عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور آپ پر کتاب نازل کی، آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا اس میں آیت رجم بھی تھی ۱؎، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، (لیکن) مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر زمانہ دراز ہو جائے گا تو کہنے والے کہیں گے: اللہ کی کتاب میں ہم رجم کا حکم نہیں پاتے، ایسے لوگ اللہ کا نازل کردہ ایک فریضہ چھوڑنے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے، خبردار! جب زانی شادی شدہ ہو اور گواہ موجود ہوں، یا جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو وہ حاملہ ہو جائے، یا زانی خود اعتراف کر لے تو رجم کرنا واجب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور کئی سندوں سے یہ حدیث عمر رضی الله عنہ سے آئی ہے، ۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1432]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحدود 30 (6829)، صحیح مسلم/الحدود 4 (1691)، سنن ابی داود/ الحدود 23 (4418)، سنن ابن ماجہ/الحدود 8 (2553)، (تحفة الأشراف: 10508)، و مسند احمد (1/29، 40، 47، 50، 55)، سنن الدارمی/الحدود 16 (2368) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آیت رجم کی تلاوت منسوخ ہے لیکن اس کا حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے۔
رجم رسول الله ورجمنا بعده فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل والله ما نجد آية الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله والرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو كان الحبل أو الاعتراف
الله قد بعث محمدا بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان مما أنزل عليه آية الرجم قرأناها ووعيناها وعقلناها فرجم رسول الله ورجمنا بعده فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل ما نجد الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله
الله بعث محمدا بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان فيما أنزل عليه آية الرجم فرجم رسول الله ورجمنا بعده وإني خائف أن يطول بالناس زمان فيقول قائل لا نجد الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله ألا وإن الرجم حق على
الله بعث محمدا بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان فيما أنزل عليه آية الرجم فقرأناها ووعيناها ورجم رسول الله ورجمنا من بعده وإني خشيت إن طال بالناس الزمان أن يقول قائل ما نجد آية الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة أنزل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1038
´زانی کی حد کا بیان` سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خطاب فرمایا اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے حق و صداقت دے کر مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل فرمائی۔ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اس میں رجم کی آیت بھی نازل فرمائی تھی۔ ہم نے خود اسے پڑھا ہے اور اسے یاد بھی رکھا ہے اور اسے خوب سمجھا اور دل و دماغ میں محفوظ بھی رکھا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کہنے والے کہیں گے کہ کتاب اللہ میں ہم رجم کی سزا کا ذکر نہیں پاتے۔ اس طرح وہ ایسے فرض کے تارک ہو کر جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا، گمراہ ہو جائیں گے۔ حالانکہ رجم کی سزا کتاب میں حق ہے اس شخص کیلئے جس نے زنا کیا ہو۔ اس حالت میں جبکہ وہ شادی شدہ ہو، وہ خواہ مرد ہوں یا عورتیں جبکہ دلیل قائم ہو جائے یا حمل ہو یا خود اقرار کرے۔ (بخاری)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1038»
تخریج: «أخرجه البخاري، الحدود، باب رجم الحبلٰي في الزني إذا أحصنت، حديث: 6830، ومسلم، الحدود، باب رجم الثيب في الزني، حديث:1691.»
