الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
75. بَابُ : مِقْدَارِ الْمَاءِ الَّذِي لاَ يَنْجَسُ
75. باب: پانی کی وہ مقدار جس میں نجاست پڑنے سے پانی نجس نہیں ہوتا۔
حدیث نمبر: 517
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سُئِلَ عَنِ الْمَاءِ يَكُونُ بِالْفَلَاةِ مِنَ الْأَرْضِ، وَمَا يَنُوبُهُ مِنَ الدَّوَابِّ، وَالسِّبَاعِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا بَلَغَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْءٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحراء اور میدان میں واقع ان گڈھوں کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جن سے مویشی اور درندے پانی پیتے رہتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پانی دو قلہ (دو بڑے مٹکے کے برابر) ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 517]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطہارة 33 (64)، سنن الترمذی/الطہارة 50 (67)، (تحفة الأشراف: 7305)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الطہارة 44 (52)، سنن الدارمی/الطہارة 54 (758) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اگر پانی دو قلہ سے زیادہ ہو گا تو بدرجہ اولی ناپاک نہ ہو گا، اور اگر اس کا رنگ، بو، یا مزہ یا ان میں سے کوئی کسی ناپاک چیز کے پڑنے سے بدل جائے، تو ناپاک ہو جائے گا، دو قلہ کا اندازہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی ایسے حوض میں کہ جس کی زمین برابر ہوا گر پانی جمع کریں تو تقریباً سات بالشت لمبا اور پانچ بالشت چوڑا ہو گا، اور یہ ادنیٰ درجہ ہے حوض کا اور اعلیٰ درجہ ہے برتنوں کا، عرب میں اس سے بڑا برتن نہیں ہوتا تھا۔ قلہ: کے معنی مٹکے کے ہیں یہاں مراد ہجر کے مٹکے ہیں کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور تھے، اس میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، اس اعتبار سے دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی، جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس کلوگرام (۲۲۷) بنتی ہے۔

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن أبي داودإذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث
   سنن أبي داودإذا كان الماء قلتين فإنه لا ينجس
   جامع الترمذيإذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث
   سنن النسائى الصغرىإذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث
   سنن النسائى الصغرىإذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث
   سنن ابن ماجهإذا بلغ الماء قلتين لم ينجسه شيء
   سنن ابن ماجهإذا كان الماء قلتين أو ثلاثا لم ينجسه شيء
   بلوغ المرامإذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 517 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث517  
اردو حاشہ: (1) (قلة)
بڑے مٹکے کو کہتے ہیں۔
عرب میں مقام ہجر کے بنے ہوئے مٹکے معروف تھے۔
یہ مٹکا اتنا بڑا ہوتا تھا کہ اس میں ڈھائی مشکیں پانی آتا تھا، اس لیے دو مٹکوں کی مقدار پانچ مشک پانی کے برابر ہے۔
علمائے کرام نےدو مٹکے پانی کی مقدارپانچ سو رطل بیان کی ہے۔
ایک رطل آدھ سیر یعنی چالیس تولے کے برابر ہے۔
اس طرح پانچ مشک پانی کی مقدار تقریباً دوسو چالیس کلو گرام یا بعض حضرات کے نزدیک دو سو ستائیس کلو گرام بنتی ہے۔
یعنی اگر کسی تالاب میں اندازاً اس قدر پانی موجود ہوتو اس میں سے پانی لیکر وضو وغیرہ کرلینا چاہیے۔

(2)
  بعض حضرات نے (قلة)
 كا مطلب پہاڑ کی چوٹی کیا ہے۔
ان کے خیال میں اس سے پانی کی کوئی خاص مقدار مراد نہیں بلکہ بہت زیادہ پانی مراد ہے گویا وہ اتنا زیادہ ہے کہ پہاڑ کی چوٹی ڈوب جائے۔
یہ مطلب اس لیے درست نہیں کہ سوال ان تالابوں کے بارے میں ہے جو میدان میں بارش وغیرہ کے پانی سے بن جاتے ہیں۔
ان کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی مقدار کو پہاڑوں سے تشبیہ دی جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر حدیث کا مقصد یہی ہوتا تو نبیﷺ مطلقاً منع فرما دیتے کہ ان چشمون اور تالابوں سے وضو نہ کیا کرو کیونکہ ان کے ناپاک ہونے کا احتمال ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر مراد محض کثرت ہوتی تو یہ کہا جاتا کہ پہاڑ جتنا پانی۔
دو کا عدد واضح کرتا ہےکہ اس سے خاص مقدار مراد ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ پہاڑ سے تشبیہ بلندی میں دی جا سکتی ہے گہرائی کے لیے پہاڑ سے تشبیہ دینا قرین قیاس نہیں۔

(3)
بعض روایات میں اس حدیث کے یہ لفظ ہیں:
(لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ)
 وہ ناپاکی کا حامل نہیں ہوتا (جامع الترمذی، الطھارۃ، باب: 50 حدیث: 67)
بعض حضرات نے اس کی یہ تشریح کی ہے کہ اس مقدار میں پانی نجاست کا متحمل نہیں ہوتا یعنی ناپاک ہوجاتا ہے۔
زیر بحث حدیث کے الفاظ سے اس تاویل کی غلطی ظاہر ہوتی ہےاور اصل معنی متعین ہوجاتا ہے۔
وہ یہ کہ اتنا پانی کثیر (زیادہ)
پانی کے حکم میں ہوتا ہے لہذا تھوڑی نجاست سے اس کے پاک صاف ہونے کی صفت ختم نہیں ہوجاتی.
