اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک گھوڑا ذبح کیا پھر ہم نے اسے کھایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4411]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصید 24(5510)، 27(5519)، صحیح مسلم/الصید6(1942)، سنن ابن ماجہ/الذبائح12(3190)، (تحفة الأشراف: 15746)، مسند احمد (6/345، 346، 353)، سنن الدارمی/الأضاحی22 (2035)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 4425، 4426 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گھوڑا نحر کیے جانے والے جانوروں میں سے نہیں ہے پھر بھی آپ کے سامنے نحر کیا گیا، اس سے ذبح کیے جانے والے جانورں کو نحر کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، تو اس کے برعکس سے جائز ہو گا یعنی ذبح کئے جانے والے جانورں کو نحر بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ صرف جواز کی صورت ہے، زیادہ اچھا یہی ہے کہ نحر کئے جانے والے جانورں کو پہلے نحر ہی کیا جائے، اور پھر ذبح کیا جائے اور ذبح کئے جانے والے جانوروں کو ذبح کرنا ہی افضل ہے، (ذبح کئے جانے والے جانور جیسے: بکری، دنبہ، بھیڑ، مینڈھا، مرغی، اور نحر کئے جانے والے جانور جیسے: گائے، بیل، گھوڑا اور اونٹ) نحر میں پہلے دھاردار ہتھیار سے جانور کے سینے کے اوپری حصہ کے سوراخ میں مارا جاتا ہے، جب سارا خون نکل کر جانور ساکت ہو جاتا ہے تب گرا کر ذبح کیا جاتا ہے، نحر کے ذریعہ بڑے جانور پر آسانی سے قابو پا لیا جاتا ہے اس لیے ان کے حق میں نحر مشروع ہوا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4411
اردو حاشہ: (1) جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں انھیں نحر اور جو نحر کیے جاتے ہیں انھیں ذبح کیا جاسکتا ہے۔ (2) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑا حلال جانور ہے۔ جن لوگوں نے مکر وہ کہا ہے انھیں ٹھوکر لگی ہے، اس کی کراہت پر کوئی مستند صحیح دلیل موجود نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ الفاظ کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں اس طرح کیا، مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے۔ اسی طرح مِن السُّنَّةِ كذا ”اس طرح کرنا سنت سے ہے۔“ نیز ”ہمیں اس طرح کرنے کا حکم دیا گیا“ اور”ہمیں اس سے روکا گیا“ یا ان سے ملتے جلتے مفہوم والے دوسرے الفاظ، ان کے متعلق، محد ثین کرام رحہم اللہ کا فیصلہ یہی ہے کہ ان کا حکم مرفوع حدیث ہی کا حکم ہے۔ (3) اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے اور باقی جانوورں کو ذبح۔ ذبح کا طریقہ معروف ہے، نحر، کھڑے جانور کو گلے میں چھرا وغیرہ گھونپ کر کیا جاتا ہے۔ جب خون کافی حد تک بہہ جاتا ہے تو جانور گر پڑتا ہے، پھر اسے ذبح کر دیا جاتا ہے۔ اونٹ میں مسنون عمل نحرہی ہے، تاہم بوقت ضرورت ذبح میں بھی کوئی حرج ہیں۔ مذکورہ حدیث میں یا تو نحر ذبح کے معنیٰ میں ہے اور عرب لوگ اکثر ایک لفظ اس سے ملتے جلتے لفظ کی جگہ استعمال کر لیتے ہیں۔ یا وہ گھوڑا قوی ہو گا اور قابو نہ آتا ہو گا، اس لیے اس کے ساتھ اونٹ والا سلوک کیا گیا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4411
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4425
´ذبح کیے جانے والے جانور کو نحر کرنے کا بیان۔` اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک گھوڑا نحر کیا اور اسے کھایا۔ قتیبہ نے ( «فاکلناہ» کے بجائے) «فاکلنا لحمہ»”پھر ہم نے اس کا گوشت کھایا“ کہا۔ عبدہ بن سلیمان نے سفیان کی مخالفت کی ہے اور اسے یوں روایت کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4425]
اردو حاشہ: امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبدہ بن سلیمان نے اس روایت میں سفیان بن عیینہ کی مخالفت کی ہے۔ اگلی روایت میں اس مخالفت کی پوری وضاحت موجود ہے۔ وہ اس طرح کہ سفیان نے ہشام بن عروہ سے روایت کرتے ہوئے ذَبَحْنَا کے الفاظ بیان کیے ہیں جبکہ عبدہ بن سلیمان نے نحَرْنا کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ مزید برآں یہ بھی کہ عبدہ بن سلیمان نے وَنحن بالمدينةِ کے الفاظ بھی زیادہ بیان کیے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4425
