غلامی و آزادی سے متعلق پوچھ لینا ضروری ہے، کیونکہ غلام ہونے کی صورت میں اس سے بیعت لینی صحیح نہیں۔
جاء عبد فبايع رسول الله على الهجرة ولا يشعر النبي أنه عبد فجاء سيده يريده فقال النبي بعنيه فاشتراه بعبدين أسودين ثم لم يبايع أحدا بعد حتى يسأله أعبد هو
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1596
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدنا اور بیچنا جائز ہے، اس شرط کے ساتھ کہ یہ خرید وفروخت بصورت نقد ہو، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیعت کے لیے آئے ہوئے شخص سے اس کی غلامی و آزادی سے متعلق پوچھ لینا ضروری ہے، کیوں کہ غلام ہونے کی صورت میں اس سے بیعت لینی صحیح نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1596
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4189
´غلاموں کی بیعت کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام نے آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، آپ یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ یہ غلام ہے، پھر اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے ہاتھ بیچ دو“، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی یہاں تک کہ آپ اس سے معلوم کر لیتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4189]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالک کی اجازت کے بغیر غلام کی بیعت ناجائز ہے۔ (2) یہ حدیث رسول اﷲ ﷺ کے عظیم مکارم اخلاق اور عام لوگوں کے ساتھ احسان کرنے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ نے غلام کو والپس کرنا پسند نہیں فرمایا تا کہ وہ آزردہ خاطر نہ ہو، نیز جس غرض کے لیے وہ آیا تھا اس میں بھی خلل واقع نہ ہو، چنانچہ آپ نے احسان عظیم فرماتے ہوئے اسے خرید لیا تاکہ اس کا مقصد پورا ہوجائے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ دو غلاموں کے بدلے ایک غلام کی بیع جائز ہے، خواہ قیمت ایک جیسی ہو یا قیمت کا فرق ہو۔ تمام جانوروں اور حیوانات کا حکم بھی یہی ہے۔ جمہور اہل علم اس بیع کے جواز کے قائل ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ اور اہل کوفہ اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ (4) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نہ عالم الغیب تھے اور نہ آپ کو عطائی علم غیب حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس غلام کی بیعت قبول فرمالی جو اپنے آقا کی اجازت کے بغیر آگیا تھا۔ اسی طرح اس واقعے کے بعد آپ بیعت کی خاطر آنے والے ہر شخص سے پوچھا کرتے تھے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟ (5) رسول اﷲ ﷺ احتیاط پسند تھے، اسی لیے آپ بیعت کے لیے آنے والوں سے پوچھتے تھے۔ (6) غلام اپنی مرضی کا مالک نہیں ہوتا۔ وہ مالک کے حکم کا پابند ہوتا ہے لہٰذا غلام کا اسلام تو معبتر اور مقبول ہے مگر ہجرت اور جہاد وغیرہ کی بیعت معتبر نہیں۔ ممکن ہے مالک اسے اجازت نہ دے جیسا کہ مندرجہ بالا واقعہ میں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ نے اس کی بیعت ہجرت کی لاج رکھتے ہوئے اسے خرید لیا مگر ہر غلام کے ساتھ ایسے ممکن نہ تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4189
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4625
´ذی روح کو ذی روح کے بدلے کمی زیادتی کے ساتھ نقد بیچنے کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ غلام ہے، اتنے میں اسے ڈھونڈتا ہوا اس کا مالک آ پہنچا تو آپ نے فرمایا: ”اسے میرے ہاتھ بیچ دو“، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے اس کے بعد کسی سے بیعت نہیں لی جب تک کہ اس سے پوچھ نہ لیتے کہ وہ غلام ہے؟۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4625]