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 517   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 4  
´پانی کی قلیل و کثیر مقدار کا فرق اور حد بندی`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا كان الماء قلتين لم يحمل الخبث .‏‏‏‏وفي لفظ: لم ينجس . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب پانی کی مقدار دو بڑے مٹکوں کے برابر ہو تو وہ نجاست کو قبول ہی نہیں کرتا۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ پانی نجس (ناپاک) نہیں ہوتا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 4]
لغوی تشریح:
«قُلَّتَيْنِ» «قلته» قاف کے پیش اور لام کی تشدید کے ساتھ ہے۔ مٹی کے بنی ہوئے بڑے مٹکے کو کہتے ہیں۔ اس کے چھوٹے اور بڑے ہونے کی وجہ سے اس کی مقدار میں اگرچہ اختلاف رائے واقع ہوا ہے لیکن چونکہ عرب میں ہجر (ایک بستی کا نام) کے مٹکے مشہور و معروف تھے، نیز ان کے اشعار اور امثال میں بھی بکثرت اس کا استعمال ہوا ہے، اس وجہ سے یہ متعین ہو جاتا ہے کہ حدیث میں بیان شدہ مٹکے سے مراد یہی ہجر بستی کا مٹکا ہے، کوئی اور مٹکا نہیں۔ اور ان کے مٹکے میں اڑھائی سو رطل پانی کے سمانے کی گنجائش تھی، لہٰذا دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ صد رطل ہوئی جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس کلو گرام، یعنی پانچ من ستائیس کلو گرام ہے۔
«لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ» الْخَبْث میں خا اور با دونوں پر زبر ہے۔ اس کے معنی نجاست اور گندگی کے ہیں، یعنی پانی اس نجاست کو قبول ہی نہیں کرتا بلکہ قبول کرنے سے انکاری ہے، اس لیے صرف نجاست کے پانی میں گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
«لَمْ يَنْجُسُ» میں ایک قرأت کے مطابق تو جیم پر فتحہ ہے اور دوسری قرأت کے مطابق ضمہ ہے، دونوں صورتوں میں معنی ایک ہی ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث پانی کی قلیل و کثیر مقدار کے فرق اور حد بندی میں بالکل واضح اور صریح ہے۔ ان تمام احادیث سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب پانی کی مقدار دو قلوں (مٹکوں) سے کم ہو گی تو وہ محض نجاست کے گرنے ہی سے ناپاک ہو جائے گا، خواہ اوصاف ثلاثہ میں سے کسی وصف میں تغیر واقع ہوا ہو یا نہ، اور اگر اس کی مقدار «قُلَّتَيْنِ» (دو مٹکوں) کے برابر یا اس سے زیادہ ہو گی تو محض وقوع نجاست سے وہ ناپاک نہیں ہو گا بلکہ وہ خود بھی پاک ہی رہے گا اور دوسری چیز کو بھی پاک کرے گا، البتہ جب اس نجاست کی وجہ سے ان اوصاف ثلاثہ (بو، ذائقہ اور رنگت) میں سے کوئی وصف تبدیل ہو جائے گا تو پھر وہ پانی ناپاک شمار ہو گا جیسا کہ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک بئر بضاعه والی حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں معلوم ہو چکا ہے کہ اس میں پانی دو قلے یا اس سے بھی زیادہ تھا۔
➋ اس حدیث کو حفاظ ائمہ حدیث کے ایک جم غفیر: امام شافعی، ابوعبیدہ، احمد، اسحاق، یحییٰ بن معین، ابن خزیمہ، طحاوی، ابن حبان، دارقطنی، ابن مندہ، حاکم، خطابی، بیہقی، ابن حزم اور دیگر آئمہ رحمہا اللہ نے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ سیوطی نے قوت المغتذي میں نقل کیا ہے۔
➌ یہ اہلحدیث اور شوافع کی دلیل ہے کہ دو قلوں سے کم پانی، کثیر کے زمرے میں نہیں آتا اور دو قلوں یا اس سے زیادہ پانی کی مقدار کثیر ہے۔ احناف کا دہ در دہ کا مسئلہ عقلی ہے۔ حدیث کے مقابلے میں عقل کی کیا حیثیت ہے۔

راوئ حدیث:
