ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے عقیل بن خالد سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں) مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ سے پردہ ہٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دیکھا۔ سب لوگ صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خوشی سے) خوب کھل کر مسکرائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ صف میں مل جائیں۔ آپ نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ صحابہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر خوشی سے اس قدر بےقرار ہوئے کہ گویا) نماز ہی چھوڑ دیں گے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور پردہ ڈال لیا۔ اسی دن چاشت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 754]
لم يخرج النبي ثلاثا فأقيمت الصلاة فذهب أبو بكر يتقدم فقال نبي الله بالحجاب فرفعه فلما وضح وجه النبي ما نظرنا منظرا كان أعجب إلينا من وجه النبي حين وضح لنا فأومأ النبي صلى الله علي
أبا بكر كان يصلي لهم في وجع النبي الذي توفي فيه حتى إذا كان يوم الاثنين وهم صفوف في الصلاة فكشف النبي ستر الحجرة ينظر إلينا وهو قائم كأن وجهه ورقة مصحف ثم تبسم يضحك فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبي صلى الله عليه و
نظر إليهم وهم في صفوف الصلاة ثم تبسم يضحك فنكص أبو بكر على عقبيه ليصل الصف وظن أن رسول الله يريد أن يخرج إلى الصلاة فقال أنس وهم المسلمون أن يفتتنوا في صلاتهم فرحا برسول الله فأشار إليهم بيده رسول الله صلى الله عليه و
بينما المسلمون في صلاة الفجر لم يفجأهم إلا رسول الله كشف ستر حجرة عائشة فنظر إليهم وهم صفوف فتبسم يضحك ونكص أبو بكر على عقبيه ليصل له الصف فظن أنه يريد الخروج وهم المسلمون أن يفتتنوا في صلاتهم فأشار إليهم أتموا صلاتكم فأرخى
كشف ستر حجرة عائشة ا فنظر إليهم وهم صفوف فتبسم يضحك فنكص أبو بكر على عقبيه وظن أن رسول الله يريد أن يخرج إلى الصلاة وهم المسلمون أن يفتتنوا في صلاتهم فرحا بالنبي حين رأوه فأشار بيده أن أتموا ث
أبا بكر كان يصلي لهم في وجع رسول الله الذي توفي فيه حتى إذا كان يوم الاثنين وهم صفوف في الصلاة كشف رسول الله ستر الحجرة فنظر إلينا وهو قائم كأن وجهه ورقة مصحف ثم تبسم رسول الله ضاحكا قال فبهتنا ونحن
لم يخرج إلينا نبي الله ثلاثا فأقيمت الصلاة فذهب أبو بكر يتقدم فقال نبي الله بالحجاب فرفعه فلما وضح لنا وجه نبي الله ما نظرنا منظرا قط كان أعجب إلينا من وجه النبي حين وضح لنا قال ف
آخر نظرة نظرتها إلى رسول الله كشف الستارة والناس صفوف خلف أبي بكر فأراد أبو بكر أن يرتد فأشار إليهم أن امكثوا وألقى السجف وتوفي من آخر ذلك اليوم وذلك يوم الاثنين
آخر نظرة نظرتها إلى رسول الله كشف الستارة يوم الاثنين فنظرت إلى وجهه كأنه ورقة مصحف والناس خلف أبي بكر في الصلاة فأراد أن يتحرك فأشار إليه أن اثبت وألقى السجف ومات من آخر ذلك اليوم
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 754
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب یوں نکلا کہ صحابہ نے عین نماز میں التفات کیا۔ کیونکہ اگروہ التفات نہ کرتے تو آپ کا پردہ اٹھانا کیونکر دیکھتے اور ان کا اشارہ کیسے سمجھتے۔ بلکہ خوشی کے مارے حال یہ ہوا کہ قریب تھا کہ وہ نماز کو بھول جائیں اور آنحضرت ﷺ کے دیدار کے لیے دوڑیں۔ اسی حالت کو ان لفظوں سے تعبیر کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے یہ قصد کیا کہ وہ فتنے میں پڑ جائیں۔ بہرحال یہ مخصوص حالات ہیں۔ ورنہ عام طور پر نماز میں التفات جائز نہیں، جیسا کہ حدیث سابقہ میں گزرا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے: ﴿وقوموا للہ قٰنتین﴾(البقرة: 238) یعنی نماز میں اللہ کے لیے دلی توجہ کے ساتھ فرماں بردار بندے بن کر کھڑے ہوا کرو۔ نماز کی روح یہی ہے کہ اللہ کو حاضر ناظر یقین کر کے اس سے دل لگایا جائے۔ آیت شریفہ ﴿الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴾(المومنون: 2) کا یہی تقاضا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 754
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:754
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ نمازکی حالت میں اگر کوئی نئی خاص بات آجائے تو دوران نماز میں اس کی رعایت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس میں کوئی ایسا عمل نہ کرنا پڑے جو نماز کے منافی ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو الٹے پاؤں پیچھے ہٹ گئے تاکہ خود صف میں شامل ہوجائیں اور آپ کے لیے امامت کی جگہ خالی کردیں، اس طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی التفات کرکے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا،پھر انھوں نے آپ کے اشارے کو بھی ملاحظہ کیا۔ (فتح الباري: 306/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 754
