جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ کو صاف نہ کرے یہاں تک کہ اسے چاٹ لے، اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3270]
وضاحت: ۱؎: یہ سنت ہے گو اس زمانہ میں بعض متکبر دنیا دار اس کو تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں، وہ خود بے تہذیب ہیں، جب آدمی پاک صاف ہو، اور ہاتھ دھو کر کھانا کھائے، تو انگلیاں چاٹنے میں کیا قباحت ہے، البتہ ہاتھ نجس ہو اور چمچہ سے کھانا کھائے تو نہ چاٹے، اس سے پہلا ادب یہ بتلایا گیا ہے کہ «بسم اللہ» پڑھ کر کھانے یا پینے کا آغاز کیا جائے، دوسرا ادب یہ کہ داہنے ہاتھ سے کھایا جائے، اور تیسرا ادب یہ ہے کہ اپنے سامنے اور اپنے قریب سے کھایا جائے،اس صورت میں ہے کہ جب کھانا کسی بڑے برتن (طباق سینی یا تھالی وغیرہ) میں ہو اور بیک وقت کئی افراد مل کر کھا رہے ہوں، اور کھانا بھی ایک ہی قسم کا ہو اگر مختلف اقسام کی چیزیں ہوں، تو پھر دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی ہاتھ بڑھا کر چیز لینا جائز ہو گا۔
إن الشيطان يحضر أحدكم عند كل شيء من شأنه حتى يحضره عند طعامه فإذا سقطت من أحدكم اللقمة فليمط ما كان بها من أذى ثم ليأكلها لا يدعها للشيطان فإذا فرغ فليلعق أصابعه لا يدري في أي طعامه تكون البركة
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3270
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کھانا کھانے کےبعد ہاتھ کی انگلیوں کو زبان سے صاف کر لینا چاہیے۔
(2) غذا کا معمولی حصہ ضائع کرنا بھی نعمت کی ناشکری ہے۔
(3) بغیر صاف کیے ہاتھ کو کپڑے سے پونچھنا یا پانی سے دھونا مناسب نہیں کیونکہ اس طرح کپڑا خراب ہو گا یا پانی ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا پڑے گا اور ہاتھ کو لگے ہوئے غذا کے ذرات نانی میں جائیں گے جو رزق کی نعمت کی ناقدری ہے۔
(4) برکت ایک معنوی اور غیر محسوس چیز ہے۔ اس کے حصوں کےلیے نبی ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے اور رزق کو ضائع کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(5) کسی سے چٹوانا اس وقت درست ہے جب دوسرا آدمی اس میں کراہت محسوس نہ کرے مثلاً: بیوی یا اولاد وغیرہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3270
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1802
´گرے ہوئے لقمہ کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے اور نوالہ گر جائے تو اس میں سے جو ناپسند سمجھے اسے ہٹا دے ۱؎، اسے پھر کھا لے، اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔“[سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1802]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی گرے ہوئے نوالہ پر جو گردوغبار جم گیا ہے، اسے ہٹا کر اللہ کی اس نعمت کی قدر کرے، اسے کھالے، شیطان کے لیے نہ چھوڑے کیوں کہ چھوڑنے سے اس نعمت کی ناقدری ہوگی، لیکن اس کابھی لحاظ رہے کہ وہ نوالہ ایسی جگہ نہ گرا ہو جو ناپاک اور گندی ہو، اگر ایسی بات ہے تو بہتر ہوگا کہ اسے صاف کرکے کسی جانور کو کھلادے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1802
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5301
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اس کو اٹھائے اور اس کو لگنے والی تکلیف دہ چیز (مٹی، ریت اور تنکے وغیرہ) دور کر کے اس کو کھالے اور جب تک اپنی چاٹ نہ لے، اپنا ہاتھ رومال سے صاف نہ کرے، کیونکہ اسے معلوم نہیں ہے، اس کے کھانے کے کس حصہ میں خیر و برکت ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5301]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جب انسان کھانا شروع کر دیتا ہے تو اس کا اکثر حصہ اس کے پیٹ میں چلا جاتا ہے، کچھ برتن کو لگ جاتا ہے، کچھ انگلیوں کو لگ جاتا ہے، بعض دفعہ کچھ برتن میں رہ جاتا ہے اور کوئی لقمہ گر جاتا ہے، اب انسان کو معلوم نہیں ہے، کھانے کے ان سب اجزاء میں سے کون سا حصہ یا جز اس کے لیے خیر و برکت اور سیری کا باعث ہے اور اس کے لیے وقت و طاقت کا سبب ہے، اس لیے اسے ان تمام اجزاء کو استعمال کرنا چاہیے، کوئی حصہ چھوڑنا نہیں چاہیے، حتی کہ گرنے والا لقمہ بھی اسی طرح گرے پڑے نہیں رہنا دینا چاہیے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے برتن میں اتنا ہی کھانا ڈالنا چاہیے جتنا کھانا ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5301
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5303
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”شیطان تمہارے ہر معاملہ کے وقت آجاتا ہے، حتی کہ وہ تمہارے کھانے کے وقت بھی آ جاتا ہے، اس لیے جب تم میں سے کسی سے کوئی لقمہ گر جائے تو وہ اس سے اذیت کا باعث چیز زائل کرکے اس کو کھالے، اس کو شیطان کے لیے نہ پڑا رہنے دے اور جب فارغ ہو جائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے، کیونکہ اسے علم نہیں ہے اس کے کس کھانے میں برکت ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5303]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان ہر وقت اور ہر آن انسان کی تاک میں رہتا ہے، وہ جب بھی کوئی کام شروع کرتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے، میرا بھی اس کام میں کچھ حصہ پڑ جائے، اس لیے وہ اکسا کر اس سے کوئی نہ کوئی کام دینی ہدایات و تعلیمات کا منافی کروا لیتا ہے، جس طرح گرنے والا لقمہ کو اٹھانا وہ اسے اپنی شان کے منافی باور کرواتا ہے اور اس کو خست و کمینگی بتاتا ہے، اس طرح انسان اس کے چکمے میں آ کر لقمہ اس کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور انسان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ شیطان کا داؤ چل گیا ہے، ہاں اگر لقمہ ناپاک جگہ میں گر جائے یا اس کو صاف کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اسے بلی، کتے کو ڈال دے، اس کو ضائع نہ کرے، کیونکہ شریعت کسی معمولی چیز کا ضیاع بھی گوارا نہیں کرتی۔