شیبان بن فروخ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ثابت بنانی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”میرے پاس براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اپنا سم وہاں رکھتا ہے جہاں اس کی نظر کی آخری حد ہے۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا حتی کہ بیت المقدس آیا۔ فرمایا: میں نے اس کو اسی حلقے (کنڈے) سے باندھ لیاجس کے ساتھ انبیاء رضی اللہ عنہ اپنی سواریاں باندھتے تھے۔ فرمایا: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر (وہاں سے) نکلا تو جبریل صلی اللہ علیہ وسلم میرےپاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کالے آئے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا۔ تو جبرئیل رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے۔ جبریل رضی اللہ عنہ نے (دروازہ) کھولنے کو کہا تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: اور (کیا) انہیں بلوایا گیا تھا؟کہا: بلوایا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا تو میں اچانک آدم رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی، پھر وہ ہمیں اوپر دوسرے آسمان کی طرف لے گئے، جبرئیل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلوایا گیا تھا؟ کہا: بلوایا گیا تھا۔ تو ہمارے لیےدروازہ کھول دیا گیا، اب میں دوخالہ زاد بھائیوں، عیسیٰ ابن مریم بن زکریا کے سامنے تھا (اللہ ان دونوں پررحمت اور سلامتی بھیجے) دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی، پھر جبریل رضی اللہ عنہ ہمیں اوپر تیسرے آسمان تک لے گئے، جبریل نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہاگیا: کیا ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا۔ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میں نے یوسف رضی اللہ عنہ کو دیکھا، وہ ایسے تھے کہ (انسانوں کا) آدھا حسن انہیں عطا کیا گیا تھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی، پھر ہمیں اوپر چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا، جبریل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں، بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تب میرے سامنے ادریس رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ”ہم نے اسے (ادریس رضی اللہ عنہ کو) بلند مقام تک رفعت عطا کی۔“ پھر ہمیں اوپر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا تو جبریل نے دروازہ کھلوایا، کہا گیا: آپ کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: ان کے لیے پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں بھیجا گیا تھا، چنانچہ ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات ہارون رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی، پھر ہمیں چھٹے آسمان پر لے جایا گیا، جبریل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا کیا: کیا انہیں پیغام بھیجا گیا تھا؟کہا: ہاں، بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات موسیٰ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی، پھر ہمیں اوپر ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، جبریل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھلوایا۔ کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل۔ کہا گیا: آپ کےساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میں حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا۔ انہوں نے بیت معمور سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ اس (بیت معمور) میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (عبادت کے لیے) داخل ہوتے ہیں، پھر کبھی دوبارہ اس میں واپس (آکر داخل) نہیں ہو سکتے، پھر جبریل مجھے سدرۃ المنتھیٰ (آخری سرحد پر واقع بیری کے درخت) کے پاس لے گئے، اس کے پتے ہاتھوں کے کانوں اور اس کے بیر مٹکوں کی طرح ہیں، جب اللہ کے حکم سے جس چیز نے اسے ڈھانپنا تھاڈھانپ لیا، تو وہ بدل گئی، اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی مخلوق نہیں جو اس کے حسن کا وصف بیان کر سکے، پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف سے وحی کی جو کی، اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں، میں اتر کر موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنےرب کے پاس واپس جائیں اور اس سے تخفیف کر درخواست کریں کیونکہ آپ کی امت (کے لوگوں) کے پاس اس کی طاقت نہ ہو گی، میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور پرکھ چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تو میں واپس اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کی: اے میرے رب! میری امت پر تخفیف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف آیااور کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت کے پاس (اتنی نمازیں پڑھنے کی) طاقت نہ ہو گی۔اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ نے فرمایا: میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ اور موسیٰ رضی اللہ عنہ کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد!ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں اور (اجر میں) ہر نماز کے لیے دس ہیں، (اس طرح) یہ پچاس نمازیں ہیں اور جو کوئی ایک نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن عمل نہ کرے گا، اس کےلیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی اور اگر وہ (اس ارادے پر) عمل کرے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو کوئی ایک برائی کا ارادہ کرے گا اور (وہ برائی) کرے گا نہیں تو کچھ نہیں لکھا جائے گا اور اگر اسے کر لے گا تو ایک برائی لکھی جائے گی۔ آپ نے فرمایا: میں اترا اور موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو انہیں خبر دی، انہوں نےکہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے (مزید) تخفیف کی درخواست کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نےکہا: میں اپنے رب کے پاس (بار بار) واپس کیا حتی کہ میں اس سے شرمندہ ہو گیا ہوں۔“
