�
فقہ الحدیث ◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
[بلوغ المرام: ص 2] ◈ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
◈ امام ابن مندہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مسلم کی شرط پر ہے۔
◈ امام ابن معین رحمہ اللہ نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔
◈ اور ابن دقیق کا کہنا بعض محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے اور یہ فقہا کے طریق پر بھی صحیح ہے۔
[ملخصا التلخيص الحبير: ج 1، ص 18، 17] ◈ امام طحاوی حنفی فرماتے ہیں کہ:
«خبر القلتين صحيح و اسناده ثابت .» ”یعنی حدیث قلتین صحیح ہے اور اس کی سند صحیح ثابت ہے۔
“ [بحواله مرقاة: ج 2، ص 55] ◈ بانی دارلعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں کہ:
«وقد اخذ فيما اختاره بحديث جيد الاسناد قابل للاعتماد .» ”یعنی امام شافعی نے جس حدیث قلتین کو معمول بہ بنایا ہے وہ قابل اعتماد اور جید الاسناد ہے۔
“ [الكواكب الداري: ص 40، ج 1] معترض کا اعتراض:
یہ حدیث تمہارے بھی خلاف ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ دو مٹکے پانی کبھی ناپاک نہیں ہوتا خواہ کتنی ہی نجاست گرے۔ خبث میں مقدار نجاست کی قید نہیں تو چاہئے کہ اگر دو مٹکے پانی میں چار مٹکے نجاست پڑ جائے اور اس کا رنگ سب بدل جائے۔۔۔
تبصرہ: اولاً جب پانی میں دوگنی نجاست گر جائے تو پانی نہ رہا بلکہ حکماً نجاست ہی ہو گیا کیونکہ اس میں پانی کے اوصاف ہی نہ رہے لہٰذا غلبہ نجاست کی وجہ سے پانی نجاست کے حکم میں آ گیا۔ چنانچہ:
◈ علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ
«وهذا إجماع فى الماء المتغير بالنجاسة وإذا كان هذا هكذا فقد زال عنه اسم الماء مطلقاً» [التمهيد لما فى الموطأ من المعاني والأسانيد: ص332 ج1] ”یعنی اس پر امت کا اجماع ہے کہ جب پانی نجاست گرنے کی وجہ سے متغیر ہو جائے تو اس سے اس وقت پانی کا نام زائل ہو جاتا ہے۔
“ ثانیاً: بالفرض اگر حنفی حوض میں دوگنا نجاست گر جائے تو احناف کے نزدیک بھی وہ حوض نجس ہو گیا لہٰذا جس دلیل سے آپ نے حوض کو نجس قرار دیا ہے وہی دلیل ہماری طرف سے سمجھ لیجئے کیونکہ جس طرح آپ کا حوض باوجود پانی کثیر ہونے کے نجس ہو گیا اسی طرح محدثین کرام کے نزدیک قلتین کی مقدار کا پانی کثیر ہونے کے باوجود نجس ہو گیا۔
معترض کا ایک اعتراض: قلہ مٹکے کو، انسانی قد و قامت کو اور پہاڑ کی چوٹی کو بھی کہتے ہیں یہاں قلہ کے معنی انسانی قد و قامت ہے اور اس سے گہرائی کا اندازہ بتانا مقصود نہیں بلکہ لمبائی کا اندازہ بیان کرنا ہے۔
تبصرہ: یہ مسلم ہے کہ قلہ کے معنی کثرت سے مستعمل ہیں لیکن مشترک معنی میں فیصلہ ہمیشہ قرینہ کی بنا پر کیا جاتا ہے کہ آیا یہاں کون سا معنی مراد ہے اور یہاں مٹکے کے معنی میں استعمال ہونے پر حدیث کے حسب ذیل الفاظ قرینہ ہیں کہ
«الماء يكون فى الفلاة من الارض وما ينويه من السباغ» چنانچہ:
◈ سرتاج الاحناف مولانا عبدالحق محدث دھلوی فرماتے ہیں:
«القلة بضم القاف و تشديد اللام بمعني الجرة العظيم اي الكوذ الكبير الذى يجعل فيها الماء وتسميتها لقلة اما من جهة علوها وارتفاعها اولان الرجل العظيم يرفعها والقلة اسم لكل مرتفع منه قلة الجبل وجمع القلة قلال بكسر القاف والمراد ههنا قلال هجر بفتحتين كما جاء صريحا فى بعض روايات هذا الحديث ويضا كان المعروف فى ذلك الزمان فالظاهر وقوع التحديد به والهجر اسم قرية ينسب اليه القلال وقال ابن جريح رايت قلال هجر كان كل قلة منها قربتين اور قربتين وشيا وقال الشافعي كان ذلك شي مبها واخذناه نصفا احتياط وكان القلتان خمس قرب انتهي ملخصا» ”قلہ، قاف کی پیش اور لام کی تشدید کے ساتھ بڑا گھڑا پانی کا ہے۔ قلہ یا تو گھڑے کی بلندی کی وجہ سے اس کا نام رکھا گیا ہے یا یہ کہ بلند قامت انسان اس کو اٹھا سکتا تھا اور قلہ ہر بلند چیز کو کہتے ہیں
(بلکہ گلی اور اونٹ کے ہلکے بوجھ کو بھی) جیسے پہاڑ کا قلہ اور قلہ کی جمع قلال قاف کی زیر سے ہے اور یہاں ہجر گاؤں کے مٹکے مراد ہیں جیسا کہ بعض روایتوں میں اس کی اچھی طرح وضاحت موجود ہے اور اس زمانہ میں مشہور بھی وہیں کا مٹکا تھا لہٰذا واضح امر یہ ہے کہ یہ مقدار پانی کثیر کی حد ہو گئی اور ہجر وہ گاؤں ہے جس طرف مٹکے عرب میں نسبت کئے جاتے ہیں اور امام ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے وہ مٹکے دیکھے بھی ہیں ہر ایک میں دو مشکیزے یا کچھ اوپر پانی ان میں سماتا ہے اور کہا امام شافعی نے کچھ اوپر کہنا امر مبھم ہے اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ آدھا لے کر ڈھائی مشکیزے کر لیے جائیں تو دو قلے پانی پانچ مشکیزوں کے برابر ہو گئے۔
“ انتھی۔
[لمعات: ج2، ص 135]