الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
14. باب مَا جَاءَ فِي الْعَبْدِ يَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَيُعْتِقُ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ
14. باب: دو آدمیوں کے درمیان مشترک غلام کا بیان جس میں سے ایک اپنے حصہ کو آزاد کر دے۔
حدیث نمبر: 1348
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ , أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ , عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا , أَوْ قَالَ شِقْصًا فِي مَمْلُوكٍ , فَخَلَاصُهُ فِي مَالِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ , فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ , قُوِّمَ قِيمَةَ عَدْلٍ , ثُمَّ يُسْتَسْعَى فِي نَصِيبِ الَّذِي لَمْ يُعْتَقْ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَهُ , وَقَالَ: شَقِيصًا , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَهَكَذَا رَوَى أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ قَتَادَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ , وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ قَتَادَةَ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَمْرَ السِّعَايَةِ , وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي السِّعَايَةِ , فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ السِّعَايَةَ فِي هَذَا , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَأَهْلِ الْكُوفَةِ , وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق , وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ الْعَبْدُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ , فَإِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ غَرِمَ نَصِيبَ صَاحِبِهِ , وَعَتَقَ الْعَبْدُ مِنْ مَالِهِ , وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ , عَتَقَ مِنَ الْعَبْدِ مَا عَتَقَ , وَلَا يُسْتَسْعَى , وَقَالُوا بِمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ , وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا تو باقی حصے کی آزادی بھی اسی کے مال سے ہو گی اگر اس کے پاس مال ہے، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی، پھر غلام کو پریشانی میں ڈالے بغیر اسے موقع دیا جائے گا کہ وہ کمائی کر کے اس شخص کا حصہ ادا کر دے جس نے اپنا حصہ آزاد نہیں کیا ہے۔ محمد بن بشار سے بھی ایسے ہی روایت ہے اور اس میں «شقصاً» کے بجائے «شقیصا» ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اسی طرح ابان بن یزید نے قتادہ سے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کے مثل روایت کی ہے،
۳- اور شعبہ نے بھی اس حدیث کو قتادہ سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے اس سے آزادی کے لیے کمائی کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے،
۴- سعایہ (کمائی کرانے) کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے اس بارے میں سعایہ کو جائز کہا ہے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے، اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،
۵- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۶- اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ جب غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کر دے تو اگر اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ساجھی دار کے حصے کا تاوان ادا کرے گا اور غلام اسی کے مال سے آزاد ہو جائے گا، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو غلام کو جتنا آزاد کیا گیا ہے اتنا آزاد ہو گا، اور باقی حصہ کی آزادی کے لیے اس سے کمائی نہیں کرائی جائے گی۔ اور ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کی رو سے یہ بات کہی ہے، اور یہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے۔ اور مالک بن انس، شافعی اور احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1348]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الشرکة 5 (2492)، 14 (2504)، والعتق 5 (2527)، صحیح مسلم/العتق 1 (1503)، سنن ابی داود/ العتق 4 (3934)، و5 (3937)، سنن ابن ماجہ/العتق 7 (2527)، (تحفة الأشراف: 12211)، و مسند احمد (2/426، 472) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2527)

   صحيح البخاريمن أعتق شقصا له في عبد أعتق كله إن كان له مال إلا يستسعي غر مشقوق عليه
   صحيح البخاريمن أعتق شقيصا من مملوكه عليه خلاصه في ماله فإن لم يكن له مال قوم المملوك قيمة عدل استسعي غير مشقوق عليه
   صحيح البخاريمن أعتق نصيبا أو شقيصا في مملوك فخلاصه عليه في ماله إن كان له مال وإلا قوم عليه استسعي به غير مشقوق عليه
   صحيح مسلمفي المملوك بين الرجلين فيعتق أحدهما
   صحيح مسلممن أعتق شقصا له في عبد خلاصه في ماله إن كان له مال لم يكن له مال استسعي العبد غير مشقوق عليه
   صحيح مسلممن أعتق شقيصا له في عبد خلاصه في ماله إن كان له مال لم يكن له مال استسعي العبد غير مشقوق عليه
   صحيح مسلمالمملوك بين الرجلين فيعتق أحدهما
   جامع الترمذيمن أعتق نصيبا أو قال شقصا في مملوك فخلاصه في ماله كان له مال فإن لم يكن له مال قوم قيمة عدل يستسعى في نصيب الذي لم يعتق غير مشقوق عليه
   سنن أبي داودمن أعتق شقيصا في مملوكه فعليه أن يعتقه كله إن كان له مال استسعي العبد غير مشقوق عليه
   سنن أبي داودمن أعتق شقصا له أو شقيصا له في مملوك خلاصه عليه في ماله إن كان له مال إن لم يكن له مال قوم العبد قيمة عدل ثم استسعي لصاحبه في قيمته غير مشقوق عليه
   سنن ابن ماجهمن أعتق نصيبا له في مملوك أو شقصا عليه خلاصه من ماله إن كان له مال إن لم يكن له مال استسعي العبد في قيمته غير مشقوق عليه