الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الإيمان وشرائعه
کتاب: ایمان اور ارکان ایمان
18. بَابُ : زِيَادَةُ الإِيمَانِ
18. باب: ایمان کے گھٹنے بڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5013
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مُجَادَلَةُ أَحَدِكُمْ فِي الْحَقِّ يَكُونُ لَهُ فِي الدُّنْيَا بِأَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ أُدْخِلُوا النَّارَ"، قَالَ:" يَقُولُونَ: رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا وَيَصُومُونَ مَعَنَا وَيَحُجُّونَ مَعَنَا فَأَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ"، قَالَ:" فَيَقُولُ: اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ"، قَالَ:" فَيَأْتُونَهُمْ فَيَعْرِفُونَهُمْ بِصُوَرِهِمْ فَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ إِلَى كَعْبَيْهِ فَيُخْرِجُونَهُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا قَدْ أَخْرَجْنَا مَنْ أَمَرْتَنَا"، قَالَ:" وَيَقُولُ: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ دِينَارٍ مِنَ الْإِيمَانِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ نِصْفِ دِينَارٍ , حَتَّى يَقُولَ: مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ"، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ , فَلْيَقْرَأْ هَذِهِ الْآيَةَ: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ إِلَى عَظِيمًا سورة النساء آية 48.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کا دنیاوی حق کے سلسلے میں جھگڑا اس جھگڑے سے زیادہ سخت نہیں جو مومن اپنے رب سے اپنے ان بھائیوں کے سلسلے میں کریں گے جو جہنم میں داخل کر دیے گئے ہوں گے، وہ کہیں گے: ہمارے رب! ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نماز ادا کرتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، ہمارے ساتھ حج کرتے تھے پھر بھی تو نے انہیں جہنم میں ڈال دیا۔ وہ کہے گا: جاؤ اور ان میں سے جنہیں تم جانتے ہو نکال لو، چنانچہ وہ ان کے پاس آئیں گے اور انہیں ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے، ان میں سے بعض ایسے ہوں گے جو آدھی پنڈلی تک جلے ہوئے ہوں گے اور بعض ایسے کہ ٹخنوں تک جلے ہوں گے، چنانچہ وہ انہیں نکالیں گے تو وہ کہیں گے: ہمارے رب! جنہیں نکالنے کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا ہم نے انہیں نکال لیا، وہ کہے گا: جس کے دل میں ایک دینار برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لو، پھر کہے گا: جس کے دل میں آدھا دینار برابر ایمان ہو یہاں تک کہ کہے گا: جس کے دل میں ذرے کے وزن بھر ایمان ہو۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: جسے یقین نہ ہو تو وہ یہ آیت: «إن اللہ لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشائ» سے «عظيما» یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دیتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا (النساء: ۴۸) تک پڑھے۔ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5013]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (60)، (تحفة الأشراف: 4178)، مسند احمد (3/94-95) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن ابن ماجهاذهبوا فأخرجوا من عرفتم منهم
   سنن النسائى الصغرىاذهبوا فأخرجوا من عرفتم منهم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 5013 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5013  
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اہل ایمان، یعنی مومن سفارش کریں گے۔ ان کی شفاعت برحق ہے، نیز ان کی سفارش قبول ہوگی۔
(2) اس حدیث سے باہم محبت کرنے کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ مومن، اس دن جس مال واولاد کو ئی فائدہ نہیں دیں گے، اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بارگاہ الہٰی میں جھگڑیں گے۔ اس پر انھیں آمادہ کرنے والی چیز باہمی محبت ہوگی جواللہ تعالی کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے کیا کرتے تھے۔
(3) گناہوں اور بداعمالیوں کے تفاوت اور فرق کی بنا پر جہنمیوں کے مابین بھی فرق ہوگا۔ کوئی جہنم کے سخت تر ین طبقے میں اور کوئی اس سے کم تر درجے میں، کچھ لوگوں کو نصف پنڈلیوں تک آگ لگی ہوگی اور کچھ کو ٹخنوں تک۔
(4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ شرک تمام گناہوں سے بڑا گنا ہ ہے۔ اس سے بڑا گنا ہ کوئی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شرک کسی صورت معاف نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ جتنے کبیرہ گناہ ہیں ان کی معافی ممکن ہے۔ مرنے کے بعد شرک کی معافی ہی نہیں، اس لیے مشرک وکافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ جمہور اہل علم نےاسی آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ قاتل کی معافی بھی ممکن ہے۔ دیگر کبیرہ گناہوں کی طرح وہ بھی اللہ تعالی کی مشیت کے تحت ہے، اگروہ چاہے تو ناحق قتل کرنے والے قاتل کو بھی معاف فرما دے۔ یہی حق ہے جبکہ حضرت عبد اللہ ؓ ایسے قاتل کی معافی کے قائل نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا لیکن تحقیق کی روشنی میں ان کے رجوع کا اثبات مشکل ہے۔ واللہ أعلم.
(6) پہچانیں گے گویا آگ ان کے چہروں کو نہیں لگے گی جیسا کہ آئندہ کلام سے معلوم ہو رہا ہے کیونکہ چہرہ تو سجدے کا مقام ہے۔ وہ نمازی ہو ں گے۔ آگ نماز کے مقامات کو نہیں چھوئے گی یا ان میں بگاڑ پیدا نہیں کر سکے گی۔
(7) ہم نے نکال لیے مقصد یہ ہے کہ ابھی بہت سے اور مومن بھی آگ میں جل رہے ہیں۔ ان کو بھی نکالنے کاحکم صادر فرمایا جائے۔
(8) اما م صاحب کا مقصد ایمان میں کمی بیشی ثابت کرنا ہے جوحدیث سے واضح ہے۔ (دینار کے برابر، نصف دینار کے برابر ذرہ برابر)۔ جو لوگ ایمان میں کمی بیشی کے قائل نہیں، وہ یہ کمی بیشی اعمال کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ وہ خوایمان کو دل ہی سے خالص سمجھتے ہیں۔ اعمال کا اثر تو اعضاء پر ہوگا۔
(9) دینار سونے کا ایک سکہ تھا جس کا وزن موجودہ دور کے مطابق چار ماشے چار رتی اور گرام کے حساب 4.374 گر ام بنتا ہے۔
10 ذرہ سے مراد غبار کا ذرہ ہے۔بعض نے چیونٹی کا معنیٰ بھی کیا ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5013   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث60  
´ایمان کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ مومنوں کو جہنم سے نجات دیدے گا، اور وہ امن میں ہو جائیں گے تو وہ اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لیے جو جہنم میں داخل کر دئیے گئے ہوں گے، اپنے رب سے ایسی بحث و تکرار کریں گے ۱؎ کہ کسی نے دنیا میں اپنے حق کے لیے اپنے ساتھی سے بھی ویسا نہیں کیا ہو گا۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، اور حج کرتے تھے، تو نے ان کو جہنم میں داخل کر دیا! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ ان میں سے جن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 60]
اردو حاشہ:
(1)
قیامت کے دن شفاعت کبریٰ تو صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے لیکن دیگر انبیائے کرام علیھم السلام اور مومنین کو بھی درجہ بدرجہ شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔

