ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اگر وہ مالدار ہے تو اس پر اس کی مکمل خلاصی لازم ہو گی اور اگر وہ مالدار نہیں ہے تو غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی“ پھر اس قیمت میں دوسرے شریک کے حصہ کے بقدر اس سے اس طرح محنت کرائی جائے گی کہ وہ مشقت میں نہ پڑے (یہ علی کے الفاظ ہیں)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِتْق/حدیث: 3938]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2527
´ساجھے کا غلام ہو اور ساجھی دار اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایسے غلام کا حکم۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی کسی (مشترک) غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دے، تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس کے پاس مال ہو تو اپنے مال سے اس کو مکمل آزاد کرائے، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام سے باقی ماندہ قیمت کی ادائیگی کے لیے مزدوری کرائے، لیکن اس پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2527]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ایک غلام ایک سے زیادہ افرد کا مملوک ہوسکتا ہے مثلاً: ایک شخص کے پاس ایک غلام تھا وہ فوت ہوا تو اس کے دو بیٹے اس وارث ہوگئے یہ ونوں اس کی ملکیت میں برابر شریک ہیں۔ یا چند افراد نے رقم ملا کرخرید لیا تو یہ ان کی مشترکہ ملکیت ہو گا۔
(2) مشترکہ غلام کا ایک مالک اپنا حصہ آزاد کردے تو باقی حصہ خود بخود آزاد نہیں ہوگا۔
(3) اس صورت میں آزاد کرنے والے کو چاہیے کہ غلام کی جائز قیمت میں سے اس کے شریکو ں کا جو حصہ ہے انھیں ادا کرکے غلام کا باقی حصہ بھی خرید کر آزادکردے تاکہ غلام کی آزادی مکمل کی ہوجائے۔
(4) دوسری صورت یہ ہے کہ اس آدھے غلام کو موقع دیا جائے کہ وہ کما کراپنی آدھی قیمت اپنے مالک کو ادا کردے جس نے اپنے حصے کا غلام آزاد نہیں کیا۔
(5) اس غلام پر جلد آدائیگی کے لیے ناجائز سختی کرنا منع ہے بلکہ جس طرح مقروض کو مہلت دی جاتی ہے اسے بھی مناسب مہلت دی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2527
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3773
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا، تو اس کو آزاد اس کے مال سے کیا جائے گا اگر وہ مال دار ہے اگر اس کے پاس مال نہیں ہے، تو غلام سے محنت و مزدوری (کمائی) کرائی جائے گی لیکن اس کو مشقت میں نہیں ڈالا جائے گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3773]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) شِقْصٌ: حصہ، اس کو شقیص بھی کہتے ہیں۔ (2) اُسْتُسْعِي: اس سے محنت ومزدوری کروائی جائے گی، تاکہ دوسرے حصہ دار کے حصہ کی رقم اس کو ادا کر دی جائے۔ (3) غَيْرِ مَشْقُوقٌ عَلَيه: بغیر اس کے کہ اس کو مشقت اور کلفت میں ڈالا جائے، آسانی اور سہولت سے وہ کما کردےدے۔ فوائد ومسائل: اگر ایک غلام میں ایک سے زائد حصہ دار ہیں اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کر دیتا ہے تو باقی حصہ کے بارے میں کیا ہوگا، اس کے بارے میں مشہور اقوال تین ہیں۔ 1۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر مشترک غلام میں اپنا حصہ آزاد کرنے والا مال دار ہے تو اس کا حصہ آزاد ہو گیا۔ اور اس کے شریک کو اختیار ہے، چاہے تو اپنا حصہ آزاد کر دے، یا غلام سے محنت و مزدوری کروا کر اپنے حصہ کو منصفانہ قیمت وصول کر لے اور غلام مکاتب کے حکم میں ہو گا اور ان دونوں صورتوں میں ولاء (نسبت) حصہ داروں میں مشترک ہو گی، یا آزاد کرنے والے کو باقی حصہ کا ضامن ٹھہرایا جائے گا، اور اس سے عادلانہ قیمت وصول کر لی جائے گی۔ اور ولاء صرف آزاد کرنے والے کے لیے ہوگی۔ اگر آزاد کرنے والا مال دار نہیں ہے تو مذکورہ پانچ صورتوں پر عمل ہوگا۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کےنزدیک اگر آزاد کرنے والا مال دار ہے تو پورا غلام آزاد ہو جائے گا۔ اور وہ دوسرے حصہ دار کو عادلانہ قیمت ادا کرنے کا ذمہ دار ہو گا۔ اور اگر وہ غریب ہے تو رقم غلام سے محنت و مزدوری کروا کر ادا کرے گا۔ اور دونوں صورتوں میں ولاء کا حق دار وہی ہو گا۔ 2۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، کےنزدیک اگر اپنا حصہ آزاد کرنے والا مال دار ہے تو غلام پورا آزاد ہو جائے گا، اور وہ اپنے شریک کو اس کے حصہ کی منصفانہ قیمت دے گا۔ اور اگر غریب ہے تو غلام کا اتنا حصہ آزاد ہو گا۔ جتنا اس نے آزاد کیا ہے، باقی حصہ غلام ہے اور شریک اس سے اپنے حصہ کے بقدر خدمت اور کام لے سکے گا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بھی یہی ہے صرف اتنا فرق ہے کہ ان کے نزدیک مال دار ہونے کی صورت میں جب وہ اپنے حصہ دار کو رقم ادا کردے گا، تو اس کے بعد غلام مکمل آزاد ہوگا، محض ضمانت پر آزاد نہیں ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3773
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2492