SR سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ER آپ زاہد اور پختہ علم والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں صغر سنی میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت بھی کی۔ پہلی مرتبہ غزوہ خندق میں شریک ہوئے۔ 73 ہجری میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور ذی طویٰ نامی جگہ میں دفن ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 4   

  ابوصهيب مولانا محمد داود ارشد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 67  
´حدیث قلتین`
«. . . عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُسْأَلُ عَنِ الْمَاءِ يَكُونُ فِي الْفَلَاةِ مِنَ الْأَرْضِ وَمَا يَنُوبُهُ مِنَ السِّبَاعِ وَالدَّوَابِّ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا جو میدان میں ہوتا ہے اور جس پر درندے اور چوپائے آتے جاتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: جب پانی دو قلہ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز ہونے نہیں دے گا، اسے دفع کر دے گا . . . [سنن ترمذي/كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 67]
فقہ الحدیث
◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ [بلوغ المرام: ص 2]
◈ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
◈ امام ابن مندہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مسلم کی شرط پر ہے۔
◈ امام ابن معین رحمہ اللہ نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔
◈ اور ابن دقیق کا کہنا بعض محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے اور یہ فقہا کے طریق پر بھی صحیح ہے۔ [ملخصا التلخيص الحبير: ج 1، ص 18، 17]
◈ امام طحاوی حنفی فرماتے ہیں کہ:
«خبر القلتين صحيح و اسناده ثابت .»
یعنی حدیث قلتین صحیح ہے اور اس کی سند صحیح ثابت ہے۔ [بحواله مرقاة: ج 2، ص 55]
◈ بانی دارلعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں کہ:
«وقد اخذ فيما اختاره بحديث جيد الاسناد قابل للاعتماد .»
یعنی امام شافعی نے جس حدیث قلتین کو معمول بہ بنایا ہے وہ قابل اعتماد اور جید الاسناد ہے۔ [الكواكب الداري: ص 40، ج 1]

معترض کا اعتراض:
یہ حدیث تمہارے بھی خلاف ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ دو مٹکے پانی کبھی ناپاک نہیں ہوتا خواہ کتنی ہی نجاست گرے۔ خبث میں مقدار نجاست کی قید نہیں تو چاہئے کہ اگر دو مٹکے پانی میں چار مٹکے نجاست پڑ جائے اور اس کا رنگ سب بدل جائے۔۔۔
تبصرہ:
اولاً جب پانی میں دوگنی نجاست گر جائے تو پانی نہ رہا بلکہ حکماً نجاست ہی ہو گیا کیونکہ اس میں پانی کے اوصاف ہی نہ رہے لہٰذا غلبہ نجاست کی وجہ سے پانی نجاست کے حکم میں آ گیا۔ چنانچہ:
◈ علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ
«وهذا إجماع فى الماء المتغير بالنجاسة وإذا كان هذا هكذا فقد زال عنه اسم الماء مطلقاً» [التمهيد لما فى الموطأ من المعاني والأسانيد: ص332 ج1]
یعنی اس پر امت کا اجماع ہے کہ جب پانی نجاست گرنے کی وجہ سے متغیر ہو جائے تو اس سے اس وقت پانی کا نام زائل ہو جاتا ہے۔
ثانیاً: بالفرض اگر حنفی حوض میں دوگنا نجاست گر جائے تو احناف کے نزدیک بھی وہ حوض نجس ہو گیا لہٰذا جس دلیل سے آپ نے حوض کو نجس قرار دیا ہے وہی دلیل ہماری طرف سے سمجھ لیجئے کیونکہ جس طرح آپ کا حوض باوجود پانی کثیر ہونے کے نجس ہو گیا اسی طرح محدثین کرام کے نزدیک قلتین کی مقدار کا پانی کثیر ہونے کے باوجود نجس ہو گیا۔

معترض کا ایک اعتراض:
قلہ مٹکے کو، انسانی قد و قامت کو اور پہاڑ کی چوٹی کو بھی کہتے ہیں یہاں قلہ کے معنی انسانی قد و قامت ہے اور اس سے گہرائی کا اندازہ بتانا مقصود نہیں بلکہ لمبائی کا اندازہ بیان کرنا ہے۔
