الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1809
´حج بدل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پاس فتویٰ پوچھنے آئی تو فضل اسے دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا منہ اس عورت کی طرف سے دوسری طرف پھیرنے لگے ۱؎، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر (عائد کردہ) فریضہ حج نے میرے والد کو اس حالت میں پایا ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں، اونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، اور یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1809]
1809. اردو حاشیہ:
➊ جہاں کہیں کوئی خلاف شریعت عم ل(منکر) نظر آئے تو مسلمان کو چاہیے کہ بالفعل اس کو روکنے کی کوشش کرے جیسے رسول اللہﷺ نے حضرت فضل کا چہرہ پھیر کر انہیں غلط نظر سے منع فرمایا۔
➋ جب کوئی شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوکہ شفا یابی بظاہر مشکل معلوم ہو تو اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص حج بدل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر شفایابی کی امید ہوتو انتظار کیا جائے۔
➌ جب کوئی شخص از خود کسی کی طرف سے نائب بن جائے تو اس پر تکمیل حج لازم ہے۔
➍ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت بوقت ضرورت غیر محرم مردوں کےساتھں بات چیت کر سکتی ہے۔
➎ یہ حدیث «غض بصر» نگاہ نیچی رکھنے کے وجوب اور اجنبی عورت کی طرف دیکھنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔
➏ عورت اپنے باپ کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہے۔بشرطیکہ پہلے وہ اپناحج کر چکی ہو۔
➐ ایک سواری پر دو آدمی بھی سوار ہو سکتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1809
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3307
´میت کی طرف سے نذر پوری کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا اور کہا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے ذمہ ایک نذر تھی جسے وہ پوری نہ کر سکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کی جانب سے پوری کر دو۔“ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3307]
فوائد ومسائل:
میت کی طرف سے اس کی اولاد یا اقارب نذر پوری کردیں تو درست ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3307
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3310
´مرنے والے کے باقی روزے اس کا ولی پورا کرے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ میری والدہ کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے کیا میں اس کی جانب سے رکھ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اگر تمہاری والدہ کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا قرض تو اور بھی زیادہ ادا کئے جانے کا مستحق ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3310]
فوائد ومسائل:
مسائل سمجھانے کےلئے مثالوں سے مدد لینے سے بات خوب واضح ہوجاتی ہے۔
حتیٰ کہ سادہ ذہن آدمی بھی مقصود سمجھ جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3310
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 584
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی تو فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، فضل رضی اللہ عنہ کا منہ دوسری جانب پھیرتے تھے۔ پس اس عورت نے کہا، اے اللہ کے رسول! بیشک حج، اللہ کا فرض ہے اس کے بندوں پر۔ میرا باپ بڑی عمر والا بوڑھا ہے۔ وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں! اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔“ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 584]
584 لغوی تشریح:
«رَدِيف» ایک سواری پر دو بیٹھنے والوں سے پیچھے والے کو «رديف» کہتے ہیں۔
«خَثْعَمَ» ”خا“ پر زبر ”ثا“ ساکن اور ”عین“ پر زبر ہے۔ یمن کے مشہور قبیلے کا نام ہے۔ اسے منصرف اور غیر منصرف دونوں طرح پڑھنا ہے۔
«الشِّقٌ» یعنی جانب۔ آپ نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ اس لیے پھیر دیا کہ کہیں شیطان انہیں فتنے میں مبتلا نہ کر دے۔
«حَجَّةِ الْوَدَاعِ» یہ وہ حج ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہجری میں کیا اور اس کے تین ماہ بعد آپ وفات پاگئے۔ الوداع کے ”واو“ پر زبر ہے۔ اور یہ «وَدَّعَ» «توديعا» کا مصدر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”واو“ کے نیچے کسرہ ہے۔ یوں یہ «وَادَعَ» «موادعة» کا مصدر ہے۔ آخری حج کا نام حجتہ الوداع اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ نے اس سال لوگوں کو یا حرم کعبہ کو رخصت اور الوداع کیا۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ زندہ آدمی اگر معذور ہو اور اس کی صحت کی امید نہ ہو تو اس کی جانب سے حج بدل جائز ہے۔
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس پر حج فرض ہو مگر وہ کسی مستقل بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے حج کرنے کی طاقت نہ پاتا ہو تو اس کی طرف سے حج بدل جائز ہے۔ لیکن عارضی بیماری (جس کے دور ہو جانے کا امکان ہو) میں نیابت درست نہیں۔ یہ شرط فرض حج کے لیے ہے، نفلی حج کے لیے اس میں شرط نیابت جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ اور حج بدل کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس کا قریبی ہی نائب بنے۔
وضاحت:
حضرت فضل بن عباس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام ام فضل لبابۃ الکبریٰ بنت الحارث الھلالیۃ تھا۔ نہایت حسین و جمیل تھے۔ معرکہ حنین میں آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے میں شریک تھے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے یہی تھے۔ جہاد کے لیے شام تشریف لے گئے، کہا جاتا ہے ہے کہ طاعون عمواس کے سال اردن کے قریب 18 ہجری میں انتقال ہوا۔ بعض نے کہا ہے کہ یرموک کے دن شہید ہوئے اور بعض نے کہا کہ دمشق میں وفات پائی جبکہ ان کے جسم پر نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چادر تھی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 584
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 585
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ قبیلہ جھینہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا، بیشک میری ماں نے حج کرنے کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہیں کر سکی، اور فوت ہو گئی ہے کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہاں! اس کی طرف سے حج کر، اگر تیری ماں کے ذمہ ادھار ہوتا تو کیا تم وہ قرض نہ اتارتی؟ اللہ کا حق پورا کرو کیونکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا حق پورا کیا جائے۔ “ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 585]
585 لغوی تشریح:
«جُهَيْنَة» ”جیم“ پر پیش اور ”ہا“ پر زبر ہے۔ (تصغیر کے ساتھ) ایک مشہور قبیلے کا نام ہے۔ اکثر کا خیال ہے کہ یہ قحطان کی اولاد میں حمیر کی ایک شاخ ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس کا تعلق معد بن عدنان سے ہے۔
«حُجَّ» ی امر مخاطب کا صیغہ واحد مونث ہے۔ اور یہ دلیل ہے کہ میت کی طرف سے حج بدل جائز ہے۔
«دَيْن» ”دال“ پر زبر ہے، یعنی قرض۔ اسے آپ نے مثال کے انداز میں اس لیے بیان فرمایا کہ اس کی اہمیت اجاگر ہو جائے اور دل میں اچھی طرح بیٹھ جائے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 585
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1183
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نذر کے متعلق پوچھا جو ان کی والدہ پر تھی اور وہ اسے پوری کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تو اس کی طرف سے پوری کر دے۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1183»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب من مات وعليه نذر، حديث:6698، ومسلم، النذر، باب لأمر بقضاء النذر، حديث:1638.»
