الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الزاينة (من المجتبى)
کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
108. بَابُ : لُبْسِ الْعَمَائِمِ الْحَرْقَانِيَّةِ
108. باب: سرمئی رنگ کی پگڑی باندھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5345
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُسَاوِرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" رَأَيْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِمَامَةً حَرْقَانِيَّةً".
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کی پگڑی باندھے دیکھا۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5345]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الحج 84 (1359)، سنن ابی داود/اللباس 24 (4077)، سنن الترمذی/الشمائل 16(108)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 22 (2821)، اللباس 14 (3587)، (تحفة الأشراف: 10716)، مسند احمد (4/307) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «حرقانیہ» لفظ «حرق» (جلنا) سے ہے، یعنی: جلنے کے بعد کسی چیز کا جو رنگ ہوتا ہے، وہ سرمئی ہوتا ہے، لیکن مؤلف کے سوا سب کے یہاں، یہاں لفظ «سوداء» ہے، (خود مؤلف کے یہاں بھی آگے «سوداء» ہی ہے) اس لحاظ سے دونوں حدیثوں کو ایک ہی باب (۱۰۹) میں لانا چاہیئے تھا، مگر کسی راوی کے یہاں «حرقانیۃ» ہونے کی وجہ سے اور رنگ میں ذرا سا فرق ہونے کی وجہ سے مؤلف نے شاید الگ الگ دو باب باندھے ہیں، واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح مسلمخطب الناس وعليه عمامة سوداء
   صحيح مسلمعليه عمامة سوداء قد أرخى طرفيها بين كتفيه
   سنن أبي داودعلى المنبر وعليه عمامة سوداء قد أرخى طرفها بين كتفيه
   سنن ابن ماجهعليه عمامة سوداء قد أرخى طرفيها بين كتفيه
   سنن ابن ماجهيخطب على المنبر وعليه عمامة سوداء
   سنن ابن ماجهيخطب على المنبر وعليه عمامة سوداء
   سنن ابن ماجهعليه عمامة سوداء قد أرخى طرفيها بين كتفيه
   سنن النسائى الصغرىرأيت على النبي عمامة حرقانية
   مسندالحميديرأيت على رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم عمامة سوداء يوم فتح مكة

سنن نسائی کی حدیث نمبر 5345 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5345  
اردو حاشہ:
سیاہی مائل عربی میں لفظ حرقانية استعمال فرمایا گیا ہے جو حرق سے ہے۔ اس کے معنیٰ آگ میں جلنا ہے۔ گویا ایسا رنگ جو آگ میں جلی ہوئی چیز کے رنگ جیسا ہو۔ اسے سیاہی مائل کہا گیا کیونکہ ضروری نہیں، وہ خالص سیاہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5345   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4077  
´عمامہ (پگڑی) کا بیان۔`
حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا، آپ کالی پگڑی باندھے ہوئے تھے جس کا کنارہ آپ نے اپنے کندھوں پر لٹکا رکھا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4077]
فوائد ومسائل:
پگڑی کا استعمال مستحب ہے، زمانہ قدیم سے شرفاء پگڑی باندھتے آئے ہیں حتی کہ روایات میں آتا ہے کہ فرشتوں کو بھی پگڑی باندھتے دیکھا گیا تھا۔
اس کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں نیز سیاہ رنگ کے لباس میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن ایام محرم میں اور کسی مصیبت کے وقت میں سیاہ رنگ کا لباس پہننے سے احتراز کرنا ضروری ہے، کیونکہ سیاہ رنگ اور سیاہ لباس کو سوگ کے اظہارکی علامت بنا لیا گیا ہے، جیسا کہ بعض لوگ عشرہ محرم میں ایسا کرتے ہیں جب کہ اظہار سوگ کے اس طریقے کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4077   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1104  
´جمعہ کے خطبہ کا بیان۔`
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پہ خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، اس وقت آپ کے سر پہ ایک کالا عمامہ تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1104]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خطبے کے لئے منبر پرکھڑے ہونا مسنون ہے۔

(2)
سیاہ رنگ کا کپڑا پہننا جائز ہے۔
لیکن ہمارے ملک میں ایک فرقہ ماتم اور شعار کے طور پر سیاہ لباس پہنتا ہے ان کی مشابہت سے بچنے کے لئے مکمل سیاہ لباس سے اجتناب بہتر ہے۔
خصوصاً محرم کے مہینے میں تاہم صرف سیاہ پگڑی پہننے سے مشابہت نہیں ہوتی۔
اس لئے یہ جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1104   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:576  
576- جعفر بن عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:576]
فائدہ:
اس حدیث سے سیاہ لباس کا جواز ثابت ہوتا ہے، بعض لوگوں کا بعض خاص رنگوں کو اپنا شعار بنا لینا درست نہیں ہے، مثلاً کسی کا سبز رنگ کسی کا کالا رنگ کسی کا سرخ رنگ کا خاص کر نا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رنگ میسر آ جا تا تھا، اس کو پہن لیتے تھے، ایسا رنگ پہنا درست نہیں ہے جو عورتوں سے مشابہت رکھتا ہو۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 576