تبصرہ: یہ مسلم ہے کہ قلہ کے معنی کثرت سے مستعمل ہیں لیکن مشترک معنی میں فیصلہ ہمیشہ قرینہ کی بنا پر کیا جاتا ہے کہ آیا یہاں کون سا معنی مراد ہے اور یہاں مٹکے کے معنی میں استعمال ہونے پر حدیث کے حسب ذیل الفاظ قرینہ ہیں کہ
«الماء يكون فى الفلاة من الارض وما ينويه من السباغ»
چنانچہ:
◈ سرتاج الاحناف مولانا عبدالحق محدث دھلوی فرماتے ہیں:
«القلة بضم القاف و تشديد اللام بمعني الجرة العظيم اي الكوذ الكبير الذى يجعل فيها الماء وتسميتها لقلة اما من جهة علوها وارتفاعها اولان الرجل العظيم يرفعها والقلة اسم لكل مرتفع منه قلة الجبل وجمع القلة قلال بكسر القاف والمراد ههنا قلال هجر بفتحتين كما جاء صريحا فى بعض روايات هذا الحديث ويضا كان المعروف فى ذلك الزمان فالظاهر وقوع التحديد به والهجر اسم قرية ينسب اليه القلال وقال ابن جريح رايت قلال هجر كان كل قلة منها قربتين اور قربتين وشيا وقال الشافعي كان ذلك شي مبها واخذناه نصفا احتياط وكان القلتان خمس قرب انتهي ملخصا»
قلہ، قاف کی پیش اور لام کی تشدید کے ساتھ بڑا گھڑا پانی کا ہے۔ قلہ یا تو گھڑے کی بلندی کی وجہ سے اس کا نام رکھا گیا ہے یا یہ کہ بلند قامت انسان اس کو اٹھا سکتا تھا اور قلہ ہر بلند چیز کو کہتے ہیں (بلکہ گلی اور اونٹ کے ہلکے بوجھ کو بھی) جیسے پہاڑ کا قلہ اور قلہ کی جمع قلال قاف کی زیر سے ہے اور یہاں ہجر گاؤں کے مٹکے مراد ہیں جیسا کہ بعض روایتوں میں اس کی اچھی طرح وضاحت موجود ہے اور اس زمانہ میں مشہور بھی وہیں کا مٹکا تھا لہٰذا واضح امر یہ ہے کہ یہ مقدار پانی کثیر کی حد ہو گئی اور ہجر وہ گاؤں ہے جس طرف مٹکے عرب میں نسبت کئے جاتے ہیں اور امام ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے وہ مٹکے دیکھے بھی ہیں ہر ایک میں دو مشکیزے یا کچھ اوپر پانی ان میں سماتا ہے اور کہا امام شافعی نے کچھ اوپر کہنا امر مبھم ہے اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ آدھا لے کر ڈھائی مشکیزے کر لیے جائیں تو دو قلے پانی پانچ مشکیزوں کے برابر ہو گئے۔ انتھی۔ [لمعات: ج2، ص 135]
   دین الحق بجواب جاء الحق، حصہ اول، حدیث/صفحہ نمبر: 75   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 65  
´دو قلہ کے برابر پانی ناپاک نہیں`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ فَإِنَّهُ لَا يَنْجُسُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی جب دو قلہ کے برابر ہو جائے تو وہ ناپاک نہیں ہو گا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 65]
فوائد و مسائل:
«قله» علاقہ ہجر کے معروف بڑے مٹکے کو کہا جاتا ہے۔ ان دو مٹکوں میں تقریباً دو سو دس لیٹر پانی سما جاتا ہے۔
➋ ناپاک نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس مقدار کے پانی میں کوئی نجاست پڑ جائے اور اس کے تین اوصاف (رنگ، بو اور ذائقہ) میں سے کوئی ایک بھی تبدیل نہ ہو تو وہ پاک ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ظاہری نجاست اگر کوئی ہو تو نکال دی جائے اور پانی استعمال کر لیا جائے۔ «ماء كثير» کی کم از کم مقدار یہی دو قلے ہے (یعنی دو سو دس لیٹر)۔
➌ اسلام قبول کر لینے کے بعد عرب کے ان بدؤوں کی نفسیات طہارت و نجاست کے بارے میں کس قدر حساس ہو گئی تھی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے سوالات کیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 65   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 52  
´گندگی پڑنے سے نجس نہ ہونے والے پانی کے مقدار کی تحدید۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر چوپائے اور درندے آتے جاتے ہوں؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پانی دو قلہ ۱؎ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز نہیں ہونے دے گا یعنی اسے دفع کر دے گا؟ ۲؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 52]
52۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد ماء کثیر کی حد بیان کرنا ہے، جو معمولی نجاست سے پلید نہیں ہوتا بشرطیکہ رنگ، بو اور ذائقہ نہ بدلے۔
«قُلَّة» بڑے مٹکے کو کہتے ہیں، اس کے چھوٹے اور بڑے ہونے کی وجہ سے اس کی مقدار میں اختلاف رائے واقع ہوا ہے۔ لیکن عرب میں ھجر (شہر یا بستی کا نام) کے مٹکے مشہور و معروف تھے۔ شعراء نے اپنے اشعار میں بکثرت اس کا استعمال کیا ہے اور امثال میں بھی اسے بہت بیان کیا ہے۔ حدیث میں بیان شدہ مٹکے سے یہی ھجر کا مٹکا مراد ہے، دوسرا کوئی مٹکا مراد نہیں ہو سکتا۔ اور ان کے مٹکے میں اڑھائی سورطل پانی کے سمانے کی گنجائش تھی، لہٰذا دو قلعوں کے پانی کی مقدار پانچ صد رطل ہوئی جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس کلوگرام ہوتی ہے۔
➌ شریعت نے قلیل پانی اور کثیر پانی کے حکم میں فرق کیا ہے۔ قلیل پانی تو تھوڑی سی نجاست سے بھی پلید ہو جاتا ہے، خواہ رنگ، بو اور ذائقہ تبدیل نہ بھی ہو، مگر کثیر پانی اس وقت تک پلید نہیں ہوتا جب تک نجاست کی وجہ سے اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے قلیل پانی برتن میں ہو گا اور برتن والے پانی کی حفاظت ممکن اور آسان ہے جب کہ کثیر پانی کسی کھلی جگہ میں ہو گا اور کھلے پانی کی حفاظت ممکن نہیں۔ ہوا اور بارش کے ذریعے سے اس میں مختلف چیزیں گرتی رہتی ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کی نجاست بھی اس میں گرتی رہتی ہے۔ اگر تھوڑی سی نجاست سے اسے پلید قرار دے دیا جاتا تو لوگوں کو انتہائی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ تنگی دور کرنا بھی شریعت کا مستقل ضابطہ ہے، لہٰذا کھلا پانی اس وقت تک پاک رہتا ہے جب تک اس میں اتنی زیادہ نجاست نہ مل جائے کہ رنگ، بو اور ذائقہ تک بدل جائے۔
➍ اس حدیث میں اگرچہ رنگ، بو اور ذائقے کا ذکر نہیں، مگر دوسری احادیث میں صراحتاً مذکور ہے۔ فتویٰ دیتے ہوئے کسی ایک روایت کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا، بلکہ پیش آمدہ مسئلے سے متعلقہ تمام آیات و احادیث اور آثار کو مدنظر رکھ کر ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔
➎ علمائے احناف نے اس تحدید کو تو تسلیم نہیں کیا مگر اپنی طرف سے دَہ در دَہ (10x10) کی حد مقرر کی ہے، اس کے علاوہ ان میں باہم سخت اختلاف بھی ہے یہاں تک کہ ان کے فقہاء کے قلیل و کثیر پانی کی تحدید کے متعلق چودہ اقوال ہیں۔
➏ پانی سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کی بابت کتاب المیاہ کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 52   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 329  
´پانی (جو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا) کی تحدید کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر چوپائے اور درندے آتے جاتے ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پانی دو قلہ ۱؎ ہو تو وہ گندگی کو دفع کر دیتا ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 329]
329۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 52 اور اس کے فوائد و مسائل اور کتاب المیاہ کا ابتدائیہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 329   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 4  
«ولا فرق بين قليل وكثير وما فوق القلتين و ما دونهما»
(اس مسئلہ میں) قلیل اور کثیر پانی کے درمیان اور دو مٹکوں سے زیادہ یا کم پانی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