(2)
کوئی نبی یا ولی اپنی مرضی سے کسی گناہ گار کو جہنم سے نجات نہیں دے سکتا بلکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اور اپنے گناہ گار بھائیوں کے حق میں درخواست کریں گے، پھر جن کے حق میں اللہ چاہے گا شفاعت قبول فرما کر انہیں جہنم سے نجات دے دے گا۔

(3)
گناہ گار مومن جہنم کی آگ میں اپنے چہروں کی وجہ سے پہچانے جائیں گے کہ یہ مومن ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ نیک مومن گناہ گاروں کو سجدوں کے نشانات سے پہچانیں گے۔
 (صحيح بخاري، الرقاق، باب الصراط جسر جهنم، حديث: 6573)
  اس سے نماز کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے۔

(4)
گناہ گاروں کو جہنم میں ان کے گناہوں کے مطابق کم یا زیادہ عذاب ہو گا۔

(5)
تمام مومنوں کا ایمان برابر نہیں بلکہ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔

(6)
اللہ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ کم سے کم ایمان والا بھی نجات پا جائے گا لیکن مشرکین کو نجات نہیں ملے گی، انہوں نے جو نیکیاں خلوص سے کی ہوں گی، ان کا بدلہ یہ ملے گا کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو جائے گی لیکن وہ عذاب دائمی ہوتا رہے گا۔

(7)
اس سے اللہ کا عدل ثابت ہوتا ہے کہ کافروں کو بھی عذاب میں برابر نہیں رکھا جائے گا اور اس کی رحمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ تھوڑی نیکیوں پر زیادہ ثواب مل جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 60