انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنی انگوٹھی اتار دیتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 303]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہارة 10 (19)، سنن الترمذی/اللباس 16 (1746)، الشمائل 11 (93)، سنن النسائی/الزینة 51 (5216)، (تحفة الأشراف: 1512)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/99، 101، 282) (ضعیف)» (اس میں ابن جریج مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، امام دارقطنی کہتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس سے اجتناب کرو، اس لئے کہ وہ قبیح تدلیس کرتے ہیں، وہ صرف ایسی حدیث کے بارے میں تدلیس کرتے ہیں جس کو انہوں نے کسی مطعون راوی سے سنی ہو)
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی میں تین سطریں تھیں، نیچے کی سطر میں «محمد»، اور بیچ کی سطر میں «رسول»، اور اوپر کی سطر میں لفظ «الجلالہ»”اللہ“ مرقوم تھا، اور اسی لفظ کی تعظیم کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اتار دیتے تھے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس میں اللہ کا نام ہو اسے پاخانے وغیرہ نجس جگہوں میں نہ لے جایا جائے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (19) ترمذي (1746) نسائي (5216) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 387
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث303
اردو حاشہ: یہ روایت ضعیف بلکہ منکر ہے۔ صحیح روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی لیکن پھر آپ نے وہ اتاردی۔ دیکھیے: (سنن ابوداؤد، الطھارۃ، باب الخاتم یکون فیہ ذکر اللہ یدخل بہ الخلاء، حدیث: 19) بنابریں بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت نبی ﷺ واقعی انگوٹھی اتاردیتے تھےیا نہیں؟ اس کی بابت کوئی صریح صحیح روایت نہیں تاہم ادب واحترام کا تقاضہ ہے کہ ایسی انگوٹھی یا کتاب وغیرہ جس میں اللہ کا نام ہو بیت الخلاء میں لے جانا مناسب نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 303
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 77
´ گندگی والی جگہوں سے ایسی چیزوں کو دور ہی رکھا جائے جس میں اللہ کا ذکر ہو` «. . . عن انس بن مالك رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا دخل الخلاء وضع خاتمه. . .» ”. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو انگشتری (اپنی انگوٹھی اپنے دست مبارک سے) اتار کر الگ رکھ دیتے تھے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 77]
� لغوی تشریح: «بَابُ آدَابِ قَضَاءِ الْحَاجَةِ» قضائے حاجت، یہ بول وبراز سے کنایہ ہے۔ «اَلْخَلَآءَ»”خا“ کے فتحہ اور الف ممدودہ کے ساتھ ہے۔ خالی جگہ اور خالی مکان کو کہتے ہیں۔ پھر یہ قضائے حاجت کی جگہ کے لیے کثرت سے استعمال ہونے لگا۔ اسے بیت الخلاء بھی کہتے ہیں کیونکہ قضائے حاجت کے اوقات کے علاوہ یہ جگہ عموماً خالی رہتی ہے، اور اس لیے بھی اسے خلا کہتے ہیں کہ انسان کے لیے اس میں خلوت اور تنہائی میسر آتی ہے۔ «وَضَعَ خَاتَمَهُ» اپنی انگوٹھی اتار کر رکھ دیتے کیونکہ اس میں «محمد رسول الله» منقش تھا۔ اور اس میں تنبیہ اور خبردار کرنا مقصود ہے کہ گندگی والی جگہوں سے ایسی چیزوں کو دور ہی رکھا جائے جس میں اللہ کا ذکر ہو۔ «وَھُوَ مَعْلُوْلٌ» معلول اس لیے ہے کہ ہمام نے یہ روایت ابن جریج سے بیان کی ہے اور وہ زہری کے واسطے سے روایت کرتا ہے، حالانکہ ابن جریج نے یہ روایت زہری سے نہیں سنی بلکہ اس نے زیاد بن سعد کے واسطے سے زہری سے سنا ہے اور اس کے الفاظ بھی دوسرے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، پھر اسے اتار دیا۔
فائدہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ اس کو امام ابوداود نے منکر قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اس میں ہمام راوی کو وہم ہوا ہے۔ تاہم ادب واحترام کا تقاضا ہے کہ بیت الخلا وغیرہ ناپاک اور گندی جگہوں میں ایسی کوئی چیز لے کر دیدہ و دانستہ داخل نہیں ہونا چاہیے جس پر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ یا آیات قرآن مجید وغیرہ لکھی ہوئی ہوں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 77
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 19
´پاخانہ میں داخل ہونا تو انگوٹھی رکھ دینا` «. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ وَضَعَ خَاتَمَهُ . . .» ”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ میں داخل ہوتے تو اپنی انگوٹھی نکال کر رکھ دیتے تھے۔۔۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 19]
فوائد و مسائل: اصل روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور پھر اسے اتار دیا۔ گویا بیت الخلا میں جاتے وقت انگوٹھی اتار دینے کی روایت ضعیف ہے۔ تاہم ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ ایسی انگوٹھی یا کتاب وغیرہ، جس میں اللہ کا نام ہو، بیت الخلاء میں لے جانا مناسب نہیں ہے۔ مذکورہ بالا سند کے منکر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمام نے حدیث کا لفظ روایت کرنے میں ثقات کی مخالفت کی ہے اور اس متن کو ایک دوسری حدیث کے متن کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 19
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1746
´داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار دیتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1746]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ایسا اس لیے کرتے تھے کیوں کہ اس پر ”محمد رسول اللہ“ نقش تھا، معلوم ہواکہ پاخانہ پیشاب جاتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ اس کے ساتھ ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے جس کی بے حرمتی ہو، مثلا اللہ اور اس کے رسول کے نام یا آیات قرآنیہ وغیرہ۔
نوٹ: (بطریق (الزهري عن أنس) اصل روایت یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، پھراسے پھینک دیا، اس روایت میں یا تو بقول امام ابوداود ہمام سے وہم ہوا ہے، یا بقول البانی اس کے ضعف کا سبب ابن جریج مدلس کا عنعنہ ہے، انہوں نے خود زہری سے نہیں سنا اور بذریعہ عنعنہ روایت کردیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: ضعیف ابی داود رقم: 4)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1746