تشریح:
1. بعض روایات میں ہے کہ یہ غلام آزاد کرنے کی نذر تھی۔
اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔
2.بہرحال اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حقوق واجبہ کو پورا کرنا میت کے وارثوں کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے میت کی طرف سے اسے پورا کرنے کی وصیت ضروری نہیں‘ ورثاء کو ازخود ہی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔
3. ورثاء میں اولاد بالخصوص اسے پورا کرنے کی زیادہ ذمہ دار ہے۔
وضاحت:
«حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ» قبیلۂخزرج کے سردار تھے۔
تمام غزوات میں انصار کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔
سخی سردار تھے۔
عربی لکھنا جانتے تھے۔
تیراکی اور تیر اندازی کے ماہر تھے‘ اسی لیے انھیں کامل
(ہر فن مولا) کہا جاتا تھا۔
کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والے تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کیے بغیر مدینہ سے نکل گئے تھے۔
انھیں جنات نے دمشق کے علاقہ حوران میں ۱۴ ‘ ۱۵ یا ۱۶ ہجری میں قتل کر دیا تھا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1183
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2634
´حج نہ کرنے والے میت کی طرف سے حج بدل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے سنان بن سلمہ جہنی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں کہ میری ماں مر گئی ہے اور اس نے حج نہیں کیا ہے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں تو اسے کافی ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اگر اس کی ماں پر قرض ہوتا اور وہ اس کی جانب سے ادا کرتی تو کیا یہ اس کی طرف سے کافی نہ ہو جاتا؟ لہٰذا اسے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنا چاہیئے۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2634]
اردو حاشہ:
قرض کی مثال مسئلہ سمجھانے کے لیے ذکر فرمائی نہ یہ کہ حج کو قرض پر قیاس فرمایا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2634
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2635
´حج نہ کرنے والے میت کی طرف سے حج بدل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والد کے بارے میں جو مر گئے تھے اور حج نہیں کیا تھا پوچھا: آپ نے فرمایا: ”تم اپنے والد کی طرف سے حج کر لو۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2635]
اردو حاشہ:
اگر میت پر حج فرض ہو چکا ہو اور وہ نہ کر سکے تو پھر اس کی طرف سے حج کیا جائے گا، ورنہ اگر اس پر حج فرض ہی نہیں تھا تو اس کی طرف سے حج کرنے کی ضرورت نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2635
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2636
´زندہ شخص جو سواری پر ٹھہر نہیں سکتا اس کی طرف سے حج کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے مزدلفہ (یعنی دسویں ذی الحجہ) کی صبح کی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! حج کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو فریضہ عائد کیا ہے اس نے میرے والد کو اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہیں، سواری پر ٹک نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (کر لو)۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2636]
اردو حاشہ:
(1) مزدلفہ کی صبح، یعنی جس صبح حاجی مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہوتے ہیں۔ گویا 10 ذی الحجہ۔ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔
(2) ”سواری پر نہیں بیٹھ سکتے۔“ معلوم ہوا کہ وجوب حج کے لیے جسمانی قوت شرط نہیں بلکہ مالی استطاعت (یعنی آنے جانے اور کھانے پینے کا خرچ) کافی ہے ورنہ آپ فرما دیتے کہ تیرے باپ پر حج واجب ہی نہیں۔ مالی استطاعت ہونے کی صورت میں خود حج کرے۔ اگر جسمانی قوت نہ ہو تو کسی سے کروائے۔
(3) ”فرمایا: ہاں۔“ یعنی اگلے سال یا اس سے بعد کیونکہ یہ حج تو وہ اپنی طرف سے کر رہی تھی بلکہ کر چکی تھی کیونکہ یہ وقوف عرفہ سے بعد کی بات ہے اور وقوف عرفہ ہی حاصل حج ہے۔
(4) جمہور اہل علم کے نزدیک حج بدل (جو کسی کی طرف سے کیا جائے) صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنا حج پہلے کر چکا ہو۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں آپ نے صراحتاً ایک شخص کو اپنا حج کرنے سے پہلے شبرمہ نامی شخص کی طرف سے حج کرنے سے روک دیا تھا۔
(5) مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کی طرف سے حج بدل کر سکتے ہیں اگرچہ مرد، عورت کے احکام میں کچھ فرق ہے مگر وہ فرق احرام وغیرہ میں ہے۔ افعال حج ایک جیسے ہی ہیں۔
(6) عورت کی آواز پردہ نہیں ہے۔ تعلیم و تعلم، استفادہ وافتا اور اس قسم کی دیگر ضروریات کے مواقع پر اجنبی عورت کی آواز سننے میں کوئی حرج نہیں لیکن عورت کو چاہیے اجنبی سے بات کرتے وقت اس طرح نرم لہجہ اختیار نہ کرے جس سے فتنے کا اندیشہ ہو۔
(7) والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا چاہیے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اگر ان کی وفات کے بعد ان پر کوئی حج یا قرض وغیرہ کا فریضہ ہو جسے وہ کسی عذر کی بنا پر ادا نہ کر سکے ہوں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کی طرف سے وہ فریضہ انجام دیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2636
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2641
´حج کی ادائیگی کو قرض کی ادائیگی سے تشبیہ دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے باپ کو (فریضہ) حج نے اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اپنی سواری پر ٹک نہیں سکتے، اگر میں انہیں سواری پر بٹھا کر باندھ دوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں مر نہ جائیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا تو اسے ادا کرتے، تو وہ کافی ہو جاتا“؟ اس نے کہا: ہاں (کافی ہو جاتا) آپ نے ف [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2641]
اردو حاشہ:
مذکورہ روایت میں ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا جبکہ اس سے قبل حدیث نمبر: 2638، 2636 اور اس کے بعد حدیث: 2662، 2643 وغیرہ میں مذکورہ ہے کہ سوال کرنے والی عورت تھی، تاہم راجح اور درست بات یہ ہے کہ سوال کرنے والی عورت ہی تھی اور [الرجل] ”مرد“ کے الفاظ شاذ یا منکر ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن النسائي للألباني، حدیث: 2639)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2641
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2642
´مرد کی طرف سے عورت کے حج کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھے، تو قبیلہ خثعم کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے آئی، تو فضل اسے دیکھنے لگے، اور وہ فضل کو دیکھنے لگی، اور آپ فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، تو اس عورت نے پوچھا: اللہ کے رسول! اپنے بندوں پر اللہ کے عائد کردہ فریضہ حج نے میرے باپ کو اس حال میں پایا: انتہائی بوڑھے ہو چکے ہیں، سواری پر ٹک نہیں [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2642]
اردو حاشہ:
(1) معلوم ہوا اگر جانور طاقتور ہو تو ایک سے زیادہ آدمی اس پر سوار ہو سکتے ہیں لیکن کمزور جانور پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنا ظلم ہے۔
(2) نبی اکرمﷺ کی تواضع اور شفقت اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کی فضیلت ومنقبت معلوم ہوئی۔
(3) اجنبی عورت کی طرف دیکھنا منع ہے۔
