ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مرتبہ میں سو رہا تھا کہ اسی دوران میں نے خواب دیکھا کہ لوگ مجھ پر پیش کئے جا رہے ہیں اور وہ قمیص پہنے ہوئے ہیں، بعض کی قمیص چھاتی تک ہے، بعض کی اس سے نیچے ہے اور میرے سامنے عمر بن خطاب کو پیش کیا گیا، وہ ایسی قمیص پہنے ہوئے تھے جسے وہ گھسیٹ رہے تھے“۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”دین“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5014]
بينما أنا نائم رأيت الناس يعرضون علي وعليهم قمص منها ما يبلغ الثدي ومنها ما يبلغ دون ذلك ومر علي عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره قالوا ما أولته قال الدين
بينا أنا نائم رأيت الناس عرضوا علي وعليهم قمص فمنها ما يبلغ الثدي ومنها ما يبلغ دون ذلك وعرض علي عمر بن الخطاب وعليه قميص يجتره قالوا فما أولته قال الدين
بينا أنا نائم رأيت الناس يعرضون علي وعليهم قمص منها ما يبلغ الثدي ومنها ما يبلغ دون ذلك وعرض علي عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره قال فماذا أولت ذلك قال الدين
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5014
اردو حاشہ: (1) ایک کام عالم بیداری میں مذموم ہوتو خواب میں وہی کام محمود اور پسند ہو سکتا ہے، مثلا: قمیص نیچے تک گھسیٹنا۔ جاگتے ہوئے یہ کام شرعا مذموم اور ناجائز ہے جبکہ نیند میں اسے محمود وپسند یدہ قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےا س کی تعبیر کمال دین فرمائی ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے خواب کی تعبیر کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، نیز صحیح معبر سے خواب کی تعبیر پوچھی جاسکتی ہے۔ (3) کی فاضل اور دین دار شخص کی تعریف سامعین کے سامنے کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس فاضل شخصیت کے عجب وتکبر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کےمتعلق سامعین کو بتلا دیا، نیز اس سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔ (4) قمیص انسانی بدن کے عیوب ونقائص اور قبائح کی پردہ پوشی کرتی ہے اور انسان کو زینت بخشتی ہے دین بھی انسان کے اخلاقی عیوب کو ختم کرتاہے اور انسان کو مہذب بناتاہے، اس لیے آپ نے قمیص سے دین مراد لیا۔ (5) محدثین کے نزدیک دین، ایمان اور اسلام ایک ہی چیز کانام ہے، لہذا ایمان کی کمی بیشی کے باب میں دین کا ذکر درست ہے۔ اور اس حدیث میں دین کی کمی بیشی صاف ثابت ہورہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5014
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 23
´ایمان والوں کا عمل میں ایک دوسرے سے بڑھ جانا` «. . . أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ، وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ وَمِنْهَا مَا دُونَ ذَلِكَ، وَعُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الدِّينَ . . .» ”. . . ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے،روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک وقت سو رہا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچا ہے۔ (پھر) میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے۔ ان (کے بدن) پر (جو) کرتا تھا۔ اسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔ (یعنی ان کا کرتہ زمین تک نیچا تھا) صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اس سے) دین مراد ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/بَابُ تَفَاضُلِ أَهْلِ الإِيمَانِ فِي الأَعْمَالِ:: 23]
� تشریح: مطلب یہ ہے کہ دین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات میں اس طرح جمع ہو گیا کہ کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنی فداکاری و جاں نثاری اور دینی عظمت و اہلیت کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بڑھ کر ہے اور بزرگی و عظمت میں وہ سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ مگر اسلام کی جو ترقی اور بحیثیت دین کے جو شوکت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات سے ہوئی وہ بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا کرتہ سب سے بڑا تھا، اس لیے ان کی دینی فہم بھی اوروں سے بڑھ کر تھی۔ دین کی اسی کمی بیشی میں ان کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کم وبیش نہیں ہوتا۔ اس روایت کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے۔
