فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، آپ کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور بولی: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر کافی بڑھاپے میں واجب ہوا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ انہیں باندھ دیا جائے، تو کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، ان کی طرف سے حج کر لو۔ اس لیے کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو وہ بھی تم ہی ادا کرتیں“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5391]
وضاحت: ۱؎: گویا اس مثال کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر اس کے معذور باپ کے اوپر فرض حج کی ادائیگی کا فیصلہ دیا، اسی طرح دنیا کی ہر عدالت میں «اشباہ و نظائر» کے سہارے فیصلہ کیا جاتا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5391
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا شخص اس سے پہلے اپنا حج کر چکا ہو جیسا کہ شبرمہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا تھا کہ پہلے اپنا حج کر، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔ (2) یاد رہے جس شخص پر حج فرض ہو چکا ہو اور اسے کوئی شرعی عذر آڑے آ رہا ہو جس کی وجہ سے وہ خود حج نہ کرسکتا ہو، مثلاً: وہ دائمی مریض ہو یا انتہائی بوڑھا ہو یا سواری پر بیٹھنے کے قابل نہ ہو، وغیرہ تو ایسے زندہ شخص کی طرف سے حج کرنا درست ہے۔ (3) یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اگر سواری کا جانور برداشت کر سکتا ہو تو اس پر بیک وقت ایک سے زیادہ آدمی سوار ہو سکتے ہیں، نیز یہ رسول اللہ ﷺ کی عظیم تواضع اور حضرت فضل رضی اللہ عنہ کے عظیم المرتبت ہونے کی صریح دلیل بھی ہے کہ آپ نے اپنے سے کہیں کم مرتبہ شخص کو نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اپنے پیچے ایک ہی سواری پر سوارکر لیا۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم شخص کے لیے عورت کی آواز سننا شرعاً جائز ہے۔ جو لوگ عورت کی آواز کو بھی عورت یعنی چھپانے کے قابل قراردیتے ہیں، اس حدیث مبارکہ سے ان کے مؤقف کا رد ہوتا ہے۔ (5) عالم اور استاد اگر مناسب سمجھے تو سائل اور شاگرد کو مثال بیان کرکے مسئلہ سمجھا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ (6) یہ حدیث مبارکہ والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ ان کا خیال رکھنا، ان کے ذمے قرض ہو تو ادا کرنا، ان کے نان و نفقہ اور اخراجات وغیرہ کا دھیان کرنا، نیز ان کی دیگر دینی اور دنیاوی ضرورتیں پوری کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے۔ (7) یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ یوم نحر سے مراد 10 ذی الحجہ ہے جس دن حاجی منیٰ میں واپس آتے ہیں اور رمی کرتے ہیں۔ (8)”اگر اس کے ذمے قرض ہوتا“ یہ ایک مثال ہے جو آپؐ نے اس کو مسئلہ سمجھانے کے لیے بیان فرمائی ورنہ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے حج کا مسئلہ قرض کے مسئلہ سے معلوم فرمایا ہو بلکہ یہ دونوں احکام شرع میں معلوم تھے۔ اسی لیے امام بخاریؒ نے اس حدیث کا عنوان یوں باندھا ہے: ”جو شخص ایک معلوم حکم سمجھانے کے لیے ایک زیادہ واضح حکم بطور مثال بیان کرے۔۔۔۔الخ“ ورنہ بہت سے مسائل میں یہ قیاس نہیں چلتا، مثلاً: کسی شخص کے ذمے نماز یا روزہ ہو اوروہ خود ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا اور یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔ (9) یاد رکھنا چاہیے کہ قیاس وہاں چلتا ہے جہاں شریعت کا صریح حکم موجود نہ ہو، اس لیے قرآن و حدیث کے حکم کے مقابلے میں قیاس جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5391
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5398
´اس حدیث میں یحییٰ بن ابی اسحاق کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد کافی بوڑھے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کافی ہوتا یا نہیں؟۔“[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5398]
اردو حاشہ: اس باب کی پہلی چار روایات میں سائل عورت ہے اورآخری چار روایات میں سائل مرد ہے جب کہ واقعہ ایک ہی ہے۔ اسی طرح عام روایات میں سوال والد کے بارے میں کیا گیا ہے جبکہ روایت 5396 میں سوال والدہ کے بارے میں کیا گیا ہے۔ تطبیق یوں ہے کہ سائل آدمی تھا۔ اس کے ساتھ اس کی نوجوان بیٹی بھی تھی۔ پہلے بیٹی نے سوال کیا، پھراس شخص نے بھی کیا۔ سوال اس آدمی کے والد اور والدہ کے بارے میں تھا۔ لڑکی چونکہ اپنے باپ کی طرف سے سوال پوچھ رہی تھی، لہٰذا اس نے الفاظ اپنے والد والے ہی استعمال کیے۔ جبکہ جس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، وہ اس لڑکی کا دادا تھا۔ ویسے بھی دادا کو باپ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ استعمال میں عام ہے۔ اس آدمی کے والدین دونوں بوڑھے تھے، لہٰذا سوال دونوں کے بارے میں کیا گیا۔ مسند ابو یعلی(حدیث: 6731، بہ تحقیق حسین سلیم اسد) کی ایک روایت سے مذکورہ تطبیق کا اشارہ ملتا ہے کہ سائل مرد اور اس کی نوجوان بیٹی دونوں تھے۔ واللہ أعلم۔ بعض علماء محققین ترجیح کی طرف مائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو روایات امام زہری کے واسطے سے مروی ہیں ان سب میں عورت ہی کا ذکر ہے۔ اور یہ بخاری و مسلم کی روایات ہیں، اس لیے انہیں ترجیح حاصل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ سائلہ عورت ہی تھی، مرد نہ تھا، مرد کے ذکر والی روایت مرجوح ہیں۔ مزید دیکھیے: (تعلیقات سلفیة، طبع جدید: 458/5)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5398
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3252
حضرت فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، خثعم قبیلہ کی ایک عورت نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرا باپ بہت بوڑھا ہے، اس پر اللہ کا فریضہ، حج، فرض ہو چکا ہے اور وہ اپنے اونٹ کی پشت پر بیٹھ نہیں سکتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس کی طرف سے حج کر۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3252]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی انسان پر حج فرض ہو چکا ہو، لیکن وہ کسی عذر کی بنا پر خود حج نہ کر سکتا ہو تو اس کی طرف سے دوسرا مرد یا عورت حج کر سکتی ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، کا یہی موقف ہے، لیکن مالکیہ کے نزدیک کسی کی طرف سے حج نہیں کیا جا سکتا جمہور کے نزدیک مالدار شخص اگر مجبوری کی وجہ سے خود حج نہ کرسکتا ہوتو اس پر لازم ہے کہ وہ کسی سے اپنی جگہ حج کروائے، اس طرح میت کی طرف سے بھی حج کیا جا سکتا ہے، بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک میت کے ترکہ سے حج کرنا اگر اس نے مال چھوڑا ہو اور زندگی میں اس پر حج فرض ہو چکا ہو تو اس کی طرف سے حج کرنا لازم ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، کا نظریہ بھی یہی ہےاور جمہور کے نزدیک حج بدل وہ انسان کر سکتا ہے جس نے اپنا حج کر لیا ہو اور احناف کے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے صرف بہتر ہے کہ اس نے پہلے اپنا حج کیا ہو پھر حج بدل کرے۔