عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس شخص کا معاملہ لے جایا گیا جس نے نماز میں (حدث کا) شبہ محسوس کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، شک و شبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ وہ گوز کی آواز نہ سن لے، یا بو نہ محسوس کرے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 513]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث513
اردو حاشہ: (1) ہوا خارج ہونے سے پہلے وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ آواز آئے یا نہ آئے۔
(2) محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ پیشاب پاخانہ وغیرہ سے وضو ٹوٹنا صحیح دلائل سے ثابت ہے۔ یہاں صرف یہ مسئلہ بتایا گیا ہے کہ وضو ٹوٹنے کا یقین یا ظن غالب ہونا چاہیے محض وہم اور شک کی بنیاد پر وضو کے لیے نہیں جانا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 513
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 137
´ہوا خارج ہونے کا شک ہو تو محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا` «. . . وَعَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ الَّذِي يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَجِدُ الشَّيْءَ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: لَا يَنْفَتِلْ أَوْ لَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا . . .» ”. . . وہ عباد بن تمیم سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے چچا (عبداللہ بن زید) سے روایت کرتے ہیں کہ` انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتا ہے کہ نماز میں کوئی چیز (یعنی ہوا نکلتی) معلوم ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (نماز سے) نہ پھرے یا نہ مڑے، جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ پائے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ لاَ يَتَوَضَّأُ مِنَ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ:: 137]
� تشریح: اگر نماز پڑھتے ہوئے ہوا خارج ہونے کا شک ہو تو محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ جب تک ہوا خارج ہونے کی آواز یا اس کی بدبو معلوم نہ کر لے۔ باب کا یہی مقصد ہے۔ یہ حکم عام ہے خواہ نماز کے اندر ہو یا نماز کے باہر۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث سے ایک بڑا قاعدہ کلیہ نکلتا ہے کہ کوئی یقینی کام شک کی وجہ سے زائل نہ ہو گا۔ مثلاً ہر فرش یا ہر جگہ یا ہر کپڑا جو پاک صاف اور ستھرا ہو اب اگر کوئی اس کی پاکی میں شک کرے تو وہ شک غلط ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 137
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 177
´اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے` «. . . حَدَّثَنَا بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا " . . . .» ”. . . ابن عیینہ نے، وہ زہری سے، وہ عباد بن تمیم سے، وہ اپنے چچا سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (نمازی نماز سے) اس وقت تک نہ پھرے جب تک (ریح کی) آواز نہ سن لے یا اس کی بو نہ پا لے۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الْوُضُوءَ إِلاَّ مِنَ الْمَخْرَجَيْنِ، مِنَ الْقُبُلِ وَالدُّبُرِ:: 177]
تشریح: خلاصہ حدیث یہ ہے کہ جت تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو، اس وقت تک محض کسی شبہ کی بنا پر نماز نہ توڑے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 177
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2056
2056. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے ایک شخص کے متعلق شکایت کی گئی کہ وہ نماز میں کوئی چیز محسوس کرتا ہے کیا وہ نماز توڑ دے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہ (توڑے) تاآنکہ وہ آواز سنے یا بو پائے۔