تشریح: 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زنا کا ثبوت تین طرح سے ہو سکتا ہے: ٭ چار عاقل بالغ مسلمان مردوں کی شہادتیں ہوں تو جرم زنا ثابت ہوگا۔ ٭ یا زانی خود اقراری ہو کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ ٭ یا عورت حاملہ ہو۔ 2.اگر یہ صورت پیش آجائے کہ ایک عورت شادی شدہ بھی نہیں اور لونڈی بھی نہیں مگر حاملہ ہے تو اس صورت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ اس پر حد زنا نافذ ہوگی‘ مگر امام شافعی رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک محض حمل سے حد جاری نہیں کی جائے گی۔ امام مالک رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر یہ خطاب فرمایا جس میں حد زنا کے جاری ہونے کے لیے گواہی اور زانی کے اقرار کے ساتھ ساتھ عورت کے حمل کو بھی معتبر دلیل قرار دیا اور مجلس میں موجود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے تردید نہیں کی تو گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات بمنزلہ اجماع کے ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1038
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4418
´شادی شدہ زانی کے رجم کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اس میں آپ نے کہا: اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی، تو جو آیتیں آپ پر نازل ہوئیں ان میں آیت رجم بھی ہے، ہم نے اسے پڑھا، اور یاد رکھا، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر زیادہ عرصہ گزر جائے تو کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ ہم اللہ کی کتاب میں آیت رجم نہیں پاتے، تو وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے چھوڑ کر گمراہ ہو جائے، لہٰذا مردوں اور عورتوں میں سے جو زنا کرے اسے ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4418]
فوائد ومسائل: نیل الاوطار میں ہے کہ مسنداحمد اور طبرانی کبیرمیں ابوامامہ بن سہل اپنی خالہ عجماء سے راوی ہیں کہ قرآن کریم میں یہ نازل ہواتھا: (الشيخُ و الشيخةُ إذا زَنَيَا فارجمُوهُما البتة بما قضيا من اللذةِ) اسی طرح صیحح ابن حبان میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورہ احزاب سورہ بقرہ جتنی تھی اور اس میں (الشيخ و الشيخة) والی آیت بھی تھی (یعنی بعد میں اس سورت کا ایک حصہ منسوخ ہوگیا)(نيل الأوطار:٤/١0٢) الغرض اصحاب الحدیث کے نزدیک یہ حکم قرآن مجید اور سنت متواتر دونوں سے ثابت ہے۔ اور یہ نسخ کی ایک صورت ہے کہ آیت کا حکم باقی اور تلاوت منسوخ ہو چکی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تلاوت موجود ہے، مگر حکم منسوخ ہے مثلا (الوَصِيَّةُ لِلوالدَينِ والأَقْرَبِينَ)(البقرة:١٨) ماں باپ اور وارثوں کے لئے ان کے حصے سے زیادہ وصیت منسوخ ہے، اگرچہ اس کی تلاوت باقی ہے۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہوچکے ہیں۔ مثلا رضاعت میں پہلے دس چوسنیوں سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ آیت بھی تلاوت کی جاتی ہے، مگر الفاظ اور حکم دونوں منسوخ ہو چکے ہیں۔ (عشر رضعات معلومات يحرمن) اب پانچ چوسنیوں سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ وہ بحکم احادیث ہے نہ کہ قرآن۔ (كتاب الفقيه والمتفقه از خطيب بغدادی)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4418
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6830
6830. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں مہاجرین کو (قرآن) پڑھایا کرتا تھا، جن میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ میں ایک دن منیٰ میں ان کے گھر بیٹھا ہوا تھا جبکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا: کاش! تم آج اس شخص کو دیکھتے جو امیر المومنین کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! کیا آپ فلاں شخص سے باز پرس کریں گے جو کہتا ہے: اگر حضرت عمر بن خطاب ؓ کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں شخص کی بیعت کر لوں گا کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیعت تو اچانک مکمل ہو گئی تھی، کسی کو سوچ بچار کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ بہت غضب ناک ہوئے، پھر فرمایا: اگر اللہ نے چاہا تو میں آج شام لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے خبردار کروں گا جو مسلمانوں سے ان کے حقوق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6830]