(4) ہر مسلمان پر بالعموم اور عالم وامام پر بالخصوص لازم ہے کہ وہ برائی دیکھ کر ہر ممکن اسے ختم کرنے کی کوشس کرے۔ مزید دیکھیے، روایت: 2636۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2642
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3692
´عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث میں سفیان پر رواۃ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نذر سے متعلق جو ان کی ماں کے ذمہ تھی مسئلہ پوچھا اور اسے پوری کرنے سے پہلے وہ انتقال کر گئیں تھیں، تو آپ نے ان سے فرمایا: ”اسے ان کی طرف سے تم پوری کر دو۔“ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3692]
اردو حاشہ:
حضرت سعد رضی اللہ عنہ انصار کے مشہور قبیلے بنوخزرج کے سردار تھے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3692
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3848
´آدمی مر جائے اور اس کے ذمہ کوئی نذر باقی ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو چکا تھا تو آپ نے فرمایا: ”ان کی طرف سے تم اسے پوری کرو۔“ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3848]
اردو حاشہ:
کسی راویت میں صراحت نہیں کہ وہ نذر کیا تھی؟ بعض حضرات نے ایک روایت سے استنباط کیا ہے کہ وہ نذر غلام آزاد کرنے کی تھی مگر اس روایت میں بھی صراحت نہیں کہ نذر آزاد کرنے کی تھی۔ اس میں صرف غلام آزاد کرنے کا ذکر ہے۔ ممکن ہے وہ غلام نذر کے کفارے میں آزاد کیا گیا ہو‘ نہ کہ بطور نذر۔ بعض نے روزے کہا ہے۔ واللہ أعلم۔ بہر صورت اگر میت نذر پوری کرنے کی وصیت کرجائے تو نذر پوری کرنا ورثاء پر فرض ہوگا ورنہ مستحب۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3848
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3850
´آدمی مر جائے اور اس کے ذمہ کوئی نذر باقی ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میری ماں مر گئیں، ان کے ذمے ایک نذر تھی جو انہوں نے پوری نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے ان کی جانب سے تم پوری کر دو۔“ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3850]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر:3680‘3694۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3850
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5393
´تشبیہ اور مثال کے ذریعہ فیصلہ کرنا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ولید بن مسلم کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ سے مسئلہ پوچھنے آئی، فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے وہ ان کی طرف دیکھنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا رخ دوسری طرف موڑ دیتے، وہ بولی: اللہ کے رسول! اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ فریضہ حج میرے و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5393]
اردو حاشہ:
”ہاں“ یعنی اگلے سال اس کی طرف سے حج کر لینا کیونکہ فی الوقت تو وہ اپنا حج کر رہی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5393
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5394
´تشبیہ اور مثال کے ذریعہ فیصلہ کرنا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ولید بن مسلم کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا جبکہ وہ کافی بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اگر میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”ہاں“، فضل اس کی طرف مڑ مڑ کر دی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5394]
اردو حاشہ:
(1) معلوم ہوا کہ بدنی استطاعت نہ ہو لیکن مالی لحاظ سے حج فرض ہوتا ہو تو اپنی جگہ کسی دوسرے کو حج کروائے جو اس کی طرف سے حج کرے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم اور امام و حاکم کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ منکر اور غیر شرعی کام کو روکے۔ ممکن ہو تو ہاتھ سے روکے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت نے حضرت فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5394
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2132
´جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ نذر ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کے ذمہ ایک نذر تھی وہ مر گئیں، اور اس کو ادا نہ کر سکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کی جانب سے اسے پوری کر دو۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2132]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نذر پوری کرنا واجب ہے۔
(2)
اگر کوئی فوت ہو جائے اور نذر پوری نہ کی ہو تو مالی نذر اس کے مال سے پوری کر لی جائے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے پھر ترکہ تقسیم کیا جائے۔
(3)
بدنی نذر اس کے قریبی وارث کو پوری کرنی چاہیے۔
(4)
اولاد کا حق زیادہ ہے کہ وہ والدین کی نذر پوری کریں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2132
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2904
´میت کی طرف سے حج کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: کیا میں اپنے والد کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اپنے والد کی طرف سے حج کرو، اگر تم ان کی نیکی نہ بڑھا سکے تو ان کی برائی میں اضافہ مت کرو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2904]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مزکورہ روایت کو بھی ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے۔
اور دلائل کی رو سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے لہٰذا والدین کی طرف سے حج وعمرہ کرنا درست ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا صحیح عقیدے پر فوت ہوچکے ہوں۔
(2)
والدین کے بہت احسانات ہوتے ہیں اس لیے ایسے اعمال کرنے چاہییں کہ انھیں فائدہ پہنچے یا کم ازکم ایسے اعمال سے ضرور اجتناب کیا جائے جو ان کے ساتھ برائی شمار ہوں۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ دوسرے کے ماں باپ کو گالی دیکر اپنے ماں باپ کے لیے گالی کا سبب بننے والا ایسے ہی ہے گویا اس نے خود اپنے ماں باپ کو گالی دی۔ (صحيح البخاري، الادب، لا يسب الرجل والديه، حديث: 5973)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2904
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:517
517- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: خثعم قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کے دن صبح سوال کیا اس وقت سیدنا فضل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، اس خاتون نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو حج فرض قرار دیا ہے، وہ میرے والد پر بھی لازم ہوگیا ہے، لیکن وہ عمر رسیدہ شخص ہیں، وہ سواری پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے؟ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”جی ہاں۔“ سفیان کہتے ہیں: عمرو بن دینار نے یہ روایت پہلے زہری کے حوالے سے سلیم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:517]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے حج پر خود نہ جا سکے تو اس کی طرف سے حج بدل کرنا درست ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ حج بدل کرنے والے نے پہلے اپناحج کیا ہوا ہو۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 517
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:532
532- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے نذر کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا: جو ان کی والدہ کے ذمہ لازم تھی، اور ان کی والدہ کا اس نذر کو پورا کرنے سے پہلے انتقال ہوگیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرمایا: ”تم ان کی طرف سے اسے ادا کردو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:532]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نذر کو پورا کرنا فرض ہے، خواہ انسان فوت ہو جائے، اگر اس نے نذر مانی ہو تو اس کے ورثاء اس کی وصیت پوری کر یں گے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 532
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1855
1855. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت فضل بن عباس ؓ نبی ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی۔ حضرت فضل ؓ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی تو نبی ﷺ نے حضرت فضل ؓ کا چہرہ دوسری طرف پھیردیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اللہ کی طرف سے فریضہ حج نے میرے باپ کوبایں حالت پایا۔ کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور سواری پر نہیں ٹھہرسکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟آپ نے فرمایا: ”ہاں“ اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1855]
حدیث حاشیہ:
اس عورت کا نام معلوم نہیں ہوا اس حدیث سے یہ نکلا کہ زندہ آدمی کی طرف سے بھی اگر وہ معذور ہو جائے دوسرا آدمی حج کرسکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ایسا حج بدل مرد کی طرف سے عورت بھی کرسکتی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنَ الْفَوَائِدِ جَوَازُ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ وَاسْتدلَّ الْكُوفِيُّونَ بِعُمُومِهِ على جَوَاز صِحَة حج مَنْ لَمْ يَحُجَّ نِيَابَةً عَنْ غَيْرِهِ وَخَالَفَهُمُ الْجُمْهُورُ فَخَصُّوهُ بِمَنْ حَجَّ عَنْ نَفْسِهِ وَاسْتَدَلُّوا بِمَا فِي السّنَن وصحيح بن خُزَيْمَة وَغَيره من حَدِيث بن عَبَّاسٍ أَيْضًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يُلَبِّي عَنْ شُبْرُمَةَ فَقَالَ أَحَجَجْتَ عَنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَا قَالَ هَذِهِ عَنْ نَفْسِكَ ثُمَّ احْجُجْ عَنْ شُبْرُمَةَ الخ۔
(فتح الباري)
یعنی اس حدیث کے فوائد میں سے ہے کہ غیر کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور کوفیوں نے اس کے عموم سے دلیل لی ہے کہ نیابت میں اس کا حج بھی درست ہے جس نے پہلے اپنا حج نہ کیا ہو اورجمہور نے ان کے خلاف کہا ہے انہوں نے اس کے لیے اسی کو خاص کیا ہے جو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہو اور انہوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جسے اصحاب سنن اور ابن خزیمہ وغیرہم نے حدیث ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار رہا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا شبرمہ کون ہے اس نے اس کو بتلایا، پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تو پہلے اپنا ذاتی حج کر چکا ہے، اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا پہلے اپنا حج کر پھر شبرمہ کا حج کرنا۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل جس سے کرایا جائے ضروری ہے کہ وہ شخص پہلے اپنا حج کرچکا ہو حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وَفِيهِ أَنَّ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ حَجٌّ وَجَبَ عَلَى وَلِيِّهِ أَنْ يُجَهِّزَ مَنْ يَحُجُّ عَنْهُ مِنْ رَأْسِ مَالِهِ كَمَا أَنَّ عَلَيْهِ قَضَاءَ دُيُونِهِ فَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ دَيْنَ الْآدَمِيِّ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ فَكَذَلِكَ مَا شُبِّهَ بِهِ فِي الْقَضَاءِ وَيَلْتَحِقُ بِالْحَجِّ كُلُّ حَقٍّ ثَبَتَ فِي ذِمَّتِهِ مِنْ كَفَّارَةٍ أَوْ نَذْرٍ أَوْ زَكَاةٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ الخ (فتح الباري)
یعنی اس میں یہ بھی ہے کہ جو شخص وفات پائے اور اس پر حج واجب ہو تو وارثوں کا فرض ہے کہ اس کے اصل مال سے کسی دوسرے کو حج بدل کے لیے تیار کرکے بھیجیں۔
یہ ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ اس کے قرض کی ادائیگی ضروری ہے اور کفارہ اور نذر اور زکوۃ وغیرہ کی جواس کے ذمہ واجب ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1855
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2761
2761. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: میری والدہ فوت ہوگئی ہیں اور ان کے ذمہ ایک منت تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کی طرف سے نذر پوری کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2761]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان کو ماں کی نذر پورا کرنے کا حکم فرمایا‘ معلوم ہوا کہ ماں باپ کے اس قسم کے فرائض کی ادائیگی اولاد پر لازم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2761
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4399
4399. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا جبکہ حضرت فضل بن عباس ؓ سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس عورت نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی طرف سے عائد شدہ فریضہ حج میرے باپ پر اس وقت فرض ہوا ہے جب وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ وہ سواری پر بھی ٹھیک طرح نہیں بیٹھ سکتے، میں ان کی طرف سے حج کروں تو کیا ان کا حج ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4399]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بدل حج کر نا ثابت ہوا مگر یہ حج کرنا اسی کے لیے جائز ہے جو پہلے اپنا حج ادا کر چکا ہو۔
جیسا کہ حدیث شبرمہ میں وضاحت موجود ہے۔
روایت میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے یہی باب سے مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4399
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6959
6959. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت سعد بن عبادہ انصاری ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے متعلق سوال کیا جو ان کی والدہ کے ذمے تھی اور انکی وفات نذر پورا کرنے سے پہلے ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کی طرف سے نذر پوری کر دو۔“ بعض لوگ کہتے ہیں: جب اونٹوں کی مقدار بیس ہو جائے تو ان میں چار بکریاں دینا ضروری ہیں۔ اگر سال پورا ہونے سے پہلے کسی کو اونٹ ہبہ کر دے یا اسے فروخت کر دے، یہ حیلہ زکاۃ سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اختیار کرے تو اس پر کوئی چیز واجب نہ ہوگی۔ اسی طرح اگر وہ ان کو تلف کر دے، اور خود فوت ہو جائے تو اس کے مال میں کوئی چیز واجب نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6959]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ جب مر جانے سے سنت ساقط نہ ہوئی اور ولی کو اس کے ادا کرنے کا حکم دیا گیا تو زکوٰۃ بطریق اولیٰ مرنے سے یا حیلہ کرنے سے ساقط نہ ہوگی اور یہی بات درست ہے۔
حنفیہ کا کہنا یہ ہے کہ صاحب زکوٰۃ کے مرنے سے وارثوں پر لازم نہیں کہ اس کے ذمہ جو زکوٰۃ واجب تھی وہ اس کے کل میں سے ادا کریں۔
حنفیہ کا یہ مسئلہ صریح حضرت سعد کی حدیث کے خلاف ہے کیوں کہ حضرت سعد کی ماں مرگئی تھیں مگر جو ان کے ذمہ نذر رہ گئی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس کے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔
یہی حکم زکوٰۃ میں بھی ہونا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6959
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1513
1513. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت فضل بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل اس کی طرف دیکھنےلگے۔ تب نبی ﷺ نے فضل کا منہ دوسری طرف پھیردیا، چنانچہ اس عورت نے دریافت کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے مگر وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ”ہاں!“ یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1513]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ نیابتا دو سرے کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔
مگر وہ شخص دوسرے کی طرف سے حج کرسکتاہے جو اپنا فرض حج ادا کرچکا ہوا۔
اور حنفیہ کے نزدیک مطلقاً درست ہے اور ان کے مذہب کو وہ حدیث رد کرتی ہے جس کو ابن خزیمہ اور اصحاب سنن نے ابن عباس ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکار تے ہوئے سنا، فرمایا کہ تو اپنی طرف سے حج کرچکا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا تو پہلے اپنی طرف حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرلو۔
اسی طرح کسی شخص کے مرجانے کے بعد بھی اس کی طرف حج درست ہے۔
بشرطیکہ وہ وصیت کر گیا ہو۔
اور بعضوں نے ماں باپ کی طرف سے بلا وصیت بھی حج درست رکھا ہے۔
(وحیدی)
حج کی ایک قسم حج بدل بھی ہے۔
جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتا کیا جاتا ہے۔
اس کی نیت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کے لئے آیا ہے اس کا نام لینا چاہئے۔
مثلاً ایک شخص زید کی طرف سے حج کے لئے گیا تو وہ یوں پکارے لَبَّیكَ عَن زَیدٍ نِیَابَة کسی معذور زندے کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔
اسی طرح کسی مرے ہوئے کی طرف سے بھی حج بدل کرایا جاسکتا ہے۔
ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا تھا کہ ميرا باپ بہت ہی بوڑھا ہوگیا ہے۔
وہ سواری پر بھی چلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
آپ اجازت دیں تو میں ان کی طرف سے حج اداکرلوں۔
آپ نے فرمایا۔
ہاں کرلو (ابن ماجہ)
مگر اس کے لئے یہ ضر وری ہے کہ جس شخص سے حج بدل کرایا جائے وہ پہلے خود اپنا حج ادا کرچکا ہو۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ:
لَبَّيْكَ، عَنْ شُبْرُمَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«مَنْ شُبْرُمَةُ» قَالَ:
قَرِيبٌ لِي، قَالَ:
«هَلْ حَجَجْتَ قَطُّ؟» قَالَ:
لَا، قَالَ:
«فَاجْعَلْ هَذِهِ عَنْ نَفْسِكَ، ثُمَّ احْجُجْ عَنْ شُبْرُمَةَ» رواہ ابن ماجة یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو سنا وہ لبیک پکارتے وقت کسی شخص شبرمہ نامی کی طرف سے لبیک پکاررہا ہے ہے۔
آپ نے دریافت کیا کہ بھئی یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ شبرمہ میرا ایک قریبی ہے۔
آپ نے پوچھا تو نے کبھی اپنا حج ادا کیا ہے۔
اس نے کہا نہیں۔
آپ نے فرمایا، اپنے نفس کی طرف سے حج ادا کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل وہی شخص کرسکتا ہے جوپہلے اپنا حج کرچکا ہو۔
بہت سے ائمہ اور امام شافعی ؒ وامام احمد ؒ کا یہی مذہب ہے۔
لمعات میں ملاعلی قاری مرحوم لکھتے ہیں:
الأمر یدل بظاهر علی أن النیابة إنما یجوز بعد أداء فرض الحج وإلیه ذهب جماعة من الأئمة والشافعي وأحمد۔
یعنی امر نبوی بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے نیابت اسی کے لئے جائز ہے جو اپنا فرض ادا کرچکا ہو۔
علامہ شوکانی ؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب نیل الاوطار میں یہ باب منعقد کیا ہے۔
باب من حج عن غیرہ ولم یکن حج عن نفسه۔
یعنی جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا وہ غیر کا حج بدل کرسکتا ہے یا نہیں۔
اس پر آپ حدیث بالا شبرمہ والی لائے ہیں۔
اور اس پر فیصلہ دیا ہے:
و لیس في هذا الباب أصح منه۔
یعنی حدیث شبرمہ سے زیادہ اس باب میں اور کوئی صحیح حدیث اور وارد نہیں ہوئی ہے۔
پھر فرماتے ہیں:
وظاهر الحدیث أنه لا یجوز لمن یحج عن نفسه أن یحج عن غیرہ وسواء کان مستطیعا أوغیر مستطیع لأن النبي صلی اللہ علیه وسلم لم یستفصل هذا للرجل الذي سمعه یلبي عن شبرمة وهو ینزل منزلة العموم والیٰ ذلك ذهب الشافعي والناصر۔
(جزء رابع نیل الأوطارص173 ؤ)
یعنی اس حدیث ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی طرف سے پہلے حج نہ کیا ہو وہ حج بدل کسی دوسرے کی طرف سے نہیں کرسکتا۔
خواہ وہ اپنا حج کرنے کی طاقت رکھنے والا ہو یا طاقت نہ رکھنے والا ہو۔
اس لئے کہ نبی ﷺ نے جس شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکارتے ہوئے سنا تھا اس سے آپ نے یہ تفصیل دریافت نہیں کی۔
پس یہ بمنزلہ عموم ہے اور امام شافعی ؒ وناصر ؒ کا یہی مذہب ہے۔
پس حج بدل کرنے اور کرانے والوں کو سوچ سمجھ لینا چاہئے۔
امر ضروری یہی ہے کہ حج بدل کے لئے ایسے آدمی کو تلاش کیا جائے جو اپنا حج ادا کرچکا ہوتا کہ بلاشک وشبہ ادائیگی فریضہ حج ہوسکے۔
اگرکسی بغیرحج کئے ہوئے کو بھیج دیا تو حدیث بالا کے خلاف ہو گا۔
نیز حج کی قبولیت اور ادائیگی میں پورا پورا تردد بھی باقی رہے گا۔
عقل مند ایسا کام کیوں کرے جس میں کافی روپیہ خرچ ہو اور قبولیت میں تردد وشک وشبہ ہاتھ آئے چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1513
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6228
6228. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت فضل بن عباس ؓ کو قربانی کے دن اپنے پیچھے سواری کی پشت پر بٹھایا۔ حضرت فضل ؓ بہت خوبصورت نوجوان تھے۔ نبی ﷺ لوگوں کو مسائل کا جواب دینے کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے کہ اس دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبرو عورت بھی رسول اللہ ﷺ سے کوئی مسئلہ پوچھنے آئی تو فضل بن عباس ؓ نے اسے دیکھنا شروع کر دیا کیونکہ اس کا حسن و جمال انہیں بہت پسند آرہا تھا نبی ﷺ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فضل بن عباس ؓ اسے دیکھ رہے تھے۔ آپ نے پیچھے کی طرف سے ہاتھ لے جا کر فضل ؓ کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ اسے دیکھنے سے دوسری طرف کر دیا۔ اس عورت نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ حج نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے جبکہ وہ سواری پر سیدھا نہیں بیٹھ سکتا، کیا اگر میں اس کی طرف سے حج کر لوں تو اس کی طرف سے یہ فریضہ ادا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6228]
حدیث حاشیہ:
حدیث کی باب سے مطابقت یہ ہے کہ آپ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو غیر عورت کی طرف دیکھنے سے منع فرمایا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6228
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1513
1513. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت فضل بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل اس کی طرف دیکھنےلگے۔ تب نبی ﷺ نے فضل کا منہ دوسری طرف پھیردیا، چنانچہ اس عورت نے دریافت کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے مگر وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ”ہاں!“ یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1513]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے وجوب حج اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ قبیلۂ خثعم کی عورت نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فریضۂ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، رسول اللہ ﷺ اس پر خاموش رہے، گویا اسے فرضیت حج بیان کرنے پر رسول اللہ ﷺ کی تائید حاصل ہے۔
فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اسے ادا کرنے میں نیابت طلب کی گئی ہے، نیز عذر کے وقت بھی یہ حکم ہے کہ حج ساقط نہیں ہوگا بلکہ معذور کو چاہیے کہ وہ اپنا نائب مقرر کرکے حج بدل کرائے۔
(2)
فضیلت حج کے لیے کئی ایک احادیث مروی ہیں:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔
“(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1773)
حج مبرور وہ ہوتا ہے جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔
حضرت ابو ہریره ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جس نے حج کیا اور اس میں اپنی بیوی کے پاس نہ گیا اور نہ ہی اس نے کوئی فسق وفجور کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوکر اس دن کی طرح واپس ہوگا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
“(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1521)
(3)
واضح رہے کہ حج نو ہجری کے آخر میں فرض ہواتھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آئندہ سال دس ہجری میں ادا فرمایا۔
(4)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی معذور کی طرف سے حج کرنا جائز ہے جسے حج بدل کہا جاتا ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔
اور حج بدل کسی کے مرنے کے بعد بھی اس کی طرف سے کرنا جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1513
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1852
1852. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی۔ مگر اسے حج کیے بغیر موت آگئی ہے۔ آیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا: ”ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ مجھے بتاؤ اگر تمھاری ماں کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ لائق ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1852]
حدیث حاشیہ:
یہ عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے جن کی تفصیل یہ ہے:
٭ حج بدل، یعنی دوسرے کی طرف سے حج کرنا۔
یہ تو روایت سے ظاہر ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص خود حج واجب کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ دوسرے کو نائب نہیں بنا سکتا۔
٭ میت کی طرف سے نذر کو پورا کرنا، یعنی حقوق واجبہ میت کی طرف سے ادا کیے جائیں کیونکہ میت نے حج کی نذر مانی تھی۔
جب نذر حج کی قضا جائز ہے تو باقی نذروں کی قضا بھی جائز ہو گی۔
٭ مرد کا عورت کی طرف سے حج کرنا جبکہ روایت میں عورت کا عورت کی طرف سے حج کرنا ثابت ہوتا ہے، تاہم مرد، عورت کی طرف سے بطریق اولیٰ حج کر سکتا ہے کیونکہ مرد کا حج عورت کے حج سے افضل ہے۔
مرد کے حج میں عورت کے حج کی نسبت زیادہ مناسک ہیں، اس لیے جب عورت کا حج عورت کی طرف سے جائز ہے تو مرد کا حج عورت کی طرف سے بطریق اولیٰ جائز ہو گا۔
(2)
دراصل امام بخاری ؒ نے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے انہوں نے خود ایک دوسرے مقام پر روایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ اسے ادا کرنے سے پہلے فوت ہو گئی ہے۔
(صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: 6699) (3)
حافظ ابن حجر ؒ کو فتح الباری میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے سہو ہوا ہے۔
انہوں نے فرمایا:
اس حدیث میں ہے:
”عورت نے اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کے متعلق دریافت کیا۔
“ (فتح الباري: 84/4)
حالانکہ حدیث میں ہے:
”عورت نے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنے کے متعلق پوچھا تھا“ جس حدیث کی طرف حافظ ابن حجر ؒ نے اشارہ کیا ہے وہ آئندہ عنوان کے تحت ذکر ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1852
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1855
1855. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت فضل بن عباس ؓ نبی ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی۔ حضرت فضل ؓ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی تو نبی ﷺ نے حضرت فضل ؓ کا چہرہ دوسری طرف پھیردیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اللہ کی طرف سے فریضہ حج نے میرے باپ کوبایں حالت پایا۔ کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور سواری پر نہیں ٹھہرسکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟آپ نے فرمایا: ”ہاں“ اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1855]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے۔
کسی روایت میں ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا، اس نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا۔
کسی میں ہے کہ عورت نے سوال کیا۔
کسی روایت میں اپنی ماں کے متعلق سوال کرنا مروی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں سائل آدمی تھا اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی۔
اس نے بھی سوال کیا اور جس کے متعلق سوال کیا گیا وہ باپ اور ماں دونوں تھے۔
اس کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے جس میں حضرت فضل بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں:
میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دیہاتی آیا تو اس کے پیچھے اس کی خوبرو بیٹی سوار تھی۔
میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔
۔
(مسندأحمد: 211/1)
اس روایت کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ پہلے لڑکی نے اپنے دادا کے متعلق سوال کیا ہو اور اسے لفظ "أبي" سے تعبیر کیا ہو کیونکہ دادا کے لیے باپ کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔
پھر اس کے باپ نے خود اپنے والد کے متعلق سوال کیا ہو۔
ممکن ہے کہ اپنی ماں کے متعلق بھی اس نے سوال کیا ہو۔
(فتح الباري: 89/4)
شیخ البانی ؒ نے ان روایات کو شاذ قرار دیا ہے جن میں یہ ہے کہ سوال کرنے والا مرد تھا۔
(2)
واضح رہے کہ عورت، مرد کی طرف سے حج کر سکتی ہے لیکن چند ایک وجوہ سے عورت کا حج منفرد ہوتا ہے:
٭ عورت سلا ہوا کپڑا پہن سکتی ہے۔
٭ موزے پہن سکتی ہے۔
٭ اپنا سر چھپا سکتی ہے۔
٭ تلبیہ کے لیے اونچی آواز نہیں کر سکتی۔
٭ طواف میں رمل نہیں کر سکتی۔
٭ اضطباع بھی نہیں کر سکتی۔
٭ طواف صدر کے ترک پر اس پر دم لازم نہیں۔
٭ حیض کی وجہ سے طواف زیارت مؤخر کر سکتی ہے اور اس صورت میں اس پر کوئی دم لازم نہیں آتا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1855
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2761
2761. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: میری والدہ فوت ہوگئی ہیں اور ان کے ذمہ ایک منت تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کی طرف سے نذر پوری کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2761]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ کی مذکورہ روایت سے حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث میں ایک ابہام دور کیا ہے کہ اس میں مذکور شخص سے مراد حضرت سعد بن عبادہ ؓ ہیں۔
(2)
روایات سے حضرت سعد ؓ کے کلام میں تضاد معلوم ہوتا ہے کیونکہ ایک روایت میں ہے:
میری والدہ کے ذمے نذر تھی۔
دوسری روایت میں ہے:
میری والدہ میری عدم موجودگی میں وفات پا گئی ہیں، اگر میں صدقہ کروں تو انہیں فائدہ ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے حضرت سعد ؓ نے اپنی والدہ کی نذر اور ان کی طرف سے صدقہ، دونوں کے متعلق سوال کیا ہو۔
(3)