⟐ حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم، حضرت حسن بصری، حضرت سعید بن مسیب، امام عکرمہ، امام ابن ابی لیلیٰ، امام ثوری، امام داؤد ظاہری، امام نخعی، امام جابر بن زید، امام مالک، امام غزالی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابن قیم اور شیخ محمد بن عبد الوھاب رحمہم اللہ اجمعین کا یہی موقف ہے۔
⟐ لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما، امام مجاہد، امام شافعی، امام احمد، احناف اور امام اسحاق رحمہم اللہ اجمعین قلیل اور کثیر پانی کے درمیان فرق و امتیاز کے قائل ہیں۔ (یعنی اگر پانی کثیر ہو گا تو اوصاف ثلثہ میں سے کسی ایک کے بدل جانے پر اس کے نجس ہونے کا حکم لگانے والا اصول و قانون کارفرما ہو گا، لیکن اگر پانی قلیل ہو گا تو مجرو نجاست گرنے سے ہی نجس ہو جائے گا اگرچہ اوصاف ثلثہ میں سے کوئی ایک بھی وصف تبدیل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ [نيل الأوطار 69/1] ۱؎
انہوں نے مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے:
● ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ» اور پلیدگی و گندگی سے بچو۔ [74-المدثر:5]
● حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ تین مرتبہ دھونے سے پہلے پانی کے برتن میں نہ ڈالے کیونکہ اسے معلوم نہیں رات بھر اس کا ہاتھ کہاں کہاں گردش کرتا رہا۔ [صحیح مسلم: ف 278، د 643] ۲؎
● حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کے برتن میں جب کتا منہ ڈال جائے تو اسے (یعنی اس کے پانی کو) بہا دینا چاہیے پھر اسے سات مرتب ھونا چاہیے۔ [مسلم ف 279، د 648] ۳؎
● حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور پھر اس میں غسل کرے۔ [صحيح بخاري 239] ۴؎
● حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پانی کی مقدار دو بڑے مٹکوں کے برابر ہو تو وہ نجاست کو قبول نہیں کرتا۔ [أبوداود 63] ۵؎
● ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے دل سے پوچھو، نیکی وہ ہے جس پر نفس اور دل مطمئن ہو جائے اور گناہ وہ ہے جو نفس میں کھٹکتا ہے اور سینے میں متردد ہوتا ہے اگرچہ لوگ تمہیں اس کا فتوی دیں یا تم انہیں اس کا فتوی دو۔ [صحيح الجامع الصغير 948] ۶؎
● رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کام میں شک ہو اسے چھوڑ کر ایسے کام کو اختیار کرو جس میں شک نہ ہو۔ [ترمذي 2019] ۷؎
حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ گذشتہ دلائل سے امام احمد رحمہ اللہ اور احناف وغیرہ نے قلیل و کثیر پانی کے درمیان فرق کی کوشش کی ہے لیکن ان میں ان کے مطلوب و مقصود کے لیے کوئی واضح دلالت و رہنمائی موجو نہیں۔ [الروضة الندية 62/1]
قلیل و کثیر پانی کی تعیین میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(شافعیہ، حنابلہ) قلیل و کثیر کے درمیان حد فاصل حدیث قلتین ہے۔ [الأم للشافعي 541] ۸؎
حدیث قلتین سے مراد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ»
جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو نجاست کو قبول نہیں کرتا۔ [صحيح: ترمذي 67] ۹؎
بعض حضرات نے اس حدیث کی سند اور متن کو مضطرب کہا ہے۔
لیکن یہ صحیح ہے جیسا کہ شیخ عبدالقادر ارنؤوط، حافظ ابن حجر، امام حاکم، امام ابن مندہ، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام طحاوی، امام نووی اور امام ذہبی رحمہم اللہ اجمعین نے اسے صحیح کہا ہے۔
[تخريج جامع الأصول 65/7، فتح الباري 277/1، التعليقات الرضية على الروضة الندية للألباني 92/1، البدر المنير 91/2، نصب الراية 107/1]
جس روایت میں قلتین کو قبیلہ ھجر کے مٹکوں کے ساتھ مقید کیا گیا ہے وہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں مغیرہ بن سقلاب راوی منکر الحدیث ہے۔ [تلخيص الحبير 20/1]
