الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الطب
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
27. بَابُ : النَّهْيِ أَنْ يُتَدَاوَى بِالْخَمْرِ
27. باب: شراب سے علاج منع ہے۔
حدیث نمبر: 3500
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , أَنْبَأَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ , عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ , عَنْ طَارِقِ بْنِ سُوَيْدٍ الْحَضْرَمِيِّ , قَالَ: قُلْتُ: يَا َرَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ بِأَرْضِنَا أَعْنَابًا نَعْتَصِرُهَا فَنَشْرَبُ مِنْهَا , قَالَ:" لَا" , فَرَاجَعْتُهُ , قُلْتُ: إِنَّا نَسْتَشْفِي بِهِ لِلْمَرِيضِ , قَالَ:" إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِشِفَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ".
طارق بن سوید حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے ملک میں انگور ہیں، کیا ہم انہیں نچوڑ کر پی لیا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے دوبارہ عرض کیا کہ ہم اس سے مریض کا علاج کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دوا نہیں بلکہ خود بیماری ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3500]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطب 11 (3873)، (تحفة الأشراف: 4980)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/311، 5/293) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بیماری کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ ہے کہ ہر گناہ بیماری ہے، دوسرے یہ کہ شراب سے بیماری پیدا ہو تی ہے شفا نہیں ہوتی، دونوں سچ ہیں، شراب سے مسلمان کو سوائے ضرر کے کبھی فائدہ حاصل نہ ہو گا، اور بادی النظر میں جو کسی کو شراب پینے سے پہلے پہل کچھ فائدہ نظر آتا ہے، یہ فائدہ نہیں بلکہ مقدمہ ہے اس بڑے نقصان کا جو آگے چل کر پیدا ہو گا، اب تمام اطباء اتفاق کرتے جاتے ہیں کہ شراب میں نقصان ہی نقصان ہے، فائدہ موہوم ہے، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اوپر گزری کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دوا سے منع کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   جامع الترمذيسأله عن الخمر فنهاه عنه ليست بدواء ولكنها داء
   سنن أبي داودسأل عن الخمر فنهاه إنها دواء قال النبي لا ولكنها داء
   سنن ابن ماجهبأرضنا أعنابا نعتصرها فنشرب منها قال لا ذلك ليس بشفاء ولكنه داء
   بلوغ المرام إنها ليست بدواء ولكنها داء

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3500 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3500  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
شراب حرام ہے۔

(2)
نشہ آور کسی بھی چیز کا استعمال حرام ہے۔

(3)
حرام چیز کو دوا کے طور پر استعمال کرنا بھی جائز نہیں۔
حرام اور نقصان دہ اشیاء سے علاج کی بابت حدیث نمبر 3460 کے فوائد ملاحظہ فرمایئں۔

(4)
آجکل انگریزی دواؤں میں الکحل شامل کی جاتی ہے۔
تاکہ وہ زیادہ عرصہ تک درست حالت میں رہیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اس مقصد کے لئے حلال چیز (شہد، سرکہ یا صاف پانی وغیرہ)
استعمال کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3500   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1074  
´شراب پینے والے کی حد اور نشہ آور چیزوں کا بیان`
سیدنا وائل بن حضرمی سے روایت ہے کہ طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے بارے میں پوچھا کہ وہ اسے دوا کیلئے بناتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دوا بالکل نہیں بلکہ یہ بیماری ہے۔ اسے مسلم اور ابوداؤد وغیرہما نے تخریج کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1074»
تخریج:
«أخرجه مسلم، الأشربة، باب تحريم التداوي بالخمر...، حديث:1984، وأبوداود، الطب، حديث:3873، والترمذي، الطب، حديث:2046، وابن ماجه، الطب، حديث:3500.»
تشریح:
1. شراب‘ نقصان دہ اور مضر صحت اشیاء سے علاج حرام ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ غیرمسلم معالجین نے حرام اور مکروہ اشیاء سے مرکب ادویہ کو اس قدر عام کیا ہے اور ان کی شہرت کر دی ہے کہ عوام و خواص ان کے استعمال میں کوئی کراہت محسوس نہیں کرتے۔
مسلمان حکام‘ اداروں اور تنظیموں کا شرعی فریضہ ہے کہ اس میدان میں خالص حلال اور پاکیزہ ادویات متعارف کروائیں۔
اور عام مسلمانوں کو بھی صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے حرام اور مشکوک ادویہ کے استعمال سے بچنا چاہیے۔
ان کی بجائے پاکیزہ اور غیر مشکوک ادویہ استعمال کرنی چاہییں‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ﴾ (الطلاق ۶۵:۲) اور جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا‘ اللہ اس کے لیے (تنگی سے نکلنے کی) کوئی راہ پیدا فرما دے گا۔
اور اگر کوئی مخلص طبیب کسی مرض میں اپنے عجز کا اظہار کرے اور شراب وغیرہ ہی کو علاج سمجھے تو جان بچانے کے لیے، بشرطیکہ جان کا بچ جانا یقینی ہو‘ اس کا استعمال مباح ہو گا‘ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ ﴾ (البقرۃ۲:۱۷۳) پھر جو شخص مجبور ہو جائے جبکہ وہ سرکشی کرنے والا اور حد سے گزرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
2. آج کل انگریزی ادویہ میں الکحل وغیرہ شامل کی جاتی ہے تاکہ وہ زیادہ عرصے تک درست حالت میں رہیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے کوئی حلال چیز (شہد یا سرکہ وغیرہ) استعمال کریں۔
راویٔ حدیث:
«حضرت طارق بن سوید حضرمی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ بعض اہل علم نے (ان کا نام) سوید بن طارق بیان کیا ہے۔
صحابی ہیں۔
انھیں جُعْفی بھی کہا جاتا تھا۔
ان سے یہی ایک حدیث مروی ہے۔
اہل کوفہ نے ان سے روایت کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3873  
´ناجائز اور مکروہ دواؤں کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، طارق بن سوید یا سوید بن طارق نے ذکر کیا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں منع فرمایا، انہوں نے پھر پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پھر منع فرمایا تو انہوں نے آپ سے کہا: اللہ کے نبی! وہ تو دوا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ بیماری ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3873]
فوائد ومسائل:
1) شراب اور اس سے مخلوط اشیاء سے علاج حرام ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ غیر مسلم معالجین نےحرام اور مکروہ اشیاء سے مرکب ادویہ کو اس قدر عام کیا ہے اور ان کی شہرت کر دی ہے کہ عوام اور خواص ان کے استعمال میں کوئی کراہت محسوس نہیں کرتے۔
مسلمان احکام، اداروں اور تنظیموں کا شرعی فریضہ ہے کہ اس میدان میں خالص حلال اور پاکیزہ ادویہ متعارف کرائیں اور عام مسلمان کو بھی صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے حرام اور مشکوک ادویہ کے استعمال سے بچنا چاہیئےاور ان کی بجائے پاکیزہ اور غیر مشکوک ادویہ استعمال کرنی چاہیئں، اللہ تعالی کا فرمان ہے اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لیئے (تنگی سے نکلنے کی) کوئی راہ پیدا فرما دے گا۔
اور اگر کو ئی مخلص طبیب کسی مرض میں اپنے عجز کا اظہار کرے اور شراب ہی کو علاج سمجھے تو جان بچانے کے لیئے؛ بشرطیکہ جان کا بچ جانا یقینی ہوتو اس صورت میں اس کا استعمال مباح ہو گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3873