بہرحال اس حدیث سے عنوان کا دوسرا حصہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کے ذمے اگر نذر ہو تو ورثاء کو اسے پورا کرنا چاہیے۔
اولاد کو چاہیے کہ وہ والدین کے اس قسم کے فرائض کو پورا کریں جن کا ذکر حدیث میں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2761
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4399
4399. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا جبکہ حضرت فضل بن عباس ؓ سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس عورت نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی طرف سے عائد شدہ فریضہ حج میرے باپ پر اس وقت فرض ہوا ہے جب وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ وہ سواری پر بھی ٹھیک طرح نہیں بیٹھ سکتے، میں ان کی طرف سے حج کروں تو کیا ان کا حج ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4399]
حدیث حاشیہ:
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب آیت حج نازل ہوئی تو اس وقت میرا باپ نہایت بوڑھا تھا، اس لیے فوری طور پر اس پر حج کرنا واجب نہیں تھا، تاخیر کی وجہ سے وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ سواری پر بیٹھ سکے۔
کیا ایسے حالات میں اس کی طرف سے حج بدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا:
"تم اس کی طرف سے نیابت کرسکتی ہو۔
" مگر حج بدل صرف اس صورت میں ہوسکتاہے کہ حج بدل کرنے والا پہلے اپنا حج کرچکا ہو جیساکہ حدیث ِشبرمہ میں وضاحت موجود ہے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1811۔
)
چونکہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان فرمایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4399
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6228
6228. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت فضل بن عباس ؓ کو قربانی کے دن اپنے پیچھے سواری کی پشت پر بٹھایا۔ حضرت فضل ؓ بہت خوبصورت نوجوان تھے۔ نبی ﷺ لوگوں کو مسائل کا جواب دینے کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے کہ اس دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبرو عورت بھی رسول اللہ ﷺ سے کوئی مسئلہ پوچھنے آئی تو فضل بن عباس ؓ نے اسے دیکھنا شروع کر دیا کیونکہ اس کا حسن و جمال انہیں بہت پسند آرہا تھا نبی ﷺ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فضل بن عباس ؓ اسے دیکھ رہے تھے۔ آپ نے پیچھے کی طرف سے ہاتھ لے جا کر فضل ؓ کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ اسے دیکھنے سے دوسری طرف کر دیا۔ اس عورت نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ حج نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے جبکہ وہ سواری پر سیدھا نہیں بیٹھ سکتا، کیا اگر میں اس کی طرف سے حج کر لوں تو اس کی طرف سے یہ فریضہ ادا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6228]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو عملی طور پر ایک غیر محرم عورت کو دیکھنے سے منع فرمایا۔
بہرحال اہل ایمان کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ نظر بازی کے زہریلے اور خطرناک فتنے سے محفوظ رہیں۔
(2)
اس حدیث سے کچھ اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ ضروری نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو پردہ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف پھیرا ہے۔
اگر چہرے کا پردہ واجب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چہرہ ڈھانپنے کا ضرور حکم دیتے جیسا کہ شارح صحیح بخاری ابن بطال کے انداز سے معلوم ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 11/14)
لیکن یہ موقف عقلی اور نقلی لحاظ سے محل نظر ہے کیونکہ عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لیے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہے۔
اگر چہرے ہی کو حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو پھر حجاب کے دوسرے احکام کا کیا فائدہ ہے؟ اور نقلی لحاظ سے اس لیے غلط ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل اس توجیہ کے خلاف ہے، چنانچہ واقعۂ افک سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان حسب ذیل ہے:
”میں اسی جگہ بیٹھی رہی۔
اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔
اچانک ایک آدمی صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ اس مقام پر آیا اور دیکھا کہ کوئی سو رہا ہے۔
اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی إنا لله و إنا إليه راجعون پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی۔
میں نے فوراً اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔
“ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4141)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو پردے کے معاملے میں اس قدر سخت تھیں کہ حالت احرام میں بھی اجنبی لوگوں سے اپنا چہرہ چھپا لیتی تھیں، چنانچہ بیان کرتی ہیں کہ مردوں کے قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں۔
جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم اپنے سروں پر سے اوڑھنیاں اپنے چہروں پر گرا لیتی تھیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم پھر چہروں کو کھول لیتی تھیں۔
(مسند أحمد: 30/6)
اس حدیث پر امام ابو داود رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(باب في المحرمة تغطي وجهها)
”عورت حالت احرام میں اپنے چہرے کو ڈھانپے۔
“ (سنن أبي داود، المناسك، باب: 33)
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے:
(باب المحرمة تسدل الثوب علي وجهها)
”محرمہ عورت بھی اپنے چہرے پر کپڑا لٹکائے۔
“ (سنن ابن ماجة، المناسك، باب: 23)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح کا بیان مروی ہے کہ ہم حالت احرام میں اجنبی لوگوں سے چہرہ ڈھانپ لیتی تھیں۔
(سنن الدار قطني: 295/2، الحج، حدیث: 263)
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ حالت احرام میں اجنبی مردوں سے اپنے چہرے کو چھپاتی تھیں۔
(المستدرك للحاکم: 454/1)
قرآن کریم نے ایک پیغمبر زادی کے متعلق فرمایا ہے:
”ان دنوں میں سے ایک باحیا طریقے سے چلتی ہوئی آئی۔
“ (القصص22: 25)
باحیا طریقے سے چلنے کی کیفیت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ چہرے پر رکھے ہوئے آئی تھی۔
(المستدرك للحاکم: 441/2) (3)
اس سلسلے میں قرآن کریم کی ایک واضح نص ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور ایمانداروں کی خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے۔
“ (الأحزاب33: 59)
اس آیت کریمہ میں تمام اہل ایمان خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ باہر نکلتے وقت اپنی چادریں اپنے سر کے اوپر سے نیچے لٹکا لیا کریں، یعنی گھونگھٹ نکال لیا کریں۔
لغوی اعتبار سے اس آیت کے یہی معنی ہیں کیونکہ ''أدنیٰ'' کے لغوی معنی ہیں:
قریب کرنا، جھکانا اور لٹکانا ہے۔
جب اس کے بعد ''عَلٰی'' آ جائے تو اس کے معنی ارخاء، یعنی اوپر سے نیچے لٹکانے کے لیے مختص ہو جاتا ہے اور جب نیچے لٹکانا معنی ہوں تو اس کا مطلب سر سے نیچے لٹکانا ہو گا جس میں چہرے کا پردہ خود بخود آ جاتا ہے۔
(4)
مذکورہ حدیث سے چہرے کے پردے کا عدم وجوب ثابت کرنا اس لیے محل نظر ہے کہ خثعمیہ عورت کا چہرہ نہ چھپانا کسی ضرورت و افادیت کی بنا پر تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک حدیث کے حوالے سے اس کی وضاحت کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
''فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا۔