“ اب ابی حفصہ نے امام زہری سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ وضو اس وقت لازم ہوتاہے جب تو بدبو پائے یا آواز سنے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2056]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے تحت علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: قَالَ الْغَزَالِيُّ الْوَرَعُ أَقْسَامٌ وَرَعُ الصِّدِّيقِينَ وَهُوَ تَرْكُ مَا لَا يُتَنَاوَلُ بِغَيْرِ نِيَّةِ الْقُوَّةِ عَلَى الْعِبَادَةِ وَوَرَعُ الْمُتَّقِينَ وَهُوَ تَرْكُ مَا لَا شُبْهَةَ فِيهِ وَلَكِنْ يُخْشَى أَنْ يَجُرَّ إِلَى الْحَرَامِ وَوَرَعُ الصَّالِحِينَ وَهُوَ تَرْكُ مَا يَتَطَرَّقُ إِلَيْهِ احْتِمَالُ التَّحْرِيمِ بِشَرْطِ أَنْ يَكُونَ لِذَلِكَ الِاحْتِمَالِ مَوْقِعٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَهُوَ وَرَعُ الْمُوَسْوَسِينَ قَالَ وَوَرَاءَ ذَلِكَ وَرَعُ الشُّهُودِ وَهُوَ تَرْكُ مَا يُسْقِطُ الشَّهَادَةَ أَيْ أَعَمُّ مِنْ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ الْمَتْرُوكُ حَرَامًا أَمْ لَا انْتَهَى وَغَرَضُ الْمُصَنِّفِ هُنَا بَيَانُ وَرَعِ الْمُوَسْوَسِينَ كَمَنْ يَمْتَنِعُ مِنْ أَكْلِ الصَّيْدِ خَشْيَةَ أَنْ يَكُونَ الصَّيْدُ كَانَ لِإِنْسَانٍ ثُمَّ أَفْلَتَ مِنْهُ وَكَمَنَ يَتْرُكُ شِرَاءَ مَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ مِنْ مَجْهُولٍ لَا يَدْرِي أَمَالُهُ حَلَالٌ أَمْ حَرَامٌ وَلَيْسَتْ هُنَاكَ عَلَامَةٌ تَدُلُّ عَلَى الثَّانِي وَكَمَنَ يَتْرُكُ تَنَاوُلَ الشَّيْءِ لِخَبَرٍ وَرَدَ فِيهِ مُتَّفَقٍ عَلَى ضَعْفِهِ وَعَدَمِ الِاحْتِجَاجِ بِهِ وَيَكُونُ دَلِيلُ إِبَاحَته قَوِيا وتاويله مُمْتَنع أَو مستبعد۔ (فتح الباري) یعنی امام غزالی ؒ نے ورع کو چار قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک ورع صدیقین کا ہے وہ یہ کہ ان تمام کاموں کو چھوڑ دینا جن کا بطور نیت عبادت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ متقین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا جن کی حلت میں کوئی شبہ نہیں مگر خطرہ ہے کہ ان کو عمل میں لانے سے کہیں حرام تک نوبت نہ پہنچ جائے، اور صالحین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں سے دور رہنا جن میں حرمت کے احتمال کے لیے کوئی بھی موقع نکل سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ وسواسیوں کا ورع ہے اور ان کے علاوہ ایک ورع الشہود ہے جس کے ارتکاب سے انسان شہادت میں ناقابل اعتبا رہو جائے عام ہے کہ وہ حرام ہو یا نہ ہو۔ یہاں مصنف رحمۃ اللہ علیہ کی غرض وسوسہ والوں کے ورع کا بیان ہے جیسا کہ کسی شکار کا گوشت محض اس لیے نہ کھائے کہ شاید وہ شکار کسی اور آدمی نے بھی کیا ہو اور اس سے وہ جانور بھاگ گیا ہو۔ یا جیسا کہ ایسے آدمی کے ہاتھ سے خرید و فروخت چھوڑ دے جو مجہول ہو اور جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس کا مال حرام کا ہے یا حلا ل کا۔ اور کوئی ظاہری دلیل بھی نہ ہو کہ اس کی حلت ہی پر یقین کیا جاسکے۔ اور جیسا کہ کوئی شخص ایسے آدمی کی روایت ترک کردے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہو اور جس کے ساتھ حجت نہ پکڑی جاسکتی ہو، ایسے جملہ مشکوک حالات میں پرہیزگاری کا نام ورع ہے۔ مگر حد سے زیادہ گزر کر کسی مسلمان بھائی کے متعلق بلا تحقیق کوئی غلط گمان قائم کر لینا یہ بھی ورع کے سخت خلاف ہے۔ امام غزالی ؒ نے کسی جگہ لکھا ہے کہ کچھ لوگ نماز کے لیے اپنا لوٹا مصلی اس خیال سے ساتھ رکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں دنیا کے سارے مسلمان کے لوٹے اور مصلے استعمال کے لائق نہیں ہیں۔ اور ان سب میں شبہ داخل ہے۔ صرف انہی کا لوٹا اور مصلی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ امام غزالی ؒ نے ایسے پرہیزگاروں کو ”خود گندے“ قرار دیا ہے۔ اللهم احفظنا من جمیع الشبهات و الآفات۔ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2056
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 177
177. حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تک نماز پڑھنے والا (حدث کی) آواز نہ سنے، یا بدبو نہ محسوس کرے، اس وقت تک اپنی نماز نہ چھوڑے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:177]
حدیث حاشیہ: خلاصہ حدیث یہ ہے کہ جت تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو، اس وقت تک محض کسی شبہ کی بنا پر نماز نہ توڑے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 177
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 160
´ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جانے کا بیان۔` عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی گئی کہ آدمی (بسا اوقات) نماز میں محسوس کرتا ہے کہ ہوا خارج ہو گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک بو نہ پا لے، یا آواز نہ سن لے نماز نہ چھوڑے“۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 160]
