ابومسعود (عقبہ بن عمرو بن ثعلبہ انصاری) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نماز درست نہیں ہوتی ہے جس کے رکوع و سجود میں آدمی اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 870]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ تعدیل ارکان نماز میں فرض ہے، اور یہی قول ہے اہل حدیث کا اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نفی کمال پر محمول ہے، اور ان کا یہی قاعدہ ہے، وہ اکثر حدیثوں کو جو اس مضمون کی آئی ہیں نفی کمال پر ہی محمول کرتے ہیں، جیسے «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب» وغیرہ۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث870
اردو حاشہ: فوائدو مسائل:
(1) رکوع اور سجدے میں کمر سیدھی کرنے کا مطلب اطمینان سے رکوع اور سجدہ ادا کرنا ہے۔ یعنی رکوع کرتے وقت پوری طرح جھک جائے۔ جس طرح رکوع کا صحیح طریقہ ہے۔ اورسجدہ کرتے وقت پوری طرح اطمینان سے سجدہ کرے۔ جس طرح سجدے کا مسنون طریقہ ہے۔
(2) نماز کے ارکان اطمینان اور اعتدال کے ساتھ ادا نہ کرنے سے نماز قبول نہیں ہوتی۔ اس لئے رسول اللہ ﷺنے اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ جس نے نماز کے افعال جلدی جلدی بلا اطمینان ادا کیے تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الأذان، باب امر النبی ﷺ الذی لا یتم رکوعه بالاعادۃ، حدیث: 793)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 870
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1028
´رکوع میں پیٹھ برابر رکھنے کا بیان۔` ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی نماز کافی نہیں ہوتی جس میں آدمی رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ برابر نہ رکھے۔“[سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1028]
1028۔ اردو حاشیہ: پشت یا کمر سیدھا کرنے یا رکھنے سے مراد رکوع اور سجدے میں اطمینان کرنا ہے جو حدیث کی رو سے واجب ہے مگر احناف کی اکثریت اسے ضروری نہیں سمجھتی، اس لیے کہ لغت میں رکوع اور سجدے کے معنیٰ میں اطمینان نہیں لکھا۔ کیا ان حضرات سے یہ پوچھا: جا سکتا ہے کہ نماز قرآن و سنت سے ماخوذ ہے یا لغت سے؟ تعجب نہیں کہ لغت لکھے تو واجب، حدیث میں آئے تو غیر واجب؟ استغفراللہ! انا للہ و انا الیه راجعون۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1028
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1112
´سجدے میں پیٹھ سیدھی رکھنے کا بیان۔` ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نماز کفایت نہیں کرتی جس میں آدمی رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے۔“[سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1112]
1112۔ اردو حاشیہ: دیکھیے حدیث نمبر 1028۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1112
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 265
´جو رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے اس کے حکم کا بیان۔` ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز کافی نہ ہو گی جو رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 265]
اردو حاشہ: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں طمانینت اور تعدیل ارکان واجب ہے، اور جو لوگ اس کے وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں اس سے نص پر زیادتی لازم آئے گی اس لیے کہ قرآن مجید میں مطلق سجدہ کا حکم ہے اس میں طمانینت داخل نہیں یہ زیادتی جائز نہیں، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ زیادتی نہیں بلکہ سجدہ کے معنی کی وضاحت ہے کہ اس سے مراد سجدہ ٔ لغوی نہیں بلکہ سجدہ ٔ شرعی ہے جس کے مفہوم میں طمانینت بھی داخل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 265
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:459
459- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”ایسی نماز درست نہیں ہوتی، جس میں آدمی رکوع اور سجدے کے دوران اپنی پشت کو درست نہیں رکھتا۔“ سفیان کہتے ہیں: اعمش نامی راوی نے یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے۔ روایت کے الفاظ «لَا تُرْجَى» اس کی امید نہیں کی جاسکتی، یعنی وہ درست نہیں ہوتی۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:459]
فائدہ: نماز مکمل اطمینان اور اعتدال کے ساتھ پڑھنی چاہیے، انسان دنیاوی کام تو سلیقے سے کرتا ہے، لیکن نماز وغیرہ جلدی جلدی ادا کر کے فارغ ہو جاتا ہے، ایسا نہیں کرنا چاہیے، انسان اللہ کی عبادت بھی قرآن و حدیث کے مطابق مکمل آداب و احترام کے ساتھ کرے، کیونکہ اس پر صحيح عقیدے کے بعد دنیا و آخرت کی بنیاد ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 459