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1832
´دوشنبہ (سوموار) کے دن مرنے کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری دیدار اس وقت کیا تھا (جب) آپ نے (حجرے کا) پردہ اٹھایا، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صف باندھے (کھڑے تھے)، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنا چاہا تو آپ نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، اور پردہ گرا دیا (پھر) آپ اسی دن کے آخری (حصہ میں) انتقال فرما گئے، اور یہ دوشنبہ کا دن تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1832]
1832۔ اردو حاشیہ: ➊ محبوب رب کریم کے چہرۂ انور کی (حالت زندگی میں) آخری زیارت صحابۂ کرام ری اللہ عنہم کے لیے یادگار بن گئی جسے وہ محبت اور افسوس کے ملے جلے جذبات سے یاد کرتے رہے۔ کس قدر سعادت سے بہرہ ور تھے وہ لوگ جنھیں یہ نادر موقع نصیب ہوا۔ ➋ مومن کے لیے سواموار کی وفات کی خواہش اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کی نشانی ہے۔ ➌ ضرورت کے تحت دروازوں پر پردے لٹکائے جا سکتے ہیں۔ ➍ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا امامت کے لیے تقرر آپ کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1832
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1624
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری دیدار مجھے دوشنبہ کے دن ہوا، آپ نے (اپنے حجرہ کا) پردہ اٹھایا، میں نے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا، تو گویا مصحف کا ایک ورق تھا، لوگ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی جگہ سے ہٹنے کا ارادہ کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، اور پردہ گرا دیا، پھر اسی دن کی شام کو آپ کا انتقال ہو گیا ۱؎۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1624]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے اقدس کو ورق سے تشبیہ دی کیونکہ بیماری اور کمزوری کی وجہ سے چہرے پر سرخی کی بجائے زردی اور سفیدی غالب تھی۔ مصحف کا ورق اس لئے فرمایا کہ قرآن مجید کا ورق مومنوں کے دلوں میں محبت، احترام اورعقیدت کا حامل ہوتا ہے۔ اور رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک بھی ان صفات سے متصف تھا۔
(2) علمائے سیرت کے مشہور قول کے مطابق رسول اللہﷺ کی وفات چاشت (ضحیٰ) کے وقت یعنی دوپہر سے پہلے ہوئی دیکھئے: (الرحیق المختوم، ص: 630) رسول اللہﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد نبوی میں سترہ نمازیں پڑھائی تھیں۔ (الرحیق ا لمختوم، ص: 627)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1624
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1222
1222- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زیارت میں نے اس وقت کی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کے دن پردہ ہٹایا تھا لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں بناکر نماز ادا کر رہے تھے ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ حرکت کرنے لگے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ تم لوگ اپنی جگہ پر رہو، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا، تو وہ یوں تھا جیسے وہ قرآن مجید کا کوئی ورق ہوتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اسی دن کے آخری حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1222]
فائدہ: اس حدیث میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ اول بلا فصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بنانا چاہتے تھے، اس لیے بذات خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی اپنے مصلے پر نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ نیز اس پر مسند ابی بکر میں مفصل بحث گزر چکی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1220
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 947
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ (بیماری کے ایام میں) تین دن ہمارے پاس تشریف نہیں لائے (ان ہی دنوں میں) ایک دن نماز کھڑی کی گئی، ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ آگے بڑھنے لگے، نبی اکرم ﷺ نے (حجرہ مبارک کا) پردہ اٹھایا، جب ہمارے سامنے نبی اکرم ﷺ کا رخ انور ظاہر ہوا، آپﷺ کے روئے (چہرے) مبارک سے زیادہ حسین و پسندیدہ منظر ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر آپﷺ نے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ہاتھ کے اشارہ سے آگے بڑھنے کے لیے فرمایا اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:947]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ نے سوموار کی صبح کی نماز ابوبکر ؓ کے پیچھے نہیں پڑھی، اگرآپﷺ دوسری رکعت بعد میں ادا فرماتے تو یقیناً حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کو دیکھ لیتے اور یہ نہ کہتے۔ (فَلَمْ نَقْدِرْ عَلَيْهِ حَتَّى مَاتَ) ہم آپﷺ کو موت تک نہ دیکھ سکے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپﷺ وفات پا چکے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 947
