حدیث حاشیہ: 1۔
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے بھائی حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نے میں صبح تک
(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) یعنی سورہ اخلاص پڑھتا رہا، اس پر کچھ زیادہ نہ پڑھا۔
جب صبح ہوئی تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔
اس کے بعدپوری حدیث بیان کی۔
(صحیح البخاري، فضائل قرآن، حدیث: 5013) اس حدیث میں سورہ اخلاص کو تہائی قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
اس کی مختلف توجیہات بیان کی جاتی ہیں۔
:
۔
ایک تہائی احکام ومسائل پر مشتمل ہے۔
اس میں حلال وحرام کا بیان ہے اور اس ایک تہائی میں جزاوسزا اور وعدہ وعید کا ذکر ہے۔
تیسری تہائی اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اسماء کے لیے ہے۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی صفات کا بیان ہے، اس لیے اسے تہائی قرآن کہا گیا ہے۔
۔
مضامین قرآن کے تین حصے ہیں:
ایک حصے میں توحید الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے افعال اور اس کی صفات کا بیان ہے۔
دوسرے حصے میں قصص وواقعات بیان ہوئے ہیں اورتیسرا حصہ احکام شریعت پر مشتمل ہے۔
چونکہ اس سورت میں توحید خالص اور اس کی صفات کا بیان ہے، اس لیے اسے تہائی قرآن کیا گیا ہے۔
۔
قرآن مجید میں بنیادی طور پر تین قسم کے عقائد بیان ہوئے ہیں، یعنی توحید، رسالت اورآخرت، اس سورت میں عقیدہ توحید کو بڑے جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے، اس لیے اسے قرآن کے ایک تہائی کےبرابر قراردیا گیا ہے۔
2۔
معتزلہ اور جہمیہ کا خیال ہے کہ کلام اللہ تعالیٰ تمام تر اللہ کی صفات پر مشتمل ہے لہذا کلام اللہ میں تفاضل اور برتری جائز نہیں۔
یہ عقیدہ جہالت کپر مبنی ہے کیونکہ کلام اللہ میں وہ خبر جو اس کی حمد وثنا پر مشتمل ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان ہے اس خبر سے کہیں بڑھ کر ہے جس میں ابلیس، فرعون، ابولہب اور ھامان وغیرہ کا ذکر ہے اگرچہ ان سب کو کلام اللہ ہی کہا جاتا ہے، تاہم ان میں سے ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) اور
(تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ) دونوں اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں، اس اعتبار سے دونوں برابر ہیں لیکن ان میں جس چیز کی خبر دی گی ہے اس اعتبار سے دونوں میں بہت فرق ہے۔
(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) ایک ایسا کلام ہے۔
جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق خبر دی ہے اور
(تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ) میں اپنی مخلوق میں سے ایک بدتر انسان کی خبر دی ہے۔
اس اعتبار سے ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔
(مجموع الفتاویٰ 57/17) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین نے کہا:
اےمحمد
(صلی اللہ علیہ وسلم) ! اپنے رب کا نسب بیان کریں تو اس وقت یہ سورت نازل ہوئی۔
(المستدرك للحاکم:
540/2) الغرض اس سورت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔
وہی اکیلا کائنات کا خالق ومالک ہے۔
پوری کائنات کا نظام اس اکیلے کے پاس ہے۔
وہی مارتا اور وہی زندہ کرتا ہے۔
وہی اکیلا قادر مطلق، مددگار حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔
وہی دعائیں سنتا اور مرادیں پوری کرتا ہے۔
اس سورت کو مسئلہ توحید میں جامع مانع قرار دیا گیا ہے۔
حدیث میں اس کی فضیلت اسی وجہ سے بیان ہوئی ہے۔