بالفرض اگر قبیلہ ھجر کے مٹکوں کے پانی کا حساب لگایا جائے تو دو مٹکوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل بنتی ہے۔ [سبل السلام 13/1]
علاوہ ازیں اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب پانی قلتین (یعنی دو مٹکوں) تک پہنچ جائے تو نجس نہیں ہوتا اور جب قلتین سے کم ہو تو نجس ہو جاتا ہے۔
(ابوحنیفہ) کثیر پانی وہ ہے کہ جس کی ایک طرف کو حرکت دی جائے تو دوسری طرف متحرک نہ ہو۔
( ابویوسف، محمد) دس ہاتھ چوڑے اور دس ہاتھ لمبے حوض میں موجود پانی کثیر ہے اور جو اس سے کم جگہ میں ہے وہ قلیل ہے۔ [فتح القدير 55/1] ۱۰؎
(بغوی) (تالاب کے پانی کو) حرکت دینے والی بات تو انتہائی جہالت پر مبنی ہے کیونکہ حرکت دینے والوں کی حالت قوت و ضعف میں مختلف ہوتی ہے۔ (یعنی اگر کوئی کمزور شخص حرکت د ے گا تو ممکن ہے کہ دوسرا کنارہ متحرک نہ ہو اور اگر کوئی قوی و طاقتور حرکت دے تو دوسرا کنارہ متحرک ہو جائے گا، لہٰذا ایہ قاعدہ ناقابل قبول ہے۔) اور دو دردہ والا مسئلہ بھی محض عقلی ہے شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ [شرح السنة 59/2 -60] ۱۱؎
(ابن حزم) حنفیہ کا قول بڑا عجیب ہے کہ پانی کا حوض اتنا بڑا ہو کہ ایک طرف کو حرکت دیں تو دوسری جانب متحرک ہو جائے۔ اے کاش! ہمیں پتہ ہوتا کہ یہ حرکت کیسے دی جائے گی؟ آیا بچے کی انگلی سے؟ کسی تنکے سے، دھاگے سے، تیراک کے تیرنے سے، ہاتھی کے گرنے سے، چھوٹی کنکری سے، منجنیق کے پتھر سے یا حوض کے گر جانے سے۔ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم کو ان غلط فہمیوں سے محفوظ رکھا۔ [المحلى بالآثار 150/1]
(راجح) اس حدیث کو اجماع یعنی «إلا أن تغير ريحه أو طعمه أو لونه» کے ساتھ اسی طرح مقید کیا جائے گا جیسے حدیث «المآء طهور لا ينجسه شي» کو اجماع کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو نجس نہیں ہوتا لیکن اگر اوصاف ثلثہ میں سے کوئی وصف نجاست گرنے کی وجہ سے متغیر ہو جائے تو بالاجماع نجس ہو جائے گا اور اگر دو مٹکوں سے کم ہو اور کوئی وصف متغیر نہ ہو تو حدیث «لا ينجسه شئ» کی وجہ سے محض نجاست گرنے سے نجس نہیں ہو گا بلکہ اپنی اصل (طہارت) پر باقی رہے گا۔ [نيل الأوطار 70/1، الروضة الندية 59/1]
علاوہ ازیں حدیث قلتین سے یہ استدلال کرنا کہ دو مٹکوں سے کم پانی مجرد گندگی گرنے سے نجس ہو جاتا ہے مفہوم ہے جو کہ صریع منطوق «لا أن تغير ريحه أو طعمه أو لونه» کے خلاف ہے اور اصول میں یہ بات مسلم ہے کہ جب مفہوم منطوق کے مخالف ہو تو قابل حجت نہیں ہوتا۔
------------------
۱؎ [نيل الأوطار 69/1، السبل الجرار 54/1، التعليق على سبل السلام للشيخ عبدالله بسام 18/1، الالروضة الندية 61/1، 63]
۲؎ [مسلم: ف 278، د 643، كتاب الطهارة: باب كراهة غمس المتوضي . . .، مسند ابي عوانة 263/1، بيهقي 45/1، موطا 21/1، أحمد 465/2، بخاري مع الفتح 363/1]
۳؎ [مسلم ف 279، د 648، كتاب الطهارة: باب حكم ولوغ الكلب، نسائي 176/1، ابن الجارود 51، دارقطني 64/1، بيهقي 18/1، أحمد 253/2، ابن خزيمة 98/1، ابن حبان 1296، طبراني اوسط 93/1]
۴؎ [بخاري 239، كتاب الوضوء: باب البول فى الماء الدائم، مسلم 282، أبوداود 69، نسائي 49/1، ترمذي 68، شرح معاني الآثار 14/1، بيهقي 256/1، ابن حبان 1251، ابن خزيمة 66، مصنف عبدالرزاق 299، مسند أبى عوانة 276/1، دارمي 186/1، مصنف ابن ابي شيبة 141/1، أحمد 492/2]
۵؎ [صحيح: صحيح أبو داود 56، كتاب الطهارة: باب ما ينحس الماء، أبوداود 63، ترمذي 67، أحمد 27/2، نسائي 175/1، ابن ماجة 517، ابن خزيمة 92]
۶؎ [حسن: صحيح الجامع الصغير 948، دارمي 246/2، فيض القدير 492/1، التاريخ الكبير للبخاري 144/1]
