الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
51. بَابُ : مَا جَاءَ فِي مَسْحِ الرَّأْسِ
51. باب: سر کے مسح کا بیان۔
حدیث نمبر: 435
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" تَوَضَّأَ فَمَسَحَ رَأْسَهُ مَرَّةً".
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور اپنے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 435]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9829)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة 50 (109)، مسند احمد (1/66، 72، 2/348) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاريتوضأ فأفرغ على يديه ثلاثا ثم تمضمض واستنثر ثم غسل وجهه ثلاثا ثم غسل يده اليمنى إلى المرفق ثلاثا ثم غسل يده اليسرى إلى المرفق ثلاثا ثم مسح برأسه ثم غسل رجله اليمنى ثلاثا ثم اليسرى ثلاثا
   صحيح مسلمتوضأ ثلاثا ثلاثا
   سنن أبي داودتمضمض ثلاثا واستنثر ثلاثا وغسل وجهه ثلاثا ثم غسل يده اليمنى ثلاثا وغسل يده اليسرى ثلاثا ثم أدخل يده فأخذ ماء فمسح برأسه وأذنيه فغسل بطونهما وظهورهما مرة واحدة ثم غسل رجليه
   سنن ابن ماجهتوضأ فخلل لحيته
   سنن ابن ماجهتوضأ فمسح رأسه مرة
   صحيح ابن خزيمةتوضأ فغسل كفيه ثلاث مرات واستنثر ثم غسل وجهه ثلاث مرات ثم غسل يده اليمنى إلى المرفق ثلاث مرات ثم غسل يده اليسرى مثل ذلك ثم مسح برأسه ثم غسل رجله اليمنى إلى الكعبين ثلاث مرات ثم غسل رجله اليسرى مثل ذلك

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 435 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث435  
اردو حاشہ:
یعنی جس طرح دوسرے اعضاء دودو یا تین بار نہیں کیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 435   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث430  
´داڑھی میں خلال کرنے کا بیان۔`
عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور اپنی داڑھی میں خلال کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 430]
اردو حاشہ:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈاڑھی کا خلال کرنا سنت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 430   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1934  
1934. حضرت حمران سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا کہ انھوں نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر تین تین بار پانی بہایا۔ پھر کلی اور ناک میں پانی ڈالا اس کے بعد تین بار چہرہ دھویا پھر دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا۔ اس کے بعد سرکا مسح کیا۔ پھر دایاں پاؤں تین بار اس کے بعد بایاں پاؤں تین بار دھویا، پھر فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور فرمایا: جس نے میرے وضو جیسا وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں اور دل میں کوئی خیال نہ لایا تو اس کے پچھلے سب گناہ بخش دیے جائیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1934]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث کے معنی ہیں کہ جس شخص نے کامل وضو کیا جو اس کی تمام سنتوں پر مشتمل ہو، ان میں مسواک بھی شامل ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسواک کے خشک یا تر ہونے میں کوئی فرق نہیں۔
مسواک کرنے میں روزہ دار اور غیر روزہ دار کی تفریق کو روا نہیں رکھا گیا، اس لیے روزہ دار مسواک کر سکتا ہے۔
مسواک تر ہو یا خشک، روزہ فرض ہو یا نفل، دن کے آغاز میں کی جائے یا اس کے آخری حصے میں اسے استعمال کیا جائے، سب جائز ہے۔
قبل ازیں امام ابن سیرین نے مسواک کرنے کو وضو پر قیاس کیا تھا۔
آپ نے فرمایا:
روزہ دار کے لیے تازہ مسواک کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