160۔ اردو حاشیہ: ➊ اگر نماز کے دوران میں ہوا نکلنے کا شبہ پڑے تو محض وہم اور شک کی بنیاد پر نماز سے نہیں نکلنا چاہیے جب تک یقین نہ ہو جائے کہ ہوا خارج ہوئی ہے کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ اشیاء اپنی اصل ہی پر رہتی ہیں جب تک اس کے برعکس کا یقین نہ ہو۔ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ [الأشباه و النظائر] ➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوا نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تبھی تو نماز سے نکلنے کا کہا گیا ہے۔ ➌ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو اس کے متعلق پوچھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو جس قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا، وہ فوراًً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 160
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:417
417- سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب نے یہ شکایت کی کہ انہیں نماز کے دوران یہ خیال آیا ہے (کہ شاید ان کا وضو ٹوٹ گیا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا شخص اس وقت تک واپس نہ جائے جب تک وہ (ہوا خارچ ہونے کی) آواز نہ سن لے یا بو محسوس نہ کرے۔ یہاں پر سفیان نامی راوی نے ایک لفظ بعض اوقات مختلف نقل کیا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:417]
تنبیہ ◄ امام حمیدی رحمہ اللہ کا کہنا کہ یہ وہ صحابی ہیں جنھیں خواب میں اذان سکھائی گئی، غلط ہے، اس میں انہوں نے امام سفیان بن عیینہ کی پیروی کی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سفیان بن عینیہ کہا کرتے تھے کہ یہ اذان والے صحابی ہیں لیکن اس باب میں ان کو وہم ہوا ہے، کیونکہ یہ عبداللہ بن زید بن عاصم المازنی ہیں، انصار کے مازن قبیلے سے ہیں [صحيح البخاري 1012]، اور صاحب اذان صحابی عبداللہ بن زید بن عبدربہ الانصاری ہیں، اور وہ خزرج قبیلے سے ہیں، رضی اللہ عنہم اجمعین (کاشف) فائدہ: وہم وگمان سے کسی اثبات کی نفی نہیں ہوتی، قواعد فقہیہ میں سے ایک قاعدہ ہے ” «اليـقيـن لا يزول الا بـمـثـلـه»“ یقین اپنی مثل (یقین) کے ساتھ ہی زائل ہوگا۔ یاد رہے کہ وضو کے ٹوٹنے کے لیے یقینی دلیل چاہیے، اور وہم و گمان اور خیال یقینی دلیل نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 417
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:137
137. حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا حال بیان کیا جسے یہ خیال ہو جاتا تھا کہ وہ دوران نماز میں کسی چیز (ہوا نکلنے) کو محسوس کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہ نماز سے اس وقت تک نہ پھرے جب تک ہوا نکلنے کی آواز یا بو نہ پائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:137]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک اصل کوثابت کرتے ہیں کہ جب کوئی عمل یقین و اعتماد سے شروع کیا گیا ہو تو جب تک اس کی جانب مخالف میں بھی یقین کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے، اس وقت تک وہ عمل قائم رکھا جائے گا، صرف تردد اور شک سے اس عمل میں نقصان نہیں آنا چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک خاص واقعے کا حوالہ دیا ہے کہ ایک شخص کو دوران نماز میں وضو ٹوٹنے کا اندیشہ ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کو اس وقت تک نماز پڑھتے رہنا چاہیے جب تک اسے نقض وضو کے متعلق اس درجے کا یقین نہ ہو جس درجے کا یقین وضو کے متعلق تھا کیونکہ صرف وسوسے اور شبہے کی وجہ سے نماز ختم کرنا درست نہیں۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ جب شیطان دل میں اس طرح کا وسوسہ ڈالے تودل ہی دل میں شیطان کے اس وسوسے کی تکذیب کردے۔ صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اگر ناک سے اس کی بدبو محسوس کرے یا کان سے اس کی آواز سنے تو نماز کوختم کردے۔ (عمدة القاري: 358/2) 2۔ علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے وضو ہونے کا حکم صرف اس بات پر موقوف نہیں کہ وہ اس کی آواز سنے یا بدبو پائے کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہوا کے خروج کا یقین ہوتا ہے لیکن نہ اس کی آواز سنی جاتی ہے اور نہ اس کی بو ہی کا احساس ہوتا ہے، مثلاً: ایک آدمی بہرا ہے یا مرض زکام کی وجہ سے اس کی قوت شامہ مفلوج ہوچکی ہے جس کی بنا پر وہ آواز یا بو کا احساس نہیں کر پاتا، ایسی صورت میں اسے وضو کرنا ہوگا کیونکہ اسے بے وضو ہونے کایقین ہوچکا ہے۔ (عمدة القاري: 359/2) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب من لم ير الوساوس ونحوها من الشبهات) ”وساوس کو شبہات کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔ “(صحیح البخاري، البیوع، باب: 5) لہٰذا اس حدیث سے یہ قاعدہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی یقینی معاملہ صرف شک کی وجہ سے مشکوک نہیں ہوتا اور نہ معاملات کو وساوس کی وجہ سے شبہات ہی میں تبدیل کرنا درست ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیزکو بلاوجہ شک وشبہ کی نظر سے دیکھنا جائز نہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 137
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:177
177. حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تک نماز پڑھنے والا (حدث کی) آواز نہ سنے، یا بدبو نہ محسوس کرے، اس وقت تک اپنی نماز نہ چھوڑے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:177]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تھی کہ حالت نماز میں اسے خروج ریح کا خیال گزرتا ہے تو آپ نے فرمایا: ”وہ نماز نہ توڑے جب تک آواز نہ سنے، یا بو محسوس نہ کرے۔ “(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 137) مقصد یہ ہے کہ جب اسے حدث کا یقین ہو جائے تو نماز چھوڑ دے۔ آواز کا سننا یا بدبو کا پانا بنیادی شرط نہیں، کیونکہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی سونگھنے اور سننے کی قوت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ نہ آواز سن سکتے ہیں اور نہ بدبومحسوس کر تے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شبہ یقین کو زائل نہیں کرسکتا اور اس قسم کے شکوک وشبہات کی کوئی حیثیت نہیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ بول وبراز کے راستے سے جو چیز خارج ہو، وہ ناقض وضو ہے، چنانچہ اس حدیث سے وضاحت کے ساتھ اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (لَا يَتَوَضَّأُ مِنَ الشَّكِّ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ) ”شک کی بنیاد پروضو نہ کرے تاآنکہ اسے یقین ہوجائے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ شبہ کی بنیاد پر نمازتوڑنا درست نہیں، جب تک یقین نہ ہو کہ کوئی ناقض وضو حالت پیش آئی ہے۔ عمر رسیدگی میں ایسی باتیں پیش آتی رہتی ہیں، لیکن نماز کے متعلق اوہام وخیالات کو بنیاد بنا کر نماز ختم کرنا مناسب نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 177
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2056
2056. حضرت عباد بن تمیم ؓ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے ایک شخص کے متعلق شکایت کی گئی کہ وہ نماز میں کوئی چیز محسوس کرتا ہے کیا وہ نماز توڑ دے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہ (توڑے) تاآنکہ وہ آواز سنے یا بو پائے۔“ اب ابی حفصہ نے امام زہری سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ وضو اس وقت لازم ہوتاہے جب تو بدبو پائے یا آواز سنے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2056]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت وسوے کی حقیقت بیان کی ہے کہ یقین وایمان سے ثابت شدہ چیز کو محض وسوسے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وسوسہ یہ ہے کہ بلاوجہ ہر چیز کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنا،مثلاً: ایک شخص سے مال خریدا،خواہ مخواہ اس کے حرام ہونے کا گمان کرنا۔ اس قسم کی وسوسہ اندازی یا وسوسہ پیروی جائز نہیں۔ (2) مذکورہ حدیث سے یہی بات ثابت کی گئی ہے کہ ایک شخص دوران نماز میں وضو ٹوٹ جانے کا وسوسہ پاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: طہارت کا یقین محض شک سے ختم نہیں ہوتا بلکہ حدث کا یقین ہوتو وضو باطل ہوتا ہے۔ چونکہ ہوا کا خارج ہونا کثیر الوقوع ہے، اس لیے حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ اگر دلیل سے کسی چیز کی نجاست یا حرمت معلوم ہوجائے تو اس سے باز رہنا چاہیے،صرف وسوسوں کی بنا پر کسی چیز کو نجس خیال کرنا صحیح نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2056