«ومطابقته للترجمة ظاهرة من جهة تاويل القمص بالدين وقد ذكر انهم متفاضلون فى لبسها فدل على انهم متفاضلون فى الايمان»[فتح] یعنی حدیث اور باب کی مطابقت بایں طور پر ظاہر ہے کہ قمیصوں سے دین مراد ہے اور مذکور ہوا کہ لوگ ان کے پہننے میں کمی بیشی کی حالت میں ہیں۔ یہی دلیل ہے کہ وہ ایمان میں بھی کم وبیش ہیں۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وفي هذا الحديث التشبيه البليغ وهو تشبيه الدين بالقميص لانه ليسترعورة الانسان وكذلك الدين يستره من النار وفيه الدلالة على التفاضل فى الايمان كما هو مفهوم تاويل القميص الدين مع ماذكره من ان اللابسين يتفاضلون فى لبسه» یعنی اس حدیث میں ایک گہری بلیغ تشبیہ ہے جو دین کو قمیص کے ساتھ دی گئی ہے، قمیص انسان کے جسم کو چھپانے والی ہے، اسی طرح دین اسے دوزخ کی آگ سے چھپا لے گا، اس میں ایمان کی کمی بیشی پر بھی دلیل ہے جیسا کہ قمیص کے ساتھ دین کی تعبیر کا مفہوم ہے۔ جس طرح قمیص پہننے والے اس کے پہننے میں کم و بیش ہیں اسی طرح دین میں بھی لوگ کم و بیش درجات رکھتے ہیں، پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہوئی۔ اس حدیث کے جملہ راوی مدنی ہیں حضرت امام المحدثین آگے ان چیزوں کا بیان شروع فرما رہے ہیں، جن کے نہ ہونے سے ایمان میں نقص لازم آتا ہے۔
چنانچہ اگلا باب اس مضمون سے متعلق ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 23
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3691
3691. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نےرسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”ایک دفعہ میں سو رہا تھا، میں نے خواب میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور انھوں نے قمیصیں پہن رکھی ہیں۔ کچھ قمیصیں تو ایسی جو سینوں تک ہیں۔ اور کچھ اس سے نیچے ہیں۔ عمر کو جب میرے سامنے لایا گیا تو ان پر جو قمیص تھی وہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپ نے فرمایا: ”وہ دین ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3691]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓ کا دین وایمان بہت قوی تھا۔ اس سے ان کی فضیلت حضرت ابوبکر صدیق ؓ پرلازم نہیں آتی کیونکہ اس حدیث میں ان کا ذکر نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3691
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7009
7009. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں ایک مرتبہ سویا تھا ہوا تھا، اس دوران کو دیکھا کہ وہ قمیض پہنے ہوئے تھے، ان میں کچھ کی قمیض تو سینے تک تھیں اور کچھ کی ان سے بڑی تھیں۔ پھر میرے سامنے عمر بن خطاب کو پیش کیا گیا تو ان کی قمیض زمین پر گھسٹ رہی تھی۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تاویل کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس کی تاویل دین ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7009]
حدیث حاشیہ: کرتہ بدن کو چھپاتا ہے گرمی سردی سے بچاتا ہے دین بھی روح کی حفاظت کرتا ہے‘ اسے برائی سے بچا تا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7009
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2285
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں دودھ اور قمیص دیکھنے کا بیان۔` ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہما بعض صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سویا ہوا تھا دیکھا: لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ قمیص پہنے ہوئے ہیں، بعض کی قمیص چھاتی تک پہنچ رہی تھی اور بعض کی اس سے نیچے تک پہنچ رہی تھی، پھر میرے سامنے عمر کو پیش کیا گیا ان کے جسم پر جو قمیص تھی وہ اسے گھسیٹ رہے تھے“، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا: ”دین سے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرؤيا/حدیث: 2285]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی عمر رضی اللہ عنہ اپنے دین میں اس طرح کامل ہیں اور اسے اس طرح مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے کہ عمرکا دین ان کے لیے اٹھتے، بیٹھتے، سوتے جاگتے ایک محافظ کی طرح ہے، جس طرح قمیص جسم کی حفاظت کرتی ہے گویا عمردینی اعتبارسے اورلوگوں کی بنسبت بہت آگے ہیں اوران کے دین سے جس طرح فائدہ پہنچ رہا ہے اسی طرح ان کے مرنے کے بعد لوگ ان کے دینی کاموں اور ان کے چھوڑے ہوئے اچھے آثارسے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2285