2492. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص مشترکہ غلام کو اپنے حصے کے مطابق آزاد کردے تو وہی اپنے مال سے اسے پوری رہائی بھی دلائے۔ اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو انصاف سے اس غلام کی قیمت لگائی جائے پھر باقی حصے کے لیے اس غلام سے مزدوری کرائی جائے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2492]
حدیث حاشیہ: یعنی ایسی تکلیف نہ دیں جس کا وہ تحمل نہ کرسکے جب وہ باقی حصوں کی قیمت ادا کردے گا تو آزاد ہوجائے گا۔ ابن بطال ؒنے کہا شرکاءمیں تقسیم کرتے وقت ان کی قطع نزاع کے لیے قرعہ ڈالنا سنت ہے اور تمام فقہاءاس کے قائل ہیں۔ صرف کوفہ کے بعض فقہاءنے اس سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ قرعہ ازلام کی طرح ہے جس کی ممانعت قرآن میں وارد ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے بھی اس کو جائز رکھا ہے۔ دوسری صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سفر میں جاتے وقت اپنی بیویوں کے لیے قرعہ ڈالتے، جس کے نام نکلتا اس کو ساتھ لے جاتے۔ آج کل تو قرعہ اس قدر عام ہے کہ سفر حج کے لیے بھی حاجیوں کے نام قرعہ اندازی سے چھانٹے جاتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2492
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2492
2492. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص مشترکہ غلام کو اپنے حصے کے مطابق آزاد کردے تو وہی اپنے مال سے اسے پوری رہائی بھی دلائے۔ اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو انصاف سے اس غلام کی قیمت لگائی جائے پھر باقی حصے کے لیے اس غلام سے مزدوری کرائی جائے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2492]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کا مقصود غلام کی آزادی سے متعلق مسائل و احکام بیان کرنا نہیں بلکہ اس مقام پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی چیز دو یا زیادہ آدمیوں کے درمیان مشترک ہے اور ان میں سے کوئی اپنی کسی مجبوری کے پیش نظر الگ ہونا چاہتا ہے تو اس کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ عدل و انصاف کے مطابق اس چیز کی قیمت لگا کر اس کا حصہ الگ کر دیا جائے جیسا کہ ان احادیث میں مشترکہ غلام کی عدل و انصاف کے مطابق قیمت لگانے کی تلقین کی گئی ہے۔ (2) ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو ضروری ہے کہ وہ اپنے مال سے غلام کو پورا آزاد کرائے۔ اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو غلام خود اس بات کی کوشش کرے کہ وہ باقی حصہ ادا کرنے میں اس کا مددگار بنے، لیکن اس سلسلے میں غلام پر تشدد نہ کیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2492
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2504
2504. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کردیا تو وہ کُل کا کُل آزاد ہوجائے گا بشرط یہ کہ آزاد کرنے والے کے پاس اور مال ہو، بصورت دیگر غلام سے کہا جائے گا کہ تم محنت کرو لیکن اس سلسلے میں اسے مشقت میں نہ ڈالا جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2504]
حدیث حاشیہ: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غلام میں شراکت کر سکتی ہے کیونکہ اپنے حصے کے مطابق غلام آزاد کرنا صحت ملک پر مبنی ہے، اگر اس کا مالک نہ ہو تو آزاد نہیں کر سکتا۔ اپنے حصے کو آزاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اور بھی شرکاء ہوں گے۔ دیگر مسائل عتق آئندہ بیان ہوں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2504
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2527
2527. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے مشترک غلام کااپنا حصہ آزاد کردیا تو غلام کی آزادی اس کے مال سے ہوگی بشرط یہ کہ وہ صاحب حیثیت ہو، بصورت دیگر غلام کی قیمت تجویز کی جائے گی، پھر غلام کومشقت میں ڈالے بغیر اس سے مزدوری کرائی جائے (تاکہ شرکاء کو ان کاحصہ دیاجائے)۔“ حجاج بن حجاج، ابان اور موسیٰ بن خلف نے قتادہ سے روایت کرنے میں سعید کی متابعت کی ہے، نیز شعبہ نے اس حدیث کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2527]
حدیث حاشیہ: اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ غلام پر خواہ مخواہ جبر نہ کیا جائے۔ اگر اس سے محنت مزدوری نہ ہو سکے تو جتنا حصہ آزاد ہوا اتنا آزاد رہے گا، باقی حصے میں بدستور غلامی رہے گی۔ دراصل امام بخاری ؒ اس باب کی دو مختلف روایات میں تطبیق دینا چاہتے ہیں۔ متعارض روایات حسب ذیل ہیں: ٭ اگر آزاد کرنے والا مال دار نہیں ہے تو غلام جتنا آزاد ہوا اتنا ہی آزاد رہے گا۔ ٭ اگر آزاد کرنے والا صاحب حیثیت نہیں تو غلام سے مزدوری کرائی جائے لیکن اسے مشقت میں نہ ڈالا جائے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جب غلام محنت و مزدوری کے قابل نہ ہو اور آزاد کرنے والا بھی نادار ہو تو غلام کو جس قدر آزادی ملی ہے، اتنی ہی رہے گی اور جب آزاد کنندہ صاحب حیثیت نہ ہو اور غلام محنت و مزدوری کے قابل ہو تو اس سے مزدوری لے کر باقی شرکاء کو ان کے حصے کے مطابق قیمت ادا کی جائے گی۔ چونکہ غلامی کا تعلق ہماری عملی زندگی سے نہیں ہے، اس لیے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2527