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1205
1205. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ لوگ پیر کے دن نماز فجر میں مشغول تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ انہیں نماز پڑھا رہے تھے۔ اچانک نبی ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے سے پردہ اٹھایا اور لوگوں کی طرف دیکھا جبکہ وہ نماز میں صف بستہ تھے۔ آپ مسکراتے ہوئے ہنسے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابوبکر ؓ اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے واپس ہوئے اور یہ خیال کیا کہ شاید رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں نے جب نبی ﷺ کو دیکھا تو اس قدر خوش ہوئے کہ نماز ہی کو توڑ ڈالنے کا ارادہ کر لیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا کہ نماز کو پورا کرو، پھر حجرے میں تشریف لے گئے اور پردہ لٹکا دیا اور اس روز اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1205]
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اب بھی کوئی خاص موقع اگر اس قسم کا آجائے کہ امام کو پیچھے کی طرف ہٹنا پڑے یا کوئی حادثہ ہی ایسا داعی ہو تو اس طرح سے نماز میں نقص نہ آئے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1205
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4448
4448. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، دریں اثنا کہ مسلمان سوموار کے دن نماز فجر میں تھے اور ابوبکر ؓ انہیں نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ ظاہر ہوئے۔ آپ نے سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرام ؓ کی طرف دیکھا جبکہ وہ دورانِ نماز میں صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ مسکراتے ہوئے ہنس پڑے تو حضرت ابوبکر ؓ نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹنا شروع کیا تاکہ صف میں شامل ہو جائیں، انہوں نے خیال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: قریب تھا کہ صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں نماز ہی توڑ دیتے، تاہم آپ نے ان کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا کہ تم اپنی نماز پوری کرو۔ پھر آپ حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ لٹکایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4448]
حدیث حاشیہ: یہ حیات مبارکہ کے آخری دن دوشنبہ کی فجر کی نماز تھی، تھوڑی دیر تک آ پ اس نماز باجماعت کے پاک مظاہرہ کو ملاحظہ فرماتے رہے، جس سے رخ انور پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس وقت وجہ مبارک ورق قر آن معلوم ہورہا تھا۔ اس کے بعد حضور ﷺ پر دنیا میں کسی دوسری نماز کاقت نہیں آیا۔ اسی موقع پر آپ نے حاضرین کو باربار تاکید فرمائی تھی الصلوٰة الصلوٰة وما ملکت أیمانکم یہی آپ کی آخری وصیت تھی جسے آپ نے کئی بار دہرایا، پھر نزع کا عالم طاری ہوگیا۔ (ﷺ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4448
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:680
680. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جو نبی ﷺ کے پیروکار، خدمت گزار اور صحبت دار ہیں، انہوں نے فرمایا: حضرت ابوبکر صدق ؓ نبی ﷺ کے مرض وفات میں لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز کے لیے صف بستہ تھے تو نبی ﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف دیکھنے لگے۔ اس وقت آپ کا چہرہ (حسن و جمال اور رعنائی و زیبائی میں) گویا مصحف کا ورق تھا۔ پھر آپ بشاشت کے ساتھ مسکرائے تو ہم لوگوں کو انتہائی خوشی ہوئی، اندیشہ تھا کہ ہم نبی ﷺ کو دیکھتے دیکھتے نماز سے غافل ہو جائیں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ الٹے پاؤں لوٹنے لگے تاکہ لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ وہ سمجھے کہ نبی ﷺ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا اور اسی دن آپ نے وفات پائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:680]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نماز پڑھانے کے لیے آپ کے جانشین رہے۔ یہی امام بخاری ؒ کا مقصود ہے کہ اہل علم وفضل ہی امامت کے زیادہ حق دار ہیں۔ واضح رہے کہ شیعہ حضرات کا یہ پرو پیگنڈا غلط ہے کہ آخری وقت رسول اللہ ﷺ نے خود برآمد ہوکر ابوبکر صدیق ؓ کو امامت سے معزول کردیا تھا۔ (شرح الکرماني: 5/63) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے رخ زیبا کو ورق قرآن سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ بڑی عجیب اور پاکیزہ تشبیہ ہے کیونکہ ورق قرآن پر طلائی کا کام ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ تاباں پر زردئ مرض تھی، اس بنا پر تابانی اور رنگ مرض میں طلا سے اور تقدس اور پاکیزگی میں قرآن پاک سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (2) پیر کو نماز صبح کے وقت وہ پردہ اٹھایا جو بیت عائشہ ؓ اور مسجد طیبہ کے درمیان پڑتا تھا۔ اس وقت نماز ہورہی تھی۔ یہ نماز سیدنا ابو بکر صدیق ؓ ہی نے مکمل فرمائی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4448) حافظ ابن حجر ؒ نے مغازی موسیٰ بن عقبہ ؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت سیدنا ابوبکر ؓ کے پیچھے ادا کی۔ (فتح الباري: 218/2) ممکن ہے کہ پردے کہ پاس بیٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اقتدا میں وہ رکعت ادا کی ہو۔ اسی دن جب سورج طلوع ہوا تو حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر ؓ آ گئے، ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مسواک پر نظر ڈالی تو صدیقۂ کائنات نے ان سے لے کر اپنے دانتوں سے مسواک کو نرم کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی طرح استعمال فرمایا۔ پھر اپنے ہاتھ کو بلند کیا اور فرمایا: ”اے اللہ! مجھے بلند وبالا رفاقت درکار ہے۔ “ اسی وقت ہاتھ لٹک گیا اور آپ نے اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کردی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4449) إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 680
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:681
681. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایام علالت میں تین دن تک باہر تشریف نہ لا سکے۔ پھر ایک دن نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور حضرت ابوبکر ؓ جماعت کے لیے پیش قدمی کرنے کو تھے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے (حجرے کا) پردہ اٹھایا۔ آپ کا رخ زیبا دکھائی دیا۔ یقیناً آپ کے روئے انور سے بڑھ کر حسین و جمیل منظر ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو نماز کے لیے آگے بڑھنے کو کہا اور پردہ گرا دیا۔ اس کے بعد کوئی بھی آپ کو نہ دیکھ سکا حتی کہ آپ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ (إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)[صحيح بخاري، حديث نمبر:681]
حدیث حاشیہ: بدھ کے دن رسول اللہ ﷺ سیدہ عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور بڑے ٹب میں بیٹھ کر پانی کی سات مشکیں سر پر ڈالیں، کچھ سکون ہوا تو مسجد میں آ گئے، نماز پڑھائی اور خطبہ دیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4449) جمعرات کے دن بیماری نے شدت اختیار کر لی، اسی حالت میں آپ نے فرمایا: ”لاؤ میں تمھیں کچھ لکھوا دوں تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ “ اسی روز آپ نے تین وصیتیں فرمائیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4431) اسی دن آپ نے نماز مغرب پڑھائی جس میں سورۃ المرسلات کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4429) اسی دن نماز عشاء کے لیے آپ نے تین مرتبہ مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا لیکن غسل کرنے کے بعد جب بھی اٹھنے کا ارادہ فرماتے تو بے ہوش ہو جاتے، بالآخر آپ نے فرمایا: ”ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائے۔ “(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687) چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کی زندگی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔ ہفتہ یا اتوار کے دن حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لائے جبکہ ظہر کی نماز کھڑی ہوچکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاري، حدیث: 687) اگلے دن صبح کی نماز کے وقت پردہ اٹھایا، اس وقت نماز ہورہی تھی۔ تھوڑی دیر تک اس نظارۂ پاک کو ملاحظہ فرمایا جو آپ کی تعلیم کا نتیجہ تھا۔ اس نظارے سے رخ انور پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ آخر کار نزع کی حالت شروع ہوئی۔ پانی کا پیالہ آپ کے سرہانے رکھا ہوا تھا۔ آپ اس میں ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ مبارک پر پھیر لیتے۔ اس دوران میں زبان مبارک سے فرماتے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، موت میں تلخی ہوا ہی کرتی ہے۔ “(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4449) آخر کار بارہ ربیع الاول 11 ہجری بروز پیر بوقت چاشت جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کی۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر 63 سال 4 دن تھی۔ خطبے کے متعلق درج ذیل حدیث ہے: حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں ہماری طرف نکلے، چادر لپیٹے ہوئے اور سر پر کالی پٹی باندھے ہوئے تھے حتی کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے، اللہ کی حمد وثنا کی اور انصار کے متعلق خطبہ دیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی منبر پر آخری مجلس تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3628)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 681
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1205
1205. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ لوگ پیر کے دن نماز فجر میں مشغول تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ انہیں نماز پڑھا رہے تھے۔ اچانک نبی ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے سے پردہ اٹھایا اور لوگوں کی طرف دیکھا جبکہ وہ نماز میں صف بستہ تھے۔ آپ مسکراتے ہوئے ہنسے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابوبکر ؓ اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے واپس ہوئے اور یہ خیال کیا کہ شاید رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں نے جب نبی ﷺ کو دیکھا تو اس قدر خوش ہوئے کہ نماز ہی کو توڑ ڈالنے کا ارادہ کر لیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا کہ نماز کو پورا کرو، پھر حجرے میں تشریف لے گئے اور پردہ لٹکا دیا اور اس روز اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1205]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی حادثے کی وجہ سے دوران نماز میں پیچھے ہٹنے یا آگے بڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر پہلے پیچھے ہٹے، پھر آپ کا اشارہ ملا تو آگے بڑھ کر نماز کو پورا کیا، لیکن یہ عمل کثیر تعداد میں نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات نماز پڑھ رہے ہوتے اور دروازہ بند ہوتا میں اسے کھٹکھٹاتی تو آپ چل کر دروارہ کھولتے، پھر اپنی نماز گاہ کی طرف لوٹ جاتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 922)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1205
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4448
4448. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، دریں اثنا کہ مسلمان سوموار کے دن نماز فجر میں تھے اور ابوبکر ؓ انہیں نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ ظاہر ہوئے۔ آپ نے سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرام ؓ کی طرف دیکھا جبکہ وہ دورانِ نماز میں صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ مسکراتے ہوئے ہنس پڑے تو حضرت ابوبکر ؓ نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹنا شروع کیا تاکہ صف میں شامل ہو جائیں، انہوں نے خیال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: قریب تھا کہ صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں نماز ہی توڑ دیتے، تاہم آپ نے ان کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا کہ تم اپنی نماز پوری کرو۔ پھر آپ حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ لٹکایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4448]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری دن سوموارکی نماز فجر کا واقعہ جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ آپ نے جب مسلمانوں کو نماز میں مصروف پایا اور تھوڑی دیر آپ نے نماز باجماعت کی ادائیگی کو ملا خظہ فرمایا۔ تو رخ انوارر پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ نمایاں ہوئی۔ ایک روایت میں ہے کہ اس وقت چہرہ مبارک چمک کی وجہ سے ورق قرآن معلوم ہو رہا تھا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 680) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر اس عالم رنگ وبو میں کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے حاضرین کو نمازکی بار بار تائید فرمائی چنانچہ آکی آخری وصیت یہ تھی کہ نمازادا کرتے رہنا اور اپنے زیر دست لوگوں سے حسن سلوک کرنا۔ آپ نے اس وصیت کو بار بار دہرایا۔ 2۔ عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس کے بعد آپ پر نزع کا عالم طاری ہو گیا۔ جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 754)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4448