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6189
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:" میں سویا ہوا تھا: میں نے دیکھا کہ لو گ میرے سامنے لا ئے جا رہے ہیں۔انھوں نے قمیص پہنی ہو ئی ہیں،کسی کی قمیص چھا تی تک پہنچتی ہے کسی کی اس سے نیچے تک پہنچتی ہے اور عمر بن خطاب گزرے تو ان پر جو قمیص ہے وہ اسے گھسیٹ رہے ہیں۔ "لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے اس کی کیا تعبیر فر ئی ہے؟ آپ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6189]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قمیص انسان کے لیے ستر اور پردہ پوشی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ، اس کے لیے زیب و زینت اور دفاع کا باعث ہے، اس طرح دین نفس و شیطان کے حملہ سے بچاتا ہے، اس کے کردار اور اخلاق کو سنوارتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قمیص کا سرتاپا ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دین میں سرتاپا ڈوبے ہوئے تھے اور ان کا انگ انگ دین کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے، ابوبکر یا دوسرے صحابہ اس صفت سے محروم تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6189
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:23
23. حضرت ابوسعید خدری ؓ ہی سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں ایک مرتبہ سو رہا تھا کہ بحالت خواب لوگوں کو دیکھا، وہ میرے سامنے لائے جاتے ہیں اور وہ کُرتے پہنے ہوئے ہیں۔ بعض کے کُرتے چھاتیوں تک ہیں اور کچھ لوگوں کے اس سے بھی کم۔ اور عمر بن خطابؓ کو میرے سامنے اس حالت میں لایا گیا کہ وہ کُرتا پہنے ہوئے ہیں اور اسے زمین پر گھسیٹ رہے ہیں۔“ صحابہ ؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ اس کی کیا تعبیر کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”دین۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:23]
حدیث حاشیہ: 1۔ دین اورکُرتے میں مناسبت یہ ہے کہ کُرتے کے ذریعے سے انسان اپنے باہر کی حفاظت کرتا ہے، یہ بدن کی گرمی اورسردی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ زیبائش بدن کا کام بھی دیتا ہے۔ اسی طرح دین بھی انسان کا محافظ ہے، اس کے لیے اعلیٰ زینت وزیبائش ہے، جہنم کی گرمی وسردی سے انسان کو بچاتا ہے۔ جب دین حاصل ہوجائے تو ہر چیز کی طرف قدم بڑھانے میں سہولت رہتی ہے۔ انسان دینداری کی بدولت اللہ کے ہاں معزز ومقبول ہو جاتا ہے اس بنا پر اہل دنیا بھی اس کی عزت کرتے ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں قمیص کے متعلق تین مراتب بیان ہوئے ہیں، یعنی چھاتیوں تک، اس سے بھی کم اور زمین پر گھسیٹتے ہوئے۔ پھر اس کی تعبیر دین سے کی گئی ہے گویا یہ ثابت ہوا کہ اہل ایمان میں دین کے اعتبار سے تفاضل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود بھی یہی ہے کہ دین یعنی ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 101/1) 3۔ اس حدیث کے پیش نظر اہل تعبیر کہتے ہیں کہ خواب میں قمیص دیکھنا دینداری کی علامت ہے اور اپنی قمیص کو گھسیٹتے ہوئے دیکھنا، اس بات کی علامت ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کے دینی اثرات تادیر باقی رہیں گے، نیز اس کی باقیات صالحات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حالت میں دیکھنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کفر کے اثرات مٹائیں گے اور ان کے ایمانی اثرات تادیر باقی رہیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زندہ کارناموں نے اس خواب کو سچا کردکھایا۔ (شرح الکرماني: 119/1) 4۔ اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک جزوی فضیلت کوظاہر کیا گیا ہے کہ ان کے عہد میں فتوحات کی کثرت ہوگی "عَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ" میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ یہ جزوی فضیلت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ ان کی افضلیت پر امت عادلہ کا اجماع ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کے لیے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راستہ ہموار کیا تھا۔ فاروق اعظم نے ان کی صاف کی ہوئی شاہراہ پر چلنا شروع کیا تو فتوحات کا ایک طویل وعریض سلسلہ شروع ہوگیا۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے بڑے دیندار حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 23