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: ”میرے پاس برّاق لایا گیا (وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ تھا۔ گدھے سے اونچا اور خچر سے کم (چھوٹا)، اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں اس کی نظر پہنچتی) میں اس پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچا اور اس کو اس حلقہ (کنڈے) سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں نکلا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک شراب کا برتن اور دوسرا دودھ کا برتن لایا۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا (دودھ کو پسند کیا) تو جبریلؑ نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا۔ پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف چڑھا، جبریلؑ نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا: تو کون ہے؟ جواب دیا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سوال ہوا: اسے بلوایا گیا ہے؟ کہا: بلایا گیا ہے۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں نے اچانک آدم علیہ السلام کو پایا، انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں دوسرے آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ جواب دیا جبریل ہوں۔ سوال ہوا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا: بلایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو اچانک میں نے دو خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحیٰ بن زکریا علیہم السلام کو پایا (اللہ ان دونوں پر رحمتیں برسائے) دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر دی۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان پر لے گئے اور دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ جواب دیا: جبریل ہوں! سوال ہوا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں طلب کیا گیا ہے؟ کہا، انھیں بلایا گیا ہے، تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میری ملاقات یوسف علیہ السلام سے ہوئی۔ انھیں حسن کا وافر حصہ ملا ہے۔ اس نے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ جبرائیل ؑ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو سوال ہوا آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا: اور کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا: انھیں بلایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا اور میری ملاقات ادریسؑ سے ہوئی، انھوں نے مرحبا کہا اور دعائے خیر دی۔ اللہ کا فرمان ہے: ”ہم نے اسے بلند مقام عنایت کیا ہے۔“ (مریم: 57) پھر ہمیں پانچویں آسمان پر لے جایا گیا، تو جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ سوال ہوا اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: انھیں بلوایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میری ملاقات ہارون ؑ سے ہوئی انھوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں چھٹے آسمان پر چڑھایا گیا۔ جبریلؑ نے دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون ہے؟ کہا: جبریل۔ سوال ہوا: اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: جی ہاں! انھیں بلوایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میری ملاقات موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی، انھوں نے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھر وہ ساتویں آسمان پر چڑھ گئے۔ جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا: یہ کون ہے؟ کہا جبریل۔ سوال کیا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا: کیا انھیں پیغام بھیجا گیا ہے؟ کہا انھیں پیغام بھیجا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کو پاتا ہوں۔ انھوں نے اپنی پشت کی ٹیک بیت المعمور سے لگائی ہوئی ہے، اور وہ ایسا گھر ہے کہ اس میں ہر روز ستّر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، پھر ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر مجھے جبریل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ (آخری سرحد پر واقع بیری کا درخت) کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں اور بیر مٹکوں کی طرح ہیں۔ تو جب اللہ کے حکم سےجس چیزنے اسے ڈھانپا، ڈھانپنا تو اس میں ایسی تبدیلی پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی اس کے حسن کو بیان نہیں کر سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف جو چاہا وحی کی اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف اترا تو انھوں نےپوچھا: تیرے رب نے تیری امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے جواب دیا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ ؑ نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اس سے تخفیف کی درخواست کرو، کیونکہ تیری امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، میں بنو اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور ان کو جانچ چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تو میں لوٹ کر اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کیا: اے میرے رب! میری امت کے لیے تخفیف فرما، اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ ؑ کی طرف واپس آیا اور انھیں بتایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ انھوں نے کہا: تیری امت اتنی نمازیں نہیں پڑھ سکے گی، اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سےتخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں اپنے رب تبارک و تعالیٰ اور موسیٰؑ کے درمیان آتا جاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! وہ ہر دن، رات میں پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز دس کے برابر ہے، اس طرح یہ پچاس نمازیں ہیں، اور جو انسان کسی نیکی کی نیت کر کے، کرے گا نہیں، اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی، اور اگر وہ کرے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو برائی کا ارادہ کرے گا اور اسے کرے گا نہیں تو کچھ نہیں لکھا جائے گا، اور اگر کر گزرے گا تو ایک برائی لکھی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اتر کر موسیٰؑ کے پاس پہنچا اور انھیں خبر دی تو انھوں نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اس سے تخفیف کی درخواست کرو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: میں بار بار اپنے رب کے پاس گیا ہوں حتیٰ کہ اس سے شرما گیا ہوں۔“