ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر وقت کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 302]
وضاحت: ۱؎: اللہ کا ذکر ہر وقت کرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے باوضو ہونے یا کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہونے کی کوئی قید نہ تھی، ہر حالت میں ذکر الٰہی کرتے تھے، لیکن قضاء حاجت کے وقت ذکر کرنا منع ہے، اسی طرح جماع کی حالت میں بھی تلاوت قرآن منع ہے، یہ حدیث ان اوقات کے علاوہ کے لئے ہے، بعض لوگوں نے ذکر قلبی مراد لیا ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث302
اردو حاشہ: (1) تمام اوقات سے مراد یہ ہے کہ خواہ باوضو ہو یا نہ ہوں اللہ کا ذکر فرماتے تھے۔ یعنی زبانی ذکر کے لیے طہارت کا وہ اہتمام ضروری نہیں جو نماز وغیرہ کے لیے ضروری ہے۔ تمام اوقات کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح نماز کے لیے بعض اوقات مکروہ ہیں اللہ کے ذکر کے لیے اس طرح کوئی وقت مکروہ نہیں۔
(2) بعض علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ تلاوت قرآن مجید کے لیے جس طرح حدث اصغر سے پاک ہونا یعنی باوضو ہونا ضروری نہیں۔ اسی طرح حدث اکبر یعنی جنابت سے پاک ہونا بھی شرط نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید بھی ذکر ہے۔ لیکن اولاً تو اللہ کے ذکر کا متبادر مفہوم سُبْحَانَ اللهِ، اَلحَمدُلِلهِ وغیرہ جیسے اذکار ہیں جن کے زبان سے ادا کرنے کو تلاوت قرآن نہیں سمجھاجاتا۔ ثانیاً حالت جنابت میں تلاوت ممنوع ہونے کی متعدد احادیث مروی ہیں۔ جو اگرچہ الگ الگ ضعیف ہیں لیکن علماء کے ایک گروہ کے نزدیک باہم مل کر وہ قابل استدلال ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کا ضعف شدید نہیں اس لیے ان کے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ جنابت کی حالت میں تلاوت سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے الا یہ کہ کوئی ناگزیر صورت پیش آجائے۔ لیکن علماء کا ایک دوسرا گروہ جس میں امام بخاری ؒ امام ابن تیمیہ ؒ اور امام ابن حزم ؒ جیسے حضرات بھی شامل ہیں کہتا ہے کہ ممانعت کی تمام احادیث ضعیف ہیں، اس لیے جنبی اور حائضہ بھی قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہیں۔ واللہ أعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 302
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 73
´وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان` «. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه. رواه مسلم، وعلقه البخاري. . . .» ”. . . ´سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ` ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔“ اسے مسلم نے روایت کیا اور بخاری نے اس کو تعلیقاً نقل کیا ہے۔ . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/باب نواقض الوضوء: 73]
� فوائد و مسائل: ➊ اس کا مطلب یہ ہے کہ جماع اور بول و براز وغیرہ کی حالت میں ذکر سے اجتناب کرنا ہے باقی اوقات میں ذکر کی اجازت ہے۔ ➋ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنابت کی حالت کے علاوہ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ زبان پاک ہے اس لیے زبانی ذکر الہی ہر وقت کیا جا سکتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 73
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 18
´آدمی بغیر طہارت و پاکی کے بھی ذکر الٰہی کر سکتا ہے` «. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ . . .» ”ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کا ذکر ہر وقت کیا کرتے تھے۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 18]
فوائد و مسائل: کسی بھی مسلمان کو مرد ہو یا عورت کسی حال میں بھی اللہ کے ذکر سے غافل نہیں رہنا چاہئیے (سوائے بیت الخلاء وغیرہ کے) باوضو ہو یا بےوضو، طاہر ہو یا جنبی۔ قرآن مجید بھی اللہ کا ذکر ہے مگر حالت جنابت میں ناجائز ہے۔ خواتین کو بھی ایام مخصوصہ میں عام ذکر اذکار کی پابندی کرنی چاہیے۔ مگر ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کے مسئلہ میں اختلاف ہے۔ امام مالک، طبری، ابن المنذر، داؤد اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہم کا میلان مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں یہ ہے کہ مباح اور جائز ہے۔ بالخصوص ایسی خواتین جو قرآن مجید کی حافظہ ہوں یا علوم شرعیہ کے درس و تدریس سے متعلق ہوں ان کے لیے یہ تعطل انتہائی حارج ہوتا ہے۔ جبکہ جنابت کا حدث بہت مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے۔ اگرچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ جنبی کے لیے بھی تلاوت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [صحيح البخاري وفتح الباري، كتاب الحيض، باب تقضي الحائض المناسك كلها....]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 18
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3384
´مسلمان کی دعا کے مقبول ہونے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3384]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: سبھی اوقات سے یہ اوقات مستثنیٰ ہیں مثلاً: پاخانہ، پیشاب کی حالت اور جماع کی حالت، کیوں کہ ان حالات میں ذکر الٰہی نہ کرنا، اسی طرح ان حالتوں میں موذن کے کلمات کا جواب نہ دینا اور چھینک آنے پر (اَلحَمدُ لِلّٰه) نہ کہنا اور سلام کا جواب نہ دینا بہتر ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3384
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 826
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تمام اوقات میں اللی تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:826]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ زندگی کے تمام حالات میں اللہ کو یاد فرماتے تھے کھاتے پیتے سوتے جاگتے مسجد میں داخل اور خارج ہوتے بیت الخلاء میں داخل اور خارج ہوتے اس طرح ہر حالت میں اللہ کو یاد فرماتے اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ آپ ضرورت کے وقت بے وضو بھی اللہ کا ذکر فرماتے تھے لیکن جس طرح بیت الخلاء میں بیٹھ کر یا جماع کی حالت میں ذکر و اذکار درست نہیں ہے یا ان حالات میں قرآن مجید کی تلاوت نہیں ہو سکتی اسی طرح جنابت اور حیض کی حالت میں قرآن کی تلاوت درست نہیں ہے آئمہ کا یہی مؤقف ہے اور یہی درست ہے وگرنہ اگر کل احیان کے عموم کی روسے حیض اور جنابت میں قرآن پڑھنا درست ہے تو پھر بیت الخلاء اور اجماع کی حالت میں بھی جائز ہونا چاہیے وہ بھی کل احیان میں داخل ہیں جبکہ حدیث کا اصل مقصد زندگی کے ہر مرحلہ اور ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا مقصود ہے ہر حالت اور ہر وقت مراد نہیں ہے اگر ہر حالت اور ہر وقت مراد ہے تو آپﷺ نے پیشاب کرنے کے بعد سلام کا جواب کیوں نہ دیا؟