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3691
3691. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نےرسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”ایک دفعہ میں سو رہا تھا، میں نے خواب میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور انھوں نے قمیصیں پہن رکھی ہیں۔ کچھ قمیصیں تو ایسی جو سینوں تک ہیں۔ اور کچھ اس سے نیچے ہیں۔ عمر کو جب میرے سامنے لایا گیا تو ان پر جو قمیص تھی وہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپ نے فرمایا: ”وہ دین ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3691]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس میں تشبیہ بلیغ ہے جس میں دین کو قمیص سے تشبیہ دی گئی ہے،وجہ شبہ ستر اور پردہ پوشی ہے۔ جس طرح قمیص انسان کی شرمگاہ کو چھپاتی ہے اسی طرح دین بھی انسانی عیوب پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ 2۔ اہل علم فرماتے ہیں: خواب میں قمیص دیکھنا اس کی تعبیر دین ہے اور اس کا گھٹنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مرنے کے بعد دیکھنے والے کے کمالات اور دن کے اثرات باقی رہیں گے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کا دین اور ایمان بہت مضبوط اور قوی تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3691
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7008
7008. حضرت ابو سعید خدری ؓ سےروایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک دفعہ میں سو رہا تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ قمیض پہنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی قمیض تو ان کے سینے تک ہیں اور کچھ لوگوں کی اس سے بڑی ہیں۔ اس دوران میں عمر بن خطاب میرے پاس سے گزرے تو ان کی قمیض زمین پر گھسٹ رہی تھی۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی ہے؟ تو آپ نے فرمایا:اس سے مراد ”دین“ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7008]
حدیث حاشیہ: اہل تعبیر کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی خواب میں قمیص دیکھتا ہے تو اس سے مراد دین ہے جیسا کہ قمیص شرمگاہ کو ڈھانپتی ہے اسی طرح دین اسلام برائیوں کو ڈھانپ لیتا ہے اور ہر ناپسندیدہ کام کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”تقوے کا لباس ہی بہتر ہے۔ “(الأعراف: 26/7) اس حدیث میں اشارہ ہے کہ دیندار لوگ دین میں قلت و کثرت اور قوت و ضعف کے اعتبار سے کم بیش ہوتے ہیں۔ نیز اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دین داری کو بیان کیا گیا ہے جبکہ پہلی حدیث میں ان کے علم کی گواہی پیش کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7008
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7009
7009. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں ایک مرتبہ سویا تھا ہوا تھا، اس دوران کو دیکھا کہ وہ قمیض پہنے ہوئے تھے، ان میں کچھ کی قمیض تو سینے تک تھیں اور کچھ کی ان سے بڑی تھیں۔ پھر میرے سامنے عمر بن خطاب کو پیش کیا گیا تو ان کی قمیض زمین پر گھسٹ رہی تھی۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تاویل کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس کی تاویل دین ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7009]
حدیث حاشیہ: 1۔ قمیص بدن کو چھپاتی ہے اور سردی سے بچاتی ہے اسی طرح دین بھی روح کی حفاظت کرتا اور اسے برائی سے بچاتا ہے خواب میں قمیص کو زمین پر گھسیٹ کر چلنا دین میں ثابت قدمی اور پختگی کی علامت ہے۔ یہ امر خواب میں تو قابل تعریف ہے لیکن عالم بیداری میں مذموم ہے کیونکہ احادیث میں اس کی ممانعت ہے اور اس کے متعلق احادیث میں وعید بیان ہوئی ہے۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ برتری ثابت ہے کہ آپ دینی معاملات میں بہت سخت تھے بعض دفعہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے بھی اس سختی کو محسوس کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا اظہار کیا۔ پردے کی آیات اسی پس منظر میں نازل ہوئی تھیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7009