مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1205
1205. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ لوگ پیر کے دن نماز فجر میں مشغول تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ انہیں نماز پڑھا رہے تھے۔ اچانک نبی ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے سے پردہ اٹھایا اور لوگوں کی طرف دیکھا جبکہ وہ نماز میں صف بستہ تھے۔ آپ مسکراتے ہوئے ہنسے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابوبکر ؓ اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے واپس ہوئے اور یہ خیال کیا کہ شاید رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں نے جب نبی ﷺ کو دیکھا تو اس قدر خوش ہوئے کہ نماز ہی کو توڑ ڈالنے کا ارادہ کر لیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا کہ نماز کو پورا کرو، پھر حجرے میں تشریف لے گئے اور پردہ لٹکا دیا اور اس روز اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1205]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اب بھی کوئی خاص موقع اگر اس قسم کا آجائے کہ امام کو پیچھے کی طرف ہٹنا پڑے یا کوئی حادثہ ہی ایسا داعی ہو تو اس طرح سے نماز میں نقص نہ آئے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1205
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4448
4448. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، دریں اثنا کہ مسلمان سوموار کے دن نماز فجر میں تھے اور ابوبکر ؓ انہیں نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ ظاہر ہوئے۔ آپ نے سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرام ؓ کی طرف دیکھا جبکہ وہ دورانِ نماز میں صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ مسکراتے ہوئے ہنس پڑے تو حضرت ابوبکر ؓ نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹنا شروع کیا تاکہ صف میں شامل ہو جائیں، انہوں نے خیال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: قریب تھا کہ صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں نماز ہی توڑ دیتے، تاہم آپ نے ان کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا کہ تم اپنی نماز پوری کرو۔ پھر آپ حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ لٹکایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4448]
حدیث حاشیہ:
یہ حیات مبارکہ کے آخری دن دوشنبہ کی فجر کی نماز تھی، تھوڑی دیر تک آ پ اس نماز باجماعت کے پاک مظاہرہ کو ملاحظہ فرماتے رہے، جس سے رخ انور پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
اس وقت وجہ مبارک ورق قر آن معلوم ہورہا تھا۔
اس کے بعد حضور ﷺ پر دنیا میں کسی دوسری نماز کاقت نہیں آیا۔
اسی موقع پر آپ نے حاضرین کو باربار تاکید فرمائی تھی الصلوٰة الصلوٰة وما ملکت أیمانکم یہی آپ کی آخری وصیت تھی جسے آپ نے کئی بار دہرایا، پھر نزع کا عالم طاری ہوگیا۔
(ﷺ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4448
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 754
754. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک دن مسلمان نماز فجر میں مشغول تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ سامنے آ گئے۔ آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور مسلمانوں کی طرف دیکھا جبکہ اس وقت وہ نماز میں صف بستہ تھے۔ آپ ﷺ خوشی کے باعث مسکرانے لگے۔ حضرت ابوبکر ؓ اپنے الٹے پاؤں پیچھے ہٹنے لگے تاکہ خود صف میں شامل ہو جائیں کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ آپ باہر تشریف لانا چاہتے ہیں۔ اور مسلمانوں نے قصد کر لیا کہ مارے خوشی کے اپنی نماز توڑ دیں لیکن آپ نے انہیں اشارہ فرمایا کہ تم اپنی نماز کو پورا کرو، پھر آپ نے پردہ نیچے کر دیا اور اسی دن کے آخری حصے میں آپ کی وفات ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:754]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب یوں نکلا کہ صحابہ نے عین نماز میں التفات کیا۔
کیونکہ اگروہ التفات نہ کرتے تو آپ کا پردہ اٹھانا کیونکر دیکھتے اور ان کا اشارہ کیسے سمجھتے۔
بلکہ خوشی کے مارے حال یہ ہوا کہ قریب تھا کہ وہ نماز کو بھول جائیں اور آنحضرت ﷺ کے دیدار کے لیے دوڑیں۔