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:324
324- سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ہم نے ایک گھوڑا ذبح کیا تھا، اور اسے کھا لیا تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:324]
فائدہ: اس حدیث سے گھوڑے کی حلت ثابت ہوتی ہے، گھوڑا حلال ہے، کیونکہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: «نحرنا فرسا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأكلناه» ”ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں گھوڑا ذبح کیا، پھر اس کو کھا لیا۔“(صحیح البخاري: 829/2، ح: 5519، صحيح مسلم: 150/2، ح: 1942)۔ (سنن نسائی 4426، وسندہ صحیح) کی روایت میں ہے: «ونحن بالمدينة، فأكلناه»”ہم اس وقت مدینہ میں تھے، پھر ہم نے اسے کھایا“۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ [701ء۔ 477ھ] یہ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: «فهذه ادل وأقوى و أثبت، و إلى ذلك صار جمهور العلماء، مالك، والشافعي، و أحـمـد، و اصحابهم، و اكثر السلف والخلف» یہ حدیث زیادہ بہتر دلیل، زیادہ قوی اور زیادہ ثابت ہے، جمہور علمائے کرام، جیسے امام مالک، امام شافعی، امام أحمد اور ان کے اصحاب رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں اور اکثر سلف و خلف کا یہی مذہب ہے۔ [تفسیر ابن کثیر: 34/ 4، بتحقيق عبدالرزاق المهدی] سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى يوم خيبر عن لحوم الحمر الأهلية، وأذن فى لحوم الخيل»”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھر یلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت فرمائی۔“(صحیح البخاری: 829/2، ح: 5520، صحيح مسلم: 150/2، ح: 1941) علامہ سندھی حنفی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: 'یہ حدیث گھوڑے کے گوشت کے حلال ہونے پر دلالت کرتی ہے، جمہور کا یہی مذہب ہے۔“[ حاشية السـنـدى على سنن النسائي: 201/7] امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «رايت أصـحـاب المسجد، أصحاب ابن الزبير ياكلون الفرس والبرذون قال: و أخبرني أبو الزبير أنه سمع جابر بن عبدالله يقول: أكلنا زمن خيبر الخيل و حمير الوحش، و نهانا النبى صلى الله عليه وسلم عـن أكل الحمار» ۔ ”میں نے اس مسجد والوں، یعنی (صحابی رسول) سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اصحاب کو دیکھا ہے کہ وہ عربی اور نجی گھوڑا کھاتے تھے، نیز مجھے ابوالزبیر نے بتایا کہ انہوں نے سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ ہم خیبر کے زمانے میں گھوڑے اور وحشی (جنگلی) گدھے کھاتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گھر یلو گدھوں کو کھانے سے منع فرمایا تھا۔“(مصنف عبدالرزاق: 8837، وسـنـده صـحـيـح، صـحـيـح مسلم: 150/ 2، ح: 1941) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر یلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت کو کھانے کا فرمایا۔ (الـمـعـجـم الـكـبيـر للطبرانی: 1282، سـنـن الـدار قطنی: 290/ 1، 1941، وسندہ حسن) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو”قوی“ کہا: ہے۔ [فتح الباری لابن حجر: 1650/9] حافظ ھیثمی رحمہ للہ لکھتے ہیں: اس کے سارے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں، سوائے محمد بن عبید الحار بی کے اور وہ ثقہ ہے۔ [مجمع الزاوائد: 147/5] اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: «كان لنا فرس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارادت أن تموت، فذبحناها، فاكلناها»”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہمارا ایک گھوڑا تھا، وہ مرنے لگا تو ہم نے اسے ذبح کر لیا، پھر اس کو کھا لیا۔