الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
16. بَابُ : الرُّكُوعِ فِي الصَّلاَةِ
16. باب: نماز میں رکوع کا بیان۔
حدیث نمبر: 869
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ بُدَيْلٍ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يَشْخَصْ رَأْسَهُ، وَلَمْ يُصَوِّبْهُ، وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے، اور نہ نیچا رکھتے بلکہ ان دونوں کے بیچ سیدھا رکھتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 869]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16040، ومصباح الزجاجة: 320)، وقد أخرجہ: (مطولاً) صحیح مسلم/الصلاة 46 (498)، سنن ابی داود/الصلاة 124 (783)، مسند احمد (6/31، 110، 171، 194، 281) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس طرح کہ پیٹھ اور گردن برابر رکھتے، اور اسی طرح سے بالاجماع رکوع کرنا سنت ہے، اور اہل حدیث کے نزدیک یہ تعدیل ارکان میں داخل ہے، اور نماز میں تعدیل ارکان فرض ہے، یہی قول ائمہ ثلاثہ اور ابویوسف کا بھی ہے، لیکن ابوحنیفہ اور محمد رحمہما اللہ نے اس کو واجب کہا ہے، اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے، نماز کے آداب و شروط اور سنن کے ساتھ دو رکعت پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ بہت ساری نماز پڑھی جائیں جن میں سنت کا اہتمام نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو نیک عمل کی توفیق دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن ابن ماجهإذا ركع لم يشخص رأسه ولم يصوبه ولكن بين ذلك

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 869 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث869  
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس حدیث سے رکوع کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہوتا ہے کہ سر اور کمر برابر رکھے جایئں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 869