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کے مکارم اخلاق اور آپ کے احسان عظیم پر واضح دلالت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے غلام واپس نہ کیا، حالانکہ اس کا مالک پہنچ گیا۔ آپ نے غلام کا مقصد، یعنی ارادۂ ہجرت پورا فرما دیا۔ اسے اپنی رفاقت میں رہنے سے محروم نہ کیا اور دو غلاموں کے بدلے اسے خرید لیا۔ (2) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ ایک غلام کی دو غلاموں کے عوض بیع (خرید و فروخت) جائز ہے، خواہ ان کی قیمت ایک جیسی ہو یا مختلف۔ اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بیع نقد ہو۔ دونوں طرف سے ادھار نہ ہو۔ تمام حیوانات کا یہی حکم ہے، چاہے ایک غلام دو غلاموں کے عوض ہو یا ایک اونٹ دو کے بدلے۔ (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں میں اصل حریت اور آزادی ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ آنے والے غلام سے رسول اللہ ﷺ نے اس کے آزاد یا غلام ہونے کی بابت نہیں پوچھا بلکہ مذکورہ اصول کے مطابق بیعت فرما لی۔ (4) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی بھی صریح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس علمِ غیب ہرگز نہیں تھا۔ اگر آپ کو غیب کا علم ہوتا تو فورََا معلوم ہو جاتا کہ آنے والا شخص غلام ہے، نیز یہ بھی ضرور معلوم ہو جاتا کہ اس کا مالک بھی اس کے پیچھے پیچھے آ رہا ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ آپ آئندہ بھی بیعت کے لیے آنے والے کسی شخص سے نہ پوچھتے کہ تو آزاد ہے یا غلام؟ رسول اللہ ﷺ کو صرف اس بات کا علم ہوتا جو آپ کو اللہ تعالیٰ بتا دیتا تھا۔ (5) معلوم ہوا حیوانات کی باہمی خریداری اور تبادلے میں کمی بیشی جائز ہے کیونکہ حیوانات کی حیثیت میں بسا اوقات فرق ہوتا ہے، گویا وہ الگ الگ جنس ہیں اور جب جنسیں مختلف ہوں تو کمی بیشی جائز ہوتی ہے۔ ایک اونٹ پندرہ ہزار کا مل سکتا ہے تو ایک اونٹ کئی لاکھ کا بھی ملتا ہے، لہٰذا جانوروں کو یوں سمجھا گیا جیسے وہ الگ الگ جنس کے ہوں۔ شریعت اپنے احکام میں لوگوں کی مجبوریوں کا بھی لحاظ رکھتی ہے، خواہ کوئی فرعی اصول بدلنا پڑے، عدم حرج بنیادی اصول ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4625
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2869
´بیعت کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کر لی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غلام ہونے کا معلوم ہی نہ ہوا، چنانچہ اس کا مالک جب اسے لینے کے مقصد سے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ غلام مجھے بیچ دو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد کسی سے بھی یہ معلوم کئے بغیر بیعت نہیں کرتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2869]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر ہجرت نہیں کرسکتا کیونکہ اس طرح آقا اس سے خدمت لینے کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔
(2) غلاموں اور مویشیوں کی خرید وفروخت تعداد میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلے کی صورت جائز ہے مثلاً: ایک عمدہ بھیڑ کے بدلے میں دو ادنٰی قسم کی بھیڑیں یا دو میمنے لینا یا دینا جائز ہے جبکہ زرعی اشیاء کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ درست نہیں مثلاً: ایک من عمدہ گندم کا ڈیڑھ من ہلکی قسم کی گندم سے تبادلہ درست نہیں۔ (دیکھیے: سنن ابن ماجه حديث: 2252) 3۔
(3) نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے۔ علم غیب صرف اللہ کی ذات ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2869
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4113
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی اور آپﷺ کو یہ محسوس نہ ہوا کہ یہ غلام ہے، تو اس کا آقا اسے لینے کے لیے آ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا: ”اسے مجھے فروخت کر دو،“ اور آپﷺ نے اسے دو سیاہ غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے بیعت نہیں لی، حتی کہ آپﷺ اس سے پوچھ لیتے ”کیا وہ غلام ہے؟“... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4113]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ، غیب کا علم نہیں رکھتے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کی ہجرت پر بیعت قبول فرما لی، حالانکہ غلام، مالک کی اجازت کے بغیر ہجرت نہیں کر سکتا، لیکن چونکہ آپﷺ نے بیعت قبول فرما لی تھی، اس لیے آپﷺ نے اس کو اس کے آقا کی طرف لوٹانا مناسب خیال نہ کیا، اور اخلاق کریمہ کی بنا پر، اس کے مالک سے اسے دو غلاموں کے عوض خرید لیا، حیوانات کی نقد بہ نقد کمی و بیشی کے ساتھ بیع بالاتفاق جائز ہے، اور ادھار کی صورت میں ائمہ حجاز (مالک، شافعی، احمد) اور جمہور کے نزدیک جائز ہے، کیونکہ آپﷺ نے ایک غزوہ کی تیاری کے لیے، ایک اونٹ، دو اونٹ کے عوض ادھار لیا تھا، لیکن ائمہ احناف کے نزدیک حیوان کے عوض ادھار بیع جائز نہیں ہے، اور جس حدیث سے انہوں نے استدلال کیا ہے، اس کا معنی ہے کہ دونوں طرف ادھار ہو، تو پھر جائز نہیں ہے۔