اسی حالت کو ان لفظوں سے تعبیر کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے یہ قصد کیا کہ وہ فتنے میں پڑ جائیں۔
بہرحال یہ مخصوص حالات ہیں۔
ورنہ عام طور پر نماز میں التفات جائز نہیں، جیسا کہ حدیث سابقہ میں گزرا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری ہے:
﴿وقوموا للہ قٰنتین﴾ (البقرة: 238)
یعنی نماز میں اللہ کے لیے دلی توجہ کے ساتھ فرماں بردار بندے بن کر کھڑے ہوا کرو۔
نماز کی روح یہی ہے کہ اللہ کو حاضر ناظر یقین کر کے اس سے دل لگایا جائے۔
آیت شریفہ ﴿الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴾ (المومنون: 2)
کا یہی تقاضا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 754
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:680
680. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جو نبی ﷺ کے پیروکار، خدمت گزار اور صحبت دار ہیں، انہوں نے فرمایا: حضرت ابوبکر صدق ؓ نبی ﷺ کے مرض وفات میں لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز کے لیے صف بستہ تھے تو نبی ﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف دیکھنے لگے۔ اس وقت آپ کا چہرہ (حسن و جمال اور رعنائی و زیبائی میں) گویا مصحف کا ورق تھا۔ پھر آپ بشاشت کے ساتھ مسکرائے تو ہم لوگوں کو انتہائی خوشی ہوئی، اندیشہ تھا کہ ہم نبی ﷺ کو دیکھتے دیکھتے نماز سے غافل ہو جائیں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ الٹے پاؤں لوٹنے لگے تاکہ لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ وہ سمجھے کہ نبی ﷺ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا اور اسی دن آپ نے وفات پائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:680]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نماز پڑھانے کے لیے آپ کے جانشین رہے۔
یہی امام بخاری ؒ کا مقصود ہے کہ اہل علم وفضل ہی امامت کے زیادہ حق دار ہیں۔
واضح رہے کہ شیعہ حضرات کا یہ پرو پیگنڈا غلط ہے کہ آخری وقت رسول اللہ ﷺ نے خود برآمد ہوکر ابوبکر صدیق ؓ کو امامت سے معزول کردیا تھا۔
(شرح الکرماني: 5/63)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے رخ زیبا کو ورق قرآن سے تشبیہ دی گئی ہے۔
یہ بڑی عجیب اور پاکیزہ تشبیہ ہے کیونکہ ورق قرآن پر طلائی کا کام ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ تاباں پر زردئ مرض تھی، اس بنا پر تابانی اور رنگ مرض میں طلا سے اور تقدس اور پاکیزگی میں قرآن پاک سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(2)
پیر کو نماز صبح کے وقت وہ پردہ اٹھایا جو بیت عائشہ ؓ اور مسجد طیبہ کے درمیان پڑتا تھا۔
اس وقت نماز ہورہی تھی۔
یہ نماز سیدنا ابو بکر صدیق ؓ ہی نے مکمل فرمائی۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4448)
حافظ ابن حجر ؒ نے مغازی موسیٰ بن عقبہ ؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت سیدنا ابوبکر ؓ کے پیچھے ادا کی۔
(فتح الباري: 218/2)
ممکن ہے کہ پردے کہ پاس بیٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اقتدا میں وہ رکعت ادا کی ہو۔
اسی دن جب سورج طلوع ہوا تو حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر ؓ آ گئے، ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے مسواک پر نظر ڈالی تو صدیقۂ کائنات نے ان سے لے کر اپنے دانتوں سے مسواک کو نرم کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی طرح استعمال فرمایا۔
پھر اپنے ہاتھ کو بلند کیا اور فرمایا:
”اے اللہ! مجھے بلند وبالا رفاقت درکار ہے۔
“ اسی وقت ہاتھ لٹک گیا اور آپ نے اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کردی۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4449)
إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 680
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:681
681. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایام علالت میں تین دن تک باہر تشریف نہ لا سکے۔ پھر ایک دن نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور حضرت ابوبکر ؓ جماعت کے لیے پیش قدمی کرنے کو تھے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے (حجرے کا) پردہ اٹھایا۔ آپ کا رخ زیبا دکھائی دیا۔ یقیناً آپ کے روئے انور سے بڑھ کر حسین و جمیل منظر ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو نماز کے لیے آگے بڑھنے کو کہا اور پردہ گرا دیا۔ اس کے بعد کوئی بھی آپ کو نہ دیکھ سکا حتی کہ آپ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ (إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) [صحيح بخاري، حديث نمبر:681]