حدیث حاشیہ: اس طویل حدیث میں بہت سی باتیں قابل غور ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال پر دوسرے سے بیعت کا ذکر کرنے والا شخص کون تھا؟ اس کے بارے میں بلاذری کے انساب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گزر جانے پر ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کریں گے۔ یہی صحیح ہے۔ مولانا وحیدالزماں مرحوم کی تحقیق یہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ آکر جو خطبہ دیا اس میں آپ نے اپنی وفات کا بھی ذکر فرمایا یہ ان کی کرامت تھی۔ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ اب موت نزدیک آ پہنچی ہے۔ اس خطبہ کے بعد ہی ابھی ذی الحجہ کا مہینہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ابولولو مجوسی نے آپ کو شہید کر ڈالا۔ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے ایک خواب دیکھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ میری موت آپہنچی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک مرغ ان کو چونچیں مار رہا ہے۔ منیٰ میں اس کہنے والے کے جوب میں آپ نے تفصیل سے اپنے خطبہ میں اظہار خیال فرمایا اور کہا کہ دیکھو بغیر صلاح مشورہ کے کوئی شخص امام نہ بن بیٹھے، ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہوگا۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ خلاف اور بیعت ہمیشہ سوچ سمجھ کر مسلمانوں کے صلاح و مشورے سے ہونی چاہئے اور اگر کوئی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نظیر دے کہ ان کی بیعت دفعتاً باوجود اس کے اس سے کوئی برائی پیدا نہیں ہوئی تو اس کی بے وقوفی ہے۔ کیوں کہ یہ ایک اتفاقی بات تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ افضل ترین امت اور خلافت کے اہل تھے۔ اتفاق سے ان ہی سے بیعت بھی ہوگئی ہر وقت ایسا نہیں ہو سکتا۔ سبحان اللہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد حق بجانب ہے۔ بغیر صلاح و مشورہ کے امام بن جانے والوں کا انجام اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان حالات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ان کا مطلب یہ تھا کہ میں مرتے دم تک اسی خیال پر قائم ہوں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر میں مقدم نہیں ہو سکتا اور جن لوگوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود ہوں میں ان کا سردار نہیں بن سکتا۔ اب تک تو میں اسی اعتقاد پر مضبوط ہوں لیکن آئندہ اگر شیطان یا نفس مجھ کو بہکا دے اور کوئی دوسرا خیال میرے دل میں ڈال دے تو یہ اور بات ہے۔ آفریں صد آفریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عجز و انکسار اور حقیقت فہمی پر کہ انہوں نے ہر بات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے سے بلند و بالا سمجھا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ انصاری خطیب نے جو کچھ کہا اس کا مطلب اپنے تئیں اس کے ان خیالات کا اظہار کرنا تھا کہ میں بڑا صائب الرائے اور عقل مند اور مرجع قوم ہوں لوگ ہر جھگڑے اور قضیے میں میری طرف رجوع ہوتے ہیں اور میں ایسی عمدہ رائے دیتا ہوں کہ جو کسی کو نہیں سوجھتی گویا تنازع اور جھگڑے کی کھجلی میرے پاس آکر اور مجھ سے رائے لے کر رفع کرتے ہیں اور تباہی اور بربادی کے ڈر میں میری پناہ لیتے ہیں میں ان کی باڑ ہو جاتا ہوں حوادث اور بلاؤں کی آندھیوں سے ان کو بچاتا ہوں، اپنی اتنی تعریف کے بعد اس نے دو خلیفہ مقرر کرنے کی تجویز پیش کی جو سراسر غلط تھی اور اسلام کے لیے سخت نقصان دہ اسے تائید الٰہی سمجھنا چاہئے کہ فوراً ہی سب حاضرین انصار اور مہاجرین نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر اتفاق رائے کر کے مسلمانوں کو منتشر ہونے سے بچا لیا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی اور خفا ہو کر ملک شام چلے گئے اور وہاں اچانک ان کا انتقال ہو گیا۔ انتخاب خلیفہ کے مسئلہ کو تجہیز و تکفین پر مقدم رکھا، اسی وقت سے عموماً یہ رواج ہو گیا کہ جب کوئی خلیفہ یا بادشاہ مر جاتا ہے تو پہلے اس کا جانشین منتخب کر کے بعد میں اس کی تجہیز و تکفین کا کام کیا جاتا ہے۔ حدیث میں ضمنی طور پر جعلی زانیہ کے رجم کا بھی ذکر ہے۔ باب سے یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6830
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6830
6830. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں مہاجرین کو (قرآن) پڑھایا کرتا تھا، جن میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ میں ایک دن منیٰ میں ان کے گھر بیٹھا ہوا تھا جبکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ میرے پاس آئے تو انہوں نے کہا: کاش! تم آج اس شخص کو دیکھتے جو امیر المومنین کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! کیا آپ فلاں شخص سے باز پرس کریں گے جو کہتا ہے: اگر حضرت عمر بن خطاب ؓ کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں شخص کی بیعت کر لوں گا کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیعت تو اچانک مکمل ہو گئی تھی، کسی کو سوچ بچار کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ بہت غضب ناک ہوئے، پھر فرمایا: اگر اللہ نے چاہا تو میں آج شام لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے خبردار کروں گا جو مسلمانوں سے ان کے حقوق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6830]