اچانک ایک دیہاتی سامنے آیا جس کے ساتھ اس کی خوبصورت لڑکی تھی اور وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیش کرنا چاہتا تھا تاکہ آپ اس سے نکاح کر لیں۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گفتگو سنیں اور اسے خود دیکھ لیں۔
(فتح الباري: 89/4)
ایسی ضرورت و افادیت کے لیے عورت کا چہرہ ننگا کرنا جائز ہے۔
چونکہ حضرت فضل رضی اللہ عنہ کا دیکھنا جائز نہ تھا، اس لیے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر منع کر دیا۔
واللہ أعلم (5)
ستر و حجاب کے سلسلے میں چند استثنائی صورتیں حسب ذیل ہیں:
٭ اتفاقات:
یہ کئی طرح کے ہو سکتے ہیں، مثلاً:
(ا)
راستے میں مرد وغیرہ نہ ہونے کی صورت میں عورت کا پردہ اٹھا لینا، پھر اتفاقاً کسی مرد کا سامنے آ جانا۔
(ب)
ہوا کے جھونکے سے عورت کا کپڑا اڑ جانا اور اس کی زینت یا چہرے کا ننگا ہو جانا۔
(ج)
چھت پر چڑھتے وقت اچانک کسی دوسرے گھر کے صحن میں نظر پڑ جانا۔
ایسے حالات میں اتفاقاً پہلی نظر معاف ہے۔
اس کے بعد دوسری نظر قابل گرفت ہے۔
٭ افادیت:
کسی افادیت کے پیش نظر عورت کا چہرہ ننگا کرنا جائز ہے، مثلاً:
منگنی سے پیشتر، ہونے والے میاں بیوی کو ایک نظر دیکھ لینا شرعاً جائز ہے۔
اس افادیت کی بنا پر عورت اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہے۔
٭ ضرورت:
کسی خاص ضرورت کی وجہ سے چہرہ ننگا کرنا، مثلاً:
طبیب کے سامنے علاج کی غرض سے چہرہ یا ہاتھ یا جسم کا کوئی بھی حصہ بے نقاب کرنا، اسی طرح جنگ کے وقت اگر عورتوں کی ضرورت ہو تو حسب ضرورت ستر و حجاب (پردے)
کے احکام میں نرمی ہو سکتی ہے۔
٭ اضطرار:
کیس مجبوری کی بنا پر چہرہ کھولنا جائز ہے، مثلاً:
کسی کے گھر میں آگ لگ جائے یا سیلاب کی صورت ہو یا مکان کی چھت گر جائے تو ایسی صورت میں ستر و حجاب کے احکام ختم ہو جاتے ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6228
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6699
6699. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ فوت ہو گئی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس کی ذمے کوئی قرض ہوتا تو کیا اسے ادا کرتا؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اللہ کے قرض کو بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6699]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ کے ذمے نذر کیا تھی؟ اس کے تعین میں اختلاف ہے۔
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ وہ روزے کی نذر تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی:
اللہ کے رسول! میری والدہ اس حالت میں فوت ہوئی ہے کہ اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں تو آپ نے فرمایا:
’‘ہاں۔
“ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:
(154)
1148)
لیکن اس روایت میں آدمی کی تعیین کے متعلق یقین نہیں کہ وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ تھے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ والدہ کی نذر مالی صدقے کے متعلق تھی جیسا کہ موطا امام مالک کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس روایت میں نذر کی صراحت نہیں ہے۔
(الموطأ لإمام مالك، الأقضیة، حدیث: 1515)
ظاہر روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نذر مال کے متعلق تھی۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔
میت کے ذمے واجب حقوق کی ادائیگی ضروری ہے۔
جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ اگر کوئی مر جائے اور اس کے ذمے مالی نذر ہو تو اس کے ترکے سے اس کا پورا کرنا ضروری ہے، اگرچہ مرنے والے نے وصیت نہ کی ہو، ہاں اگر نذر مرض موت میں مانی تھی تو ایک تہائی مال سے اس کی نذر پوری کی جا سکے گی۔
واللہ أعلم (فتح الباری: 713/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6699
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6959
6959. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت سعد بن عبادہ انصاری ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے متعلق سوال کیا جو ان کی والدہ کے ذمے تھی اور انکی وفات نذر پورا کرنے سے پہلے ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کی طرف سے نذر پوری کر دو۔“ بعض لوگ کہتے ہیں: جب اونٹوں کی مقدار بیس ہو جائے تو ان میں چار بکریاں دینا ضروری ہیں۔ اگر سال پورا ہونے سے پہلے کسی کو اونٹ ہبہ کر دے یا اسے فروخت کر دے، یہ حیلہ زکاۃ سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اختیار کرے تو اس پر کوئی چیز واجب نہ ہوگی۔ اسی طرح اگر وہ ان کو تلف کر دے، اور خود فوت ہو جائے تو اس کے مال میں کوئی چیز واجب نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6959]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی اور وہ اسے پورا کرنے سے پہلے فوت ہوگیا تو اس کے ورثاء پر نذر کا پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ فوت ہوگئی تھیں جبکہ نذر کا پورا کرنا ان کے ذمے تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کی نذر پوری کریں۔
اسی طرح زکاۃ کا حکم ہے کہ صاحب زکاۃ کے مرنے کے بعد وہ ساقط نہیں ہوگی بلکہ ورثاء کو چاہیے کہ وہ اس کے مال سے پہلے زکاۃ ادا کریں، پھر اس کا ترکہ تقسیم کریں۔
جب نذر موت سے ساقط نہیں ہوتی تو زکاۃ بطریق اولیٰ ساقط نہیں ہوگی۔
2۔
اس مقام پر بعض حضرات نے جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کی بحث چھیڑی ہے، اس کی حیثیت سخن سازی سے زیادہ نہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ دونوں ممنوع ہیں۔
بہرحال احکام الٰہی سےفرار کا راستہ اختیار کرنے کے لیے جو بھی حیلہ کیا جائے گا شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ قیامت کے دن ایسے شخص کا ضرور مواخذہ ہوگا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6959
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7315
7315. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہا: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ ادائیگی سے پہلے پی فوت ہوگئی ہے۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں تم ان کی طرف سے حج کرلو، تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر اس قرض کو بھی ادا کرو جو اللہ تعالیٰ کا ہے۔ بلاشبہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7315]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے منکرین قیاس کے خلاف حجت قائم کی ہے، چنانچہ ابراہیم نظام، داود بن علی ظاہری، امام ابن حزم اور کچھ معتزلہ نے حجیت قیاس سے انکار کیا ہے لیکن اُمت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ صحیح شرائط کے ساتھ قیاس کیا جا سکتا ہے کیونکہ اُمت کو پیش آنے والے مسائل اس کے بغیر حل نہیں ہوتے، البتہ اس میں توسیع پسندی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ ہمارے فقہاء نے ایسے ایسے فرضی مسائل بیان کیے ہیں جنھیں صحیح ماننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
افسوس کہ ان حضرات نے صحیح قیاس کے لیے جو حدود وشرائط تھیں ان میں سے کسی کا بھی خیال نہیں رکھا، پھر ایسے مسائل لکھ ڈالے کہ اغیار، شریعت اسلامیہ کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔
العیاذ باللہ۔
2۔
بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے قرض کی ادائیگی کو بندوں کے قرض کی ادائیگی پر قیاس کیا جسے اس خاتون نے خود تسلیم کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اسے سمجھانا تھا۔
اگر ان شرائط اور مقاصد کو مد نظر رکھ کر قیاس کیا جائے تو اسے مانے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7315