حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ پہلے بیت المقدس تشریف لے گئے پھر آسمانوں کی طرف چلے۔
اس میں مخالفین کے لیے اظہار حق مقصود تھا کیونکہ اگر سیدھے مکے ہی سے آسمانوں کی طرف جاتے تو مخالفین کے لیے بیان ووضاحت کی کوئی صورت نہ پائی جاتی لیکن جب آپ نے فرمایا کہ میں رات کے ایک حصے میں بیت المقدس گیا ہوں تو انھوں نے آپ سے بیت المقدس کی جزئیات پوچھیں جو انھوں نے بھی دیکھ رکھی تھیں اور انھیں اس بات کا بھی علم تھا کہ رسول اللہ ﷺ اس سے پہلے کبھی بیت المقدس نہیں گئے ہیں۔
جب آپ نے انھیں بیت المقدس کی جزئیات بیان فرمائیں جو انھوں نے پوچھی تھیں تو آپ کی سچائی واضح ہو گئی اور مشرکین مکہ کو یقین ہو گیا کہ واقعی آپ رات کے تھوڑے سے حصے میں وہاں گئے ہیں جب بیت المقدس جانے کی تصدیق ہوگئی تو باقی سفر کی تصدیق کے لیے بھی راہ ہموار ہو گئی۔
اس سے اہم ایمان کے ایمان میں پختگی اور منکرین کی بد بختی میں اور اضافہ ہوا۔
(فتح الباري: 252/7) واضح رہے کہ انبیاء ؑ سے ملاقات کی جو ترتیب اس حدیث میں ہے یہی زیادہ صحیح اور قابل ترجیح ہے یعنی پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑ، دوسرے پر حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ تیسرے پر حضرت یوسف ؑ، چوتھےپر حضرت ادریس ؑ، پانچویں پر حضرت ہارون ؑ، چھٹے پر حضرت موسیٰ ؑ اور ساتویں پر حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی۔
واللہ أعلم۔
رسول اللہ ﷺ نے سدرۃ المنتہی کے بعد کچھ مشاہدات کیے جن کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے۔
ان میں سے چند حسب ذیل ہیں۔
سدرۃ المنتہی کے بعد ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں قضا وقدر کے فرشتوں کے قلم حرکت میں تھے۔
آپ نے ان کی آواز سنی۔
رسول اللہ ﷺ جنت میں داخل ہوئے تو وہاں موتیوں کے گنبد دیکھے۔
جنت کی مٹی کستوری کی تھی جس سے خوشبو مہک رہی تھی۔
جنت میں آپ نے نہر کو ثر دیکھی جس کے کناروں پر خولدارموتیوں کے قبے تھے۔
اس کے اندر بھی کستوری کا گارا تھا۔
جو مہک رہا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے وہاں ایک درخت دیکھا جس پر رنگ برنگی روشنی تھی۔
حضرت جبرئیل ؑ ایک طرف ہٹ گئے تو رسول اللہ ﷺ وہاں سجدہ ریز ہوگئے۔
رسول اللہ ﷺ کو وہاں پانچ نمازوں اور سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کا تحفہ ملا۔
نیز بشارت ملی کہ آپ کی امت میں سے جس نے شرک نہیں کیا ہو گا اس کے تمام کبیرہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
رسول ا للہ ﷺ کو دیکھ کر تمام اہل آسمان مارے خوشی کے مسکرارہے تھے لیکن جہنم کے داروغہ مالک کے چہرے پر مسکراہٹ کے نشانات نہ تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے وہاں جنت کا مشاہدہ کیا تو اس کے انار مٹکوں کی طرح بڑے بڑے اور پرندے بختی اونٹوں کی طرح قد آور تھے اور جہنم کی آگ اتنی شدید تھی کہ اگر پتھر اور لوہا اس میں پھینک دیا جائے تو فوراً پگھل جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے وہاں حورعین کو دیکھا انھیں سلام کیا انھوں نے جواب دیا اور اپنے متعلق بتایا کہ ہم خیرات حسان ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کو حضرت ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہ بیٹے! آج تمھاری رب سے ملاقات ہوگی چونکہ تیری امت آخری امت اور تمام امتوں سے زیادہ ہے۔
اس کے لیے اپنے رب سے ان کی ضروریات ضرور طلب کریں۔
(فتح الباري: 271/7)