ان سے غرض کیا گیا کہ تازہ مسواک کا ذائقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا:
پانی کا بھی ذائقہ ہوتا ہے، حالانکہ تم اس سے کلی کرتے ہو۔
امام بخاری نے روزہ دار کے لیے مسواک کرنے کا جواز ثابت کرنے کے لیے حدیث عثمان کو بیان کیا ہے جس میں وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے۔
اس میں وضاحت ہے کہ آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔
اس وضو میں روزہ دار اور افطار کرنے والے کا فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا۔
دراصل امام بخاری ؒ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو روزے دار کے لیے تازہ مسواک کو مکروہ خیال کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 202/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1934   

  الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 3  
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پانی منگوا کر وضو کیا تو اپنے ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا، اور ناک (میں پانی ڈال کر اسے) جھاڑا، پھر اپنے چہرے کو تین بار دھویا، پھر اپنے دائیں ہاتھ کو کہنی سمیت تین بار دھویا... [صحيح ابن خزيمه: 3]
فوائد:
➊ طحاوی کہتے ہیں: یہ حدیث دلیل ہے کہ وضو میں اعضائے وضو کا ایک ایک مرتبہ دھونا فرض ہے اور ایک سے زائد دو یا تین مرتبہ دھونا افضل ہے، چنانچہ جمیع اہل علم کا موقف ہے کہ یہ وضو کرنے والے کی مرضی پر موقوف ہے، وہ چاہے تو تمام اعضائے وضو ایک ایک بار یا دو دو بار یا تین تین بار دھوئے۔ اس کی رخصت بہر حال موجود ہے۔ [شرح ابن بطال: 267/1]
➋ مذکورہ مسنون طریقہ سے وضو کرنے سے سابقہ تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
➌ وضو کے بعد دو یا دو سے زائد رکعت نماز پڑھنا مستحب اور سنت موکدہ ہے اور بعض شافعیہ کا موقف ہے کہ وضو کے نوافل نماز کے ممنوعہ اوقات میں پڑھنا بھی جائز ہیں کیونکہ یہ سببی نماز ہے اور انہوں نے صحیح بخاری میں مذکور اس حدیثِ بلال کہ وہ جب بھی وضو کرتے وضو کے بعد نماز ادا کرتے تھے۔ سے استدلال کیا ہے (کہ وضو کے نوافل ہر وقت ادا کیے جا سکتے ہیں) اور اگر وضو کے بعد فرض نماز یا خاص نوافل ادا کیے جائیں تب بھی یہ فضیلت حاصل ہو جاتی ہے اسی طرح وضو کے بعد تحیتہ المسجد ادا کرنے سے بھی مذکورہ فضیلت حاصل ہو جاتی ہے۔ [نووي: 3/ 107]
«غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» حدیث کے ظاہر الفاظ صغائر و کبائر کو شامل ہیں لیکن علماء نے اسے صغیرہ گناہوں سے خاص کیا ہے، کیونکہ دیگر روایات میں باستثنائے کبائر محض صغیرہ گناہوں کی معافی کا بیان ہے اور صغیرہ گناہوں کی معافی اس شخص سے خاص ہے جس کے صغیرہ و کبیرہ گناہ ہوں، چنانچہ جس کے فقط صغیرہ گناہ ہی ہوں (تو مذکورہ طریقہ وضو کے بعد نماز پڑھنے سے) صغیرہ گناہ محو ہو جاتے ہیں، جس کے محض کبیرہ گناہ ہوں، اس میں بقدر صغائر تخفیف ہو جاتی ہے اور جس کے صغیرہ و کبیرہ گناہ نہ ہوں۔ نیکیوں میں اتنا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
➎ اس حدیث میں عملی تعلیم کے جواز کا بیان ہے کیونکہ یہ طریقہ تعلیم زیادہ بلیغ اور متعلم کے لیے حفظ و ضبط میں زیادہ آسانی کا باعث ہے۔
➏ اس حدیث میں اعضائے وضو کی ترتیب کا بیان ہے کیونکہ ہر عضو کے بعد «ثمَ» کا لفظ ہے (جو ترتیب پر دلالت کرتا ہے۔)
➐ نماز میں اخلاص کی ترغیب کا بیان ہے اور نماز میں دنیوی امور میں غور و فکر سے بچنے کا بیان ہے کیونکہ یہ نماز کی عدم قبولیت کا باعث ہے بالخصوص اگر انسان کسی معصیت کے ارتکاب کا تہیہ کر لے تو اس صورت میں دل خارج نماز سے زیادہ حالت نماز میں ان خیالات کا اسیر رہتا ہے۔ [فتح الباري: 342/1]
   صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 3