حدیث حاشیہ:
بدھ کے دن رسول اللہ ﷺ سیدہ عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور بڑے ٹب میں بیٹھ کر پانی کی سات مشکیں سر پر ڈالیں، کچھ سکون ہوا تو مسجد میں آ گئے، نماز پڑھائی اور خطبہ دیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4449)
جمعرات کے دن بیماری نے شدت اختیار کر لی، اسی حالت میں آپ نے فرمایا:
”لاؤ میں تمھیں کچھ لکھوا دوں تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔
“ اسی روز آپ نے تین وصیتیں فرمائیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4431)
اسی دن آپ نے نماز مغرب پڑھائی جس میں سورۃ المرسلات کی تلاوت فرمائی۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4429)
اسی دن نماز عشاء کے لیے آپ نے تین مرتبہ مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا لیکن غسل کرنے کے بعد جب بھی اٹھنے کا ارادہ فرماتے تو بے ہوش ہو جاتے، بالآخر آپ نے فرمایا:
”ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائے۔
“ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687)
چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کی زندگی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔
ہفتہ یا اتوار کے دن حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لائے جبکہ ظہر کی نماز کھڑی ہوچکی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔
(صحیح البخاري، حدیث: 687)
اگلے دن صبح کی نماز کے وقت پردہ اٹھایا، اس وقت نماز ہورہی تھی۔
تھوڑی دیر تک اس نظارۂ پاک کو ملاحظہ فرمایا جو آپ کی تعلیم کا نتیجہ تھا۔
اس نظارے سے رخ انور پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
آخر کار نزع کی حالت شروع ہوئی۔
پانی کا پیالہ آپ کے سرہانے رکھا ہوا تھا۔
آپ اس میں ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ مبارک پر پھیر لیتے۔
اس دوران میں زبان مبارک سے فرماتے:
”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، موت میں تلخی ہوا ہی کرتی ہے۔
“ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4449)
آخر کار بارہ ربیع الاول 11 ہجری بروز پیر بوقت چاشت جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کی۔
اس وقت آپ ﷺ کی عمر 63 سال 4 دن تھی۔
خطبے کے متعلق درج ذیل حدیث ہے:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں ہماری طرف نکلے، چادر لپیٹے ہوئے اور سر پر کالی پٹی باندھے ہوئے تھے حتی کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے، اللہ کی حمد وثنا کی اور انصار کے متعلق خطبہ دیا۔
یہ رسول اللہ ﷺ کی منبر پر آخری مجلس تھی۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3628)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 681
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:754
754. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک دن مسلمان نماز فجر میں مشغول تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ سامنے آ گئے۔ آپ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور مسلمانوں کی طرف دیکھا جبکہ اس وقت وہ نماز میں صف بستہ تھے۔ آپ ﷺ خوشی کے باعث مسکرانے لگے۔ حضرت ابوبکر ؓ اپنے الٹے پاؤں پیچھے ہٹنے لگے تاکہ خود صف میں شامل ہو جائیں کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ آپ باہر تشریف لانا چاہتے ہیں۔ اور مسلمانوں نے قصد کر لیا کہ مارے خوشی کے اپنی نماز توڑ دیں لیکن آپ نے انہیں اشارہ فرمایا کہ تم اپنی نماز کو پورا کرو، پھر آپ نے پردہ نیچے کر دیا اور اسی دن کے آخری حصے میں آپ کی وفات ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:754]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ نمازکی حالت میں اگر کوئی نئی خاص بات آجائے تو دوران نماز میں اس کی رعایت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس میں کوئی ایسا عمل نہ کرنا پڑے جو نماز کے منافی ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو الٹے پاؤں پیچھے ہٹ گئے تاکہ خود صف میں شامل ہوجائیں اور آپ کے لیے امامت کی جگہ خالی کردیں، اس طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی التفات کرکے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا،پھر انھوں نے آپ کے اشارے کو بھی ملاحظہ کیا۔
