حدیث حاشیہ: 1۔
اس حدیث میں دو چیزوں کا اثبات ہے:
الف۔
اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں جیسا کہ اس حدیث میں صراحت ہے بلکہ سورہ اخلاص تو صفات باری تعالیٰ ہی پر مشتمل ہے۔
ب۔
اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت محبت کو ثابت کیا گیا ہے۔
اس صفت کو بلاتاویل مبنی برحقیقت تسلیم کرنا چاہیے۔
اسے نفس ثواب یا ارادہ ثواب پر محمول نہ کیا جائے کیونکہ صفات کے متعلق تاویل کا موقف ہمارے اسلاف کے موقف کے خلاف ہے۔
اس حدیث کے مطابق سورۃ الاخلاص خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات پر مشتمل ہے اگرچہ سارا قرآن ہی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے کیونکہ وہ اس کا کلام ہے اور کلام اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے لیکن اس سورت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں اوصاف الرحمٰن کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ مدینہ طیبہ کےچند یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:
آپ اپنے رب کی صفات بیان کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت تلاوت کی اور فرمایا:
”یہ میرے رب کی صفات ہیں۔
“ (الأسماء والصفات للبیھقي: 279) 2۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے نام ہیں اور اس کے نام کسی نہ کسی صفت پر مشتمل ہیں۔
اللہ تعالیٰ کاہر نام اس کی ذات پر دلالت کرتا ہے اور اس صفت کی بھی رہنمائی کرتا ہے جو اس نام کے ضمن میں ہے، نیز اگر نام متعدی ہے تواس کے اثرات کی بھی نشاندہی کرتا ہے، مثلاً:
الرحمٰن اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔
اس پر ایمان لانے اور اسے تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے:
۔
یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر دلالت کرتا ہے۔
۔
یہ پیارا نام اللہ تعالیٰ کی ایک پیاری صفت الرحمۃ پر مشتمل ہے۔
۔
اس صفت کا اثر مرتب ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اپنے بندے پر جب چاہے رحمت فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اعلیٰ درجے کی ہیں اور کمال ومدح پر مشتمل ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی صفت میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کامل واکمل ہے اسی طرح اس کی ہرصفت بھی کامل واکمل ہے۔
جوصفت کسی اعتبار سے نقص وعیب پر مشتمل ہو وہ اللہ تعالیٰ کے حق میں ممتنع ہے جیسے موت، جہالت اور عجزوغیرہ، اسی طرح صاحب اولاد ہونا، بیوی رکھنا یہ اوصاف نقائص وعیوب پر مشتمل ہیں۔
اس لیے اللہ تعالیٰ ایسے تمام عیوب سے پاک ومبراہے۔
سورہ اخلاص سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسموں پر مشتمل ہیں:
۔
صفات ثبوتیہ:
۔
اس سےمراد وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ثابت فرمائی ہیں، مثلاً:
صفت الحیاۃ، القدرۃ اورالعلم وغیرہ۔
انھیں صفات اکرام کہا جاتا ہے۔
۔
صفات سلبیہ:
۔
اس سے مراد وہ صفات ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے نفی کی ہے، مثلاً:
صاحب اولاد یا مولود ہونا۔
انھیں صفات ِجلال کہا جاتا ہے۔
یہ دونوں صفات کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”آپ کارب جو بڑی بزرگی اورعزت وشان والاہے، اس کا نام بھی بہت برکت والا ہے۔
“ (الرحمٰن 55/78) اللہ تعالیٰ کی تمام صفات حقیقی ہیں۔
ان کی کیفیت بیان کرنا جائز نہیں کیونکہ انسانی عقل کے لیے ان صفات کی کیفیت کا ادراک ممکن نہیں ہے، نیز اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مماثل ومشابہ نہیں ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اس کے مثل کوئی چیز نہیں۔
“ (الشوریٰ: 11) نیز اللہ تعالیٰ اس کمال کا مستحق ہے جو ہر کمال سے بڑھ کر ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ ہوں کیونکہ مخلوق تو ہر اعتبار سے ناقص ہے۔
الغرض سورہ اخلاص دونوں قسم کی صفات پر مشتمل ہے۔
اس میں صفات ثبوتیہ اور صفات سلبیہ دونوں موجود ہیں۔
3۔
کچھ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا ہے۔
یہ حدیث ان کے خلاف ایک زبردست حجت ہے۔
یہ حدیث اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ایسی آیات کی تلاوت مستحب ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات پر مشتمل ہیں جبکہ کچھ بدعتی حضرات کا خیال ہے کہ عام لوگوں کے سامنے ایسی آیات کی تلاوت مکروہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات پر مشتمل ہوں۔
اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس انداز کو پسند کرتا ہے اور اسے بھی پسند کرتا ہے جو یہ انداز اختیار کرتا ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 73/1)