سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی (انہوں نے غالباً یہ کہا) کہ مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے (جو ان کی قوم کے فرد تھے) کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بیت اللہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا، اس اثناء میں ایک کہنے والے کو میں نے یہ کہتے سنا: ” تین آدمیوں میں سے ایک، دو کے درمیان والا“ پھر میرے پاس آئے اور مجھے لے جایا گیا، اس کے بعد میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں زمزم کا پانی تھا، پھر میرا سینہ کھول دیا گیا، فلاں سے فلاں جگہ تک (قتادہ نےکہا: میں نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا: اس سے کیا مراد لے رہے ہیں؟ اس نے کہا، پیٹ کے نیچے کےحصے تک) پھر میرا دل نکالا گیا اور اسے زم زم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے دوبارہ اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا جسے براق کہا جاتا ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نظر کی آخری حد تھی، مجھے اس پر سوار کیا گیا، پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم سب سے نچلے (پہلے) آسمان تک پہنچے۔ جبریل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا: تو پوچھا گیا: یہ (دروازہ کھلوانے والا) کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: کیا (آسمانوں پر لانے کےلیے) ان کی طرف سے کسی کو بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں۔ تو اس نے ہمارے لیے دروازہ کھول دیا اور کہا: مرحبا! آپ بہترین طریقے سے آئے! فرمایا: پھر ہم آدم رضی اللہ عنہ کے سامنے پہنچ گئے۔ آگے پورے قصے سمیت حدیث سنائی اور بتایا کہ دوسرے آسمان پر آپ عیسیٰ اور یحییٰ رضی اللہ عنہ سے، تیسرے پر یوسف رضی اللہ عنہ سے اور چوتھے پر ادریس رضی اللہ عنہ سے، پانچویں پر ہارون رضی اللہ عنہ سے ملے، کہا: پھر ہم چلے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچے، میں موسیٰ رضی اللہ عنہ کےپاس پہنچا اور ان کو سلام کیا، انہوں نے کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا، جب میں ان سے آگے چلا گیا تو وہ رونے لگے، انہیں آواز دی گئی آپ کو کس بات نے رلا دیا؟ کہا: اے میرے رب! یہ نوجوان ہیں جن کو تو نے میرےبعد بھیجا ہے ان کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ گئے تو میں ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سامنے آیا۔“ اور انہوں نے حدیث میں کہا کہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ انہوں نے چار نہریں دیکھیں، ان کے منبع سے دو ظاہری نہریں نکلتی ہیں اور دو پوشیدہ نہریں۔ ”میں نے کہا: اے جبریل! یہ نہریں کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: جو دو پوشیدہ ہیں تو وہ جنت کی نہریں ہیں اور دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں، پھر بیت معمور میرے سامنے بلند کیا گیا میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کیا ہے؟ کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، جب اس سے نکل جاتے ہیں، تو اس (زمانے) کے آخر تک جو ان کے لیے ہے دوبارہ اس میں نہیں آ سکتے، پھر میرےپاس دو برتن لائے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا، دونوں میرے سامنے پیش کیے گئے تو میں نے دودھ کو پسند کیا، اس پر کہا گیا، آپ نے ٹھیک (فیصلہ) کیا، اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے سے (سب کو) صحیح (فیصلہ) تک پہنچائے، آپ کی امت (بھی) فطرت پر ہے، پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں .....“ پھر (سابقہ) حدیث کے آخر تک کا سارا واقعہ بیان کیا۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے شاید اپنی قوم کے ایک آدمی حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ میں بیت اللہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا، اس اثناء میں، میں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا: کہ تین آدمیوں میں سے دو کے درمیان والا ہے۔ پھر میرے پاس آئے اور مجھے لے جایا گیا۔ پھر میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں زمزم کا پانی تھا اور یہاں سے لے کر یہاں تک میرا سینہ کھولا گیا۔“ قتادہؒ کہتے ہیں: میں نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا اس سے کیا مراد ہے؟ اس نے کہا: پیٹ کے نیچے تک۔ (سینہ کھولا گیا) ”پھر میرا دل نکالا گیا، اور اسے زمزم کے پانی سے صاف کر کے اس کی جگہ پر دوبارہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا۔ پھر میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا، جسے براق کہا جاتا ہے۔ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، جو اپنا قدم اپنے منتہائے نظر پر رکھتا تھا۔ (جس جگہ اس کی نگاہ پڑتی تھی وہاں قدم رکھتا تھا) مجھے اس پر سوار کردیا گیا۔ پھر ہم چل دیے یہاں تک کہ ہم پہلے آسمان پر پہنچے۔ جبریل ؑ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا: (یہ دروازہ کھلوانے والا) کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: ہاں! تو ہمارے لیے اس نے دروازہ کھول دیا اور کہا مرحبا! اور وہ بہترین آمد آئے ہیں، اور ہم آدمؑ کے پاس پہنچ گئے۔“ آگے پورا واقعہ بیان کیا اور بتایا: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے آسمان پر عیسیٰؑ اور یحیی ٰ ؑ کو ملے۔ تیسرے پر یوسفؑ کو اور چوتھے پر ادریسؑ سے ملے، پانچویں پر ہارونؑ سے۔ کہا: ”پھر ہم چلے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچے، میں موسیٰؑ کے پاس پہنچا اور ان کو سلام کیا۔ انہوں نے کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا۔ جب میں ان کے آگے سے گزر گیا، تو وہ رونے لگے۔ آواز دی گئی: آپ کیوں روتے ہیں؟ کہا: اے میرے رب! یہ نوجوان جس کو تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ گئے، تو میں ابراہیمؑ تک پہنچ گیا۔“ اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: ”میں نے اس (یعنی سدرۃ المنتہیٰ) کی جڑ سے چار نہریں نکلتی دیکھیں۔ دو کھلی اور دو پوشیدہ۔ میں نے کہا: اے جبریل! یہ نہریں کیا ہیں؟ اس نے کہا باطنی (پوشیدہ) جنت کی نہریں ہیں، اور ظاہری (کھلی) نیل وفرات ہیں۔ پھر میرے سامنے بیت المعمورکیا گیا، تو میں نے پوچھا: اے جبریلؑ! یہ کیا ہے؟ کہا: یہ بیت المعمور ہے اس میں ہر روزستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، جب اس سے نکل جاتے ہیں پھر آخر تک اس میں واپس نہیں آتے۔ (ان کو دوبارہ حاضری کا موقع نہیں ملے گا) پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک شراب کا برتن اور دوسرا دودھ کا، دونوں مجھ پر پیش کیے گئے۔ میں نے دودھ کو پسند کیا تو مجھے کہا گیا: آپ نے درست کیا (فطرت کو اختیار کیا)، اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا۔ آپ کی امت فطرت پر رہے گی، یا اللہ تعالیٰ آپ کے سبب آپ کی امت کو فطرت پر پہنچائے گا (آپ کی امت بھی آپ کی اتباع میں فطرت کو اختیار کرے گی)، پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔“ پھر سارا واقعہ بیان کیا۔