حدیث حاشیہ: (1) اس طویل حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درج ذیل ارشاد ہے: ”یقیناً رجم کا حکم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہر اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا ہو بشرطیکہ ان پر گواہی ثابت ہوجائے، خواہ وہ مرد ہویا عورت یا کسی عورت کو ناجائز حمل قرار پائے یا وہ خود اقرار کرے۔ “ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ زنا سے حاملہ عورت کو رجم کیا جائے گا بشرطیکہ وہ شادی شدہ ہو، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا حمل جنم دے لے۔ ابن بطال نے کہا کہ عنوان کے حسب ذیل معنی ہیں: ”کیا زنا سے حاملہ پر رجم ہے یا نہیں؟ اس امر پر اجماع ہے کہ حمل وضع کرنے تک اسے رجم نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر اس پر زنا کی وجہ سے کوڑوں کی سزا واجب ہے تو بھی بچہ جننے کا انتظار کیا جائے گا، نیز اگر قتل نیز اگر قتل ناحق کی وجہ سے اس پر قصاص واجب ہے تو اس کے بچہ پیدا ہونے کے بعد قصاص لیا جائے گا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک حاملہ کو سنگسار کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اس وقت تک رجم نہیں کر سکتے جب تک وہ اپنے پیٹ کے بچے کو جنم نہ دے۔ (فتح الباري: 179/12)(2) اگر بے شوہر حاملہ ہوجائے تو اس کے متعلق اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر وہ کہے کہ مجھے زنا پر مجبور کیا گیا ہے یا میں نے شادی کر لی ہے تو اس کی بات نہیں مانی جائے گی بلکہ اس پر حد قائم کی جائے گی لیکن اگر وہ اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کر دے تو حد زائل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور اہل کوفہ کہتے ہیں کہ ایسی عورت کو حد نہ ماری جائے حتی کہ وہ خود اقرار کرے یا اس پر گواہ ثابت ہوں۔ (عمدة القاري: 102/16)(3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے آیت رجم کا ذکر کیا کیونکہ اس آیت کا حکم باقی ہے لیکن تلاوت منسوخ ہونے کی وجہ سے اس کے انکار کا اندیشہ تھا، چنانچہ یہ خدشہ واقع بھی ہو گیا جب خوارج کے ایک گروہ نے اس کا انکار کر دیا، اسی طرح معتزلہ نے بھی اسے تسلیم نہ کیا۔ دور حاضر کے معتزلہ اور خوارج بھی اسے نہیں مانتے بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ آیت قرآن میں موجود تھی تو کہاں گئی، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تلاوت منسوخ کر دی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ہم آپ کو ضرور پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے مگر جو اللہ چاہے۔ “(الأعلیٰ87: 7.6) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر اس کی تلاوت منسوخ ہے تو اس کا حکم کیسے باقی رہ گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حکم کو باقی رکھنے کا ذریعہ یہ منسوخ التلاوت آیت نہیں بلکہ دوسری تین وجوہ ہیں: ٭تورات کا یہ حکم شریعت محمدیہ میں باقی رکھا گیا ہے جیسا کہ اہل کتاب کو رجم کرنے کے واقعے سے ثابت ہے۔ ٭وہ متواتر احادیث ہیں جن میں شادی شدہ زانی مرد، عورت کو سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ ٭واقعات بھی اس حکم کو باقی رکھنے کا ذریعہ ہیں جن میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سزا کو برقرار رکھا۔ حدیث میں ہے کہ حضرت زید بن ثابت اور سعید بن عاص رضی اللہ عنہما جب مصاحف لکھ رہے تھے تو یہ آیت سامنے آئی۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ پڑھ رہے تھے: (الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة نكالاً من الله والله عزيز حكيم) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اسے لکھنے کے متعلق عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناگوار خیال کیا بلکہ فرمایا: ”اے عمر! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اگر بوڑھا زنا کرے اور اس نے شادی نہ کی ہو تو اسے کوڑے لگائے جاتے ہیں اور نوجوان اگر شادی شدہ ہو اور زنا کرے تو اسے سنگسار کیا جاتا ہے؟“(المستدرك للحاکم: 436/4) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اس کی صرف تلاوت کیوں منسوخ کی گئی، یعنی عمل اس کے ظاہری عموم کے خلاف ہے۔ عموم کا تقاضا ہے کہ ہر قسم کے بوڑھے زانی مرد، عورت کو رجم کیا جائے جبکہ اس کے لیے شادی شدہ ہونا شرط ہے، خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان۔ واللہ أعلم. (فتح الباري: 176/12) اس طویل حدیث میں دیگر بہت سی باتیں قابل غور ہیں جنھیں ہم پہلے بیان کرآئے ہیں۔ عنوان کے مطابق جو حصہ تھا اس کے متعلق ہم نے اپنی گزارشات پیش کر دی ہیں۔ واللہ المستعان.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6830