“(سـنـن الـدار قطنی: 289/4، ح: 3739، وسنده حسن) اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: «ذبحنا فرسا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأكلنا نحن و أهل بيته»”ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا، پھر ہم نے بھی اسے کھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت نے بھی“[سنن الدار قطني: 289/4 ح: 3741 حسن] امام ابراہیم بن یزیدنخعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں «نـحـر أصحاب عبدالله فرسا، فقسموه بينهم» سیدنا عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے شاگردوں نے گھوڑا ذبح کیا، پھر اسے آپس میں تقسیم کر لیا۔ (مصنف ابن ابي شيبة: 256/8، وسندہ صحیح) نیز فرماتے ہیں: «إن الأسود أكل لحم الفرس»”امام اسود بن یزید تابعی رحمہ اللہ نے گھوڑے کا گوشت کھایا۔“[مصنف ابن ابي شيبة: 256/8، وسنده صحيح ] امام حکم بن عتیبہ بیان کرتے ہیں: «إن شريحا أكل لحم فرس» امام شریح رحمہ اللہ نے گھوڑے کا گوشت کھایا۔ [مصنف ابن ابی شيبة: 256/8، وسنده صحيح] عبداللہ بن عون کہتے ہیں: «سالت محمد عن لحوم الخيل، فلم يربها بأسا»”میں نے امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ سے گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا۔ (مصنف ابن ابي شيبة: 25/8، وسنده صحیح) امام حسن بصریرحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”گھوڑے کے گوشت کو کھانے میں کوئی حرج نہیں۔“[مصنف ابن ابی شيبة: 257/8، وسنده صحيح] ان صحیح احادیث و آثار سے ثابت ہوا کہ گھوڑا حلال ہے۔ ان احادیث کے بارے میں: امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ (238 - 321ھ) کا ارشاد بھی سن لیں: «فذهب قوم إلى هذه الآثار، فأجازوا أكل لحوم الخيل، و مـمـن ذهـب إلـى ذلك أبو يوسف و محمد رحمهما الله، و احتجوا بذلك بتواتر الآثار فى ذلك و تظاهرها، ولو كان ذلك مأخوذا من طريق النظر لما كان بين الخيل الأهلية فرق، و لكن الآثار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صحت و تواترت أولى أن يقال بها من النظر، ولا سيما إذ قد أخبر جابر بن عبدالله رضعه فى حديث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اباح لهم لحوم الخيل فى وقت منعه إياهم من لحوم الحمر الأهلية، فدل ذلك على اختلاف حكم لحومهما»”ایک گروہ کا مذہب ان آثار کے مطابق ہے، لہٰذا انہوں نے گھوڑوں کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے، ان لوگوں میں سے ابویوسف اور محمد بن حسن الشیبانی رحمها اللہ بھی ہیں، ان لوگوں نے ان آثار کے متواتر ومتظاہر ہونے کی وجہ سے استدلال کیا ہے، اگر یہ معامله عقل و قیاس سے طے کیا گیا ہوتا تو گھر یلو گھوڑوں اور گھریلو گدھوں میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ لیکن رسول اللہ سیڈ کی احادیث جب صحیح ثابت ہو جائیں اور تواتر کو پہنچ جائیں تو قیاس کرنے سے ان پر عمل کرنا اولٰی ہے، خصوصاً جب سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث میں بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے گھوڑے کے گوشت کو اسی وقت حلال قرار دیا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر یلو گدھے کے گوشت سے منع کیا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ ان دونوں کے گوشت میں فرق ہے۔ [شرح معاني الآثار للطحاوي 210/4] ? الحاصل:۔۔۔۔۔۔ گھوڑا حلال ہے، کیونکہ اس کے حرام ہونے پر قرآن وحدیث میں کوئی ثبوت نہیں، اس کے برعکس اس کی حلت پر قومی احادیث موجود ہیں۔ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: ”گھوڑے کا کھانا جائز ہے، لیکن بہتر نہیں۔“ بہشتی زیور از تھانوی: حصہ سوم صفحہ نمبر 56، مسئلہ نمبر 12 جناب مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی صاحب ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: سوال۔۔۔۔۔۔ کن جانوروں کا جوٹھا پانی پاک ہے؟ جواب۔۔۔۔ آدی اور حلال جانوروں کا جوٹھا پانی پاک ہے، جیسے گائے، بکری، کبوتر، گھوڑا! تعلیم الاسلام از کفایت اللہ: 36 ] (گھوڑا حلال ہے از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظ اللہ تعالیٰ سے ماخوذ)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 324