(فتح الباري: 306/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 754
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1205
1205. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ لوگ پیر کے دن نماز فجر میں مشغول تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ انہیں نماز پڑھا رہے تھے۔ اچانک نبی ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے سے پردہ اٹھایا اور لوگوں کی طرف دیکھا جبکہ وہ نماز میں صف بستہ تھے۔ آپ مسکراتے ہوئے ہنسے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابوبکر ؓ اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے واپس ہوئے اور یہ خیال کیا کہ شاید رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں نے جب نبی ﷺ کو دیکھا تو اس قدر خوش ہوئے کہ نماز ہی کو توڑ ڈالنے کا ارادہ کر لیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا کہ نماز کو پورا کرو، پھر حجرے میں تشریف لے گئے اور پردہ لٹکا دیا اور اس روز اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1205]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی حادثے کی وجہ سے دوران نماز میں پیچھے ہٹنے یا آگے بڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر پہلے پیچھے ہٹے، پھر آپ کا اشارہ ملا تو آگے بڑھ کر نماز کو پورا کیا، لیکن یہ عمل کثیر تعداد میں نہیں ہونا چاہیے۔
جیسا کہ حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات نماز پڑھ رہے ہوتے اور دروازہ بند ہوتا میں اسے کھٹکھٹاتی تو آپ چل کر دروارہ کھولتے، پھر اپنی نماز گاہ کی طرف لوٹ جاتے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 922)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1205
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4448
4448. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، دریں اثنا کہ مسلمان سوموار کے دن نماز فجر میں تھے اور ابوبکر ؓ انہیں نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ ظاہر ہوئے۔ آپ نے سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرام ؓ کی طرف دیکھا جبکہ وہ دورانِ نماز میں صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ مسکراتے ہوئے ہنس پڑے تو حضرت ابوبکر ؓ نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹنا شروع کیا تاکہ صف میں شامل ہو جائیں، انہوں نے خیال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: قریب تھا کہ صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں نماز ہی توڑ دیتے، تاہم آپ نے ان کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا کہ تم اپنی نماز پوری کرو۔ پھر آپ حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ لٹکایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4448]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری دن سوموارکی نماز فجر کا واقعہ جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔
آپ نے جب مسلمانوں کو نماز میں مصروف پایا اور تھوڑی دیر آپ نے نماز باجماعت کی ادائیگی کو ملا خظہ فرمایا۔
تو رخ انوارر پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ نمایاں ہوئی۔
ایک روایت میں ہے کہ اس وقت چہرہ مبارک چمک کی وجہ سے ورق قرآن معلوم ہو رہا تھا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 680)
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر اس عالم رنگ وبو میں کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے حاضرین کو نمازکی بار بار تائید فرمائی چنانچہ آکی آخری وصیت یہ تھی کہ نمازادا کرتے رہنا اور اپنے زیر دست لوگوں سے حسن سلوک کرنا۔
آپ نے اس وصیت کو بار بار دہرایا۔
2۔
عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس کے بعد آپ پر نزع کا عالم طاری ہو گیا۔
جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 754)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4448