عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر اس سے صحبت کر بیٹھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا لیکن میں کفارہ ادا کیے بغیر اس سے جماع کر بیٹھا۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے، ایسا کر گزرنے پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا ہے“؟ اس نے کہا: چاند کی چاندنی میں میں نے اس کی پازیب دیکھی (تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس سے جماع کر بیٹھا) آپ نے فرمایا: ”(اچھا اب) اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ وہ نہ کر لو جس کا اللہ نے (ایسے موقع پر کرنے کا) حکم دیا ہے (یعنی کفارہ ادا کر دو)“۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3487]
وضاحت: ۱؎: یعنی مرد کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ ۲؎: ظہار کا کفارہ یہ ہے: ایک مؤمن غلام آزاد کرنا اگر اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3487
اردو حاشہ: (1)”ظہار“ سے مراد ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پشت۔ مقصود عورت کو حرام کرنا ہوتا ہے۔ اس کا کفارہ ایک غلام کو آزاد کرنا ہے۔ اگر طاقت نہ ہو تو دوماہ کے پے در پے روزے رکھے۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ کفارے کی ادائیگی تک جماع کرنا حرام ہے۔ اگر ماں کے سوا بہن‘ بیٹی یا کسی اور محرم عورت سے تشبیہ دے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ (2)”وہ کام کرے“ یعنی کفارہ ادا کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3487