وضاحت: ۱؎: موت پر بیعت کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ موت اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی مومن کے لیے جائز ہے کہ جان بوجھ کر اپنی جان دیدے۔ ہاں جنگ سے نہ بھاگنا ہر ایک کے اپنے اختیار کی بات ہے اس لیے آپ سے لوگوں نے میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر خاص طور سے بیعت کی (نیز دیکھئیے اگلی حدیث اور اس کا حاشیہ)۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4163
اردو حاشہ: موت پر بیعت کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہم ثابت قدم رہیں گے‘ بھاگیں گے نہیں، خواہ موت والے حالات پیدا ہو جائیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ ہم نے بیعت کرتے وقت یہ نہیں کہا تھا کہ اگر چہ مرجائیں۔ صرف یہ کہا تھا کہ بھاگیں گے نہیں۔ ویسے مفہوم اور نتیجے میں کوئی فرق نہیں۔ عض لوگوں نے موت کا لفظ بھی بولا ہے کہ بھاگیں گے نہیں‘ خواہ موت بھی آجائے جیسا کہ آئندہ روایت میں اس کی صراحت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4163
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1591
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیعت کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے آیت کریمہ: «لقد رضي الله عن المؤمنين إذ يبايعونك تحت الشجرة»”اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے۔“(الفتح: ۱۸) کے بارے میں روایت ہے، جابر کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرار نہ ہونے کی بیعت کی تھی، ہم نے آپ سے موت کے اوپر بیعت نہیں کی تھی۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1591]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ”اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپﷺ سے بیعت کر رہے تھے۔ “(الفتح: 18)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1591