تخریج: «أخرجه أبوداود، الديات، باب من قتل عبده أو مثل به أيقاد منه؟ حديث:4515، والترمذي، الديات، حديث:1414، والنسائي، القسامة، حديث:4740، وابن ماجه، الديات، حديث:2663، وأحمد:5 /10، 11، 12، 18، 19، والحاكم:4 /367.* الحسن البصري عن سمرة كتاب والرواية عن كتاب صحيحةكما في أصول الحديث، بحث الوجادة والمناولة.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ مالک و آقا سے غلام کی جان اور اعضاء کا قصاص لیا جائے گا۔
اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے آزاد کو غلام کے بدلے میں بہرصورت قتل کیا جائے۔
وہ غلام اس کا اپنا ہو یا کسی اور کا۔
اور ایک قول یہ ہے کہ اس صورت میں قتل کیا جائے گا جبکہ غلام دوسرے کا ہو‘ اگر اپنا غلام ہو تو اس صورت میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ آزاد کو غلام کے عوض کسی صورت میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
یہ آخری قول امام احمد‘ امام مالک‘ امام شافعی اور حسن بصری رحمہم اللہ وغیرہم کا ہے۔
ان کا استدلال اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ہے:
﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ﴾ (البقرۃ۲:۱۷۸) ” تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض ہے‘ آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام
(قتل کیا جائے۔
“) ان کا کہناہے کہ اس حدیث میں حسن بصری اور سمرہ کے درمیان انقطاع ہے‘ نیز آپ کے ارشاد
«قَتَلْنَاہُ» کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اس سے بدلہ لیں گے اور اس کے اس برے فعل کی اسے سزا دیں گے۔
اس میں لفظ قتل بطور مشاکلت کے استعمال ہوا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے:
﴿وَجَزٰٓؤُا سَیِّـئَۃٍ سَیِّـئَـۃٌ مِّثْلُھَا﴾ (الشورٰی۴۲:۴۰) ”برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی کے ساتھ ہوتا ہے۔
“ اس جگہ سَیِّئَۃٌ کا دوبارہ لانا بطور مشاکلت کے ہے۔
اسی طرح کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی لفظ قتل بطور مشاکلت کے ہے۔
اس سے مقصود زجر و توبیخ اور ڈرانا دھمکانا ہے۔
رہا یہ معاملہ کہ آزاد مرد کا عضو غلام کے عضو کاٹنے کے بدلے میں کاٹا جائے گا یا نہیں‘ تو اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے کہ آزاد کا عضو غلام کے عضو کے بدلے میں نہیں کاٹا جائے گا۔
ان کی اس رائے کی بنیاد یہ ہے کہ اس حدیث کو انھوں نے زجر و توبیخ پر محمول کیا ہے۔