۷؎ [صحيح: إرواء الغليل 12، ترمذي 2019، كتاب صفة القيامة والرقالق والورع: باب منه، نسائي 327/8، أحمد 200/1، حاكم 13/2، ابن حبان 512 الموارد، الحلية لأبي نعيم 264/8، شرح السنة للبغوي 210/4، عبدالرزاق 117/3]
۸؎ [الأم للشافعي 54/1، نيل الأوطار 70/1، سبل السلام 18/1]
۹؎ [صحيح: إرواء الغليل 60/1، 23، ترمذي 67، كتاب الطهارة: باب منه آخر، شرح السنة 369/1، ابن الجارود 46، شرح معاني الآثار 15/1، مشكل الآثار 266/3، مصنف ابن أبى شيبة 144/1، بيهقي 260/1، دارقطني 13/1 -23، حاكم 132/1، ابن خزيمة 92، ابن ماجة 517، نسائي 175/1، احمد 27/2]
۱۰؎ [فتح القدير 55/1، المبسوط 61/1، الهداية 18/1]
۱۱؎ [شرح السنة 59/2 -60، الروضة الندية 64/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 130   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث518  
´پانی کی وہ مقدار جس میں نجاست پڑنے سے پانی نجس نہیں ہوتا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پانی دو یا تین قلہ ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 518]
اردو حاشہ:
فائدہ:
دوسری روایات سےواضح ہے کہ اصل تحدید دو مٹکے ہی ہے۔
اگر پانی اس سے کم ہوتواس میں کوئی ناپاک چیز گرنے پروہ ناپاک ہوجائے گا خواہ اس کا رنگ بو، ذائقہ کچھ بھی تبدیل نہ ہو۔
لیکن اس سے زیادہ پانی صرف اسی صورت میں ناپاک سمجھا جائےگا جب نجاست کی وجہ سے اس کا رنگ بو، یا ذائقہ تبدیل ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 518   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 67  
´پانی کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی سے متعلق ایک اور باب۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا جو میدان میں ہوتا ہے اور جس پر درندے اور چوپائے آتے جاتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: جب پانی دو قلہ ۱؎ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز ہونے نہیں دے گا، اسے دفع کر دے گا ۲؎۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں: قلہ سے مراد گھڑے ہیں اور قلہ وہ (ڈول) بھی ہے جس سے کھیتوں اور باغات کی سینچائی کی جاتی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 67]
اردو حاشہ:
1؎:
قلّہ کے معنی مٹکے کے ہیں،
یہاں مراد قبیلہ ہجر کے مٹکے ہیں،
کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور و معروف تھے،
اس مٹکے میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی،
لہذا دو قلّوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی جو موجودہ زمانہ کے پیمانے کے مطابق دو کوئنٹل ستائیس کلوگرام ہوتی ہے۔

2؎:
کچھ لوگوں نے ((لَمْ يَحْمِلْ الْخَبَثَ)) کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ نجاست اٹھانے سے عاجز ہوگا یعنی نجس ہو جائے گا،
لیکن یہ ترجمہ دو اسباب کی وجہ سے صحیح نہیں،
ایک یہ کہ ابو داود کی ایک صحیح روایت میں ((اِذَا بَلَغَ المَاءُ قُلَّتَيْنِ فإنَّہُ لاَینَجُسْ)) ہے،
یعنی:
اگر پانی اس مقدار سے کم ہو تو نجاست گرنے سے نا پاک ہو جائے گا،
چاہے رنگ مزہ اور بو نہ بدلے،
اور اگر اس مقدار سے زیادہ ہو تو نجاست گرنے سے نا پاک نہیں ہوگا،
الاّ یہ کہ اس کا رنگ،
مزہ،
اور بو بدل جائے،
لہذا یہ روایت اسی پر محمول ہوگی اور ((لَمْ يَحْمِلْ الْخَبَثَ)) کے معنی ((لَم ینَجُسْ)) کے ہوں گے،
دوسری یہ کہ ((قُلَّتَيْنِ)) دو قلے سے نبی اکرم ﷺ نے پانی کی تحدید فرما دی ہے اور یہ معنی لینے کی صورت میں تحدید باطل ہو جائے گی کیونکہ قلتین سے کم اور قلتین دونوں ایک ہی حکم میں آجائیں گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 67   

